امربیل — قسط نمبر ۸

”ہیلو ایاز ! کیسے ہو تم؟” نانو نے آواز پہچانتے ہی کہا تھا۔ ایاز حیدر ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں ممی، آپ کیسی ہیں؟”
”میں بھی ٹھیک ہوں… تم نے آج اس طرح اچانک فون کیسے کیا؟” نانو کو ایک ہفتے میں دوسری بار اپنے بیٹے کی کال آنے پر حیرانی ہوئی… ایاز حیدر اگر بہت جلدی بھی انہیں کال کرتے تو ہفتے میں صرف ایک بار کال کرتے تھے… اور چند دن پہلے وہ ان سے بات کر چکی تھیں۔
”کوئی کام ہے؟” نانو نے اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔




”ہاں میں عمر سے بات کرنا چاہتا ہوں، ویک اینڈ پر آپ کے پاس آیا ہو گا۔”
”نہیں وہ تو جب سے سہالہ گیا ہے… یہاں ویک اینڈ گزارنے نہیں آتا۔”
”مگر سہالہ میں تو وہ نہیں ہے… وہیں سے مجھے پتا چلا ہے کہ وہ ویک اینڈ پر لاہور آیا ہے… میں نے سوچا کہ لاہور میں آپ ہی کے پاس آیا ہو گا۔”
”نہیں وہ یہاں نہیں ہے تم نے موبائل پر اسے کانٹیکٹ نہیں کیا؟”
”اس کے موبائل کا نمبر نہیں ہے میرے پاس۔ آپ کے پاس ہو تو مجھے لکھوا دیں۔”
”ہاں میرے پاس ہے ایک منٹ۔” نانو نے فون کے پاس موجود ڈائری کھول لی۔ ”ہاں یہ نوٹ کرو۔” انہوں نے عمر کا نمبر انہیں نوٹ کروایا ”کیوں کوئی ضروری بات کرنی ہے اس سے؟” نانو کو تجسس ہوا۔
”ہاں، خاصی ضروری بات کرنی ہے، اچھا خدا حافظ۔” ایاز حیدر نے مزیدکوئی تفصیل بتائے بغیر فون بند کر دیا نانو نے کچھ سوچتے ہوئے فون رکھ دیا۔
دو گھنٹے بعد ایاز حیدر نے دوبارہ کال کی۔ اس بار بھی فون نانو نے ہی ریسیو کیا۔
”عمر کا موبائل آف ہے، میں پچھلے دو گھنٹے سے اسے کال کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مگر کامیاب نہیں ہو رہا… آپ کچھ اندازہ لگا سکتی ہیں کہ وہ لاہور میں کہاں ہو گا۔” انہوں نے چھوٹتے ہی نانو سے پوچھا۔
”نہیں میں تو نہیں جانتی کہ وہ یہاں کس کے پاس ہو گا اور پتا نہیں لاہور میں ہے بھی یا نہیں ، ہو سکتا ہے جعفر کے ساتھ ہو اس کے ساتھ خاصی دوستی ہے اس کی۔” نانو نے اپنے ایک دوسرے پوتے کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”نہیں ۔ جعفر کے ساتھ نہیں ہے۔ میں اس کے گھر فون کر چکا ہوں، آپ ایک کام کریں عمر کے بارے میں پتہ کریں، میں کچھ دیر بعد دوبارہ آپ کو فون کرتا ہوں۔” ایاز حیدر نے بہت سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”آخر بات کیا ہے؟ اس طرح عمر کو تلاش کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی ہے تمہیں؟” نانو کو اب تشویش ہونے لگی۔
”میں آپ کو بعد میں بتا دوں گا… فی الحال تو آپ وہی کریں جو میں کہہ رہا ہوں۔” ایاز حیدر نے بہت عجلت میں فون بند کیا تھا۔ نانو فون کا ریسیور ہاتھ میں لئے پریشان ہو رہی تھیں۔
”مرید ! ذرا علیزہ کو بلاؤ۔” انہوں نے خانساماں کو آواز دیتے ہوئے کہا۔ خانساماں سر ہلاتے ہوئے علیزہ کے کمرے کی طرف چلا گیا۔ علیزہ ناشتہ کرکے کچھ دیر پہلے ہی اپنے کمرے میں واپس گئی تھی۔ چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے بہت دیرجاگی تھی اور اب ناشتے کے بعد اپنی ایک اسائنمنٹ تیار کرنے کے لئے بیٹھی ہی تھی۔ جب مرید نے دروازہ بجا دیا۔
”ٹھیک ہے میں آتی ہوں۔” اس نے نانو کا پیغام سننے کے بعد کہا۔
جس وقت وہ لاؤنج میں آئی۔ نانو فون پر کوئی نمبر ڈائل کر رہی تھیں۔
”نانو! آپ نے مجھے بلایا ہے۔”اس نے نانو سے پوچھا۔
”ہاں بیٹھو۔” انہوں نے نمبر ڈائل کرتے ہوئے کہا۔ علیزہ صوفہ پر بیٹھ گئی۔
کال مل گئی تھی۔ نانو عمر کے بارے میں پوچھ رہی تھیں، علیزہ کو حیرانی ہوئی۔ ”یک دم نانو کو عمر میں اتنی دلچسپی کیسے پیدا ہو گئی ۔” اس نے سوچا۔
فون بند کرکے نانو نے بتایا۔”ایاز کا فون آیا تھا۔ وہ عمر سے کوئی بات کرنا چاہتا ہے۔” انہوں نے علیزہ کو بتانا شروع کیا۔
”مگر عمر یہاں لاہور میں تو نہیں ہے۔” علیزہ نے کہا۔
”وہ جانتا ہے مگر وہاں سے اسے پتہ چلا ہے کہ عمر یہاں ویک اینڈ پر لاہور آیا ہوا ہے۔”
”لیکن عمر یہاں تو نہیں آیا، آپ نے انکل ایاز کو یہ نہیں بتایا؟”
”میں یہ بھی بتا چکی ہوں، وہ کہہ رہا تھا کہ پھر میں اس کے تمام فرینڈز سے رابطہ کرکے اس کے بارے میں معلوم کروں۔”
”اس کے فرینڈز سے رابطہ کرنے کی کیا ضرورت ہے، اس کے موبائل پر کال کریں اور اسے بتا دیں کہ انکل ایاز اس سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔” علیزہ نے جیسے حل تجویز کیا۔
”اس کا موبائل فون آف ہے، میں نے تمہیں اسی لئے بلایا ہے کہ تم باری باری اس کے تمام فرینڈز اور سارے رشتہ داروں کے گھر فون کرنا شروع کرو۔”
”نانو! کتنا آکورڈلگے گاکہ میں اس طرح فون کرکے عمر کے بارے میں پوچھوں جیسے وہ کوئی چھوٹا بچہ ہے جو گم ہو گیا ہے، ایاز انکل تھوڑا انتظار کر لیں، وہ ویک اینڈ پر لاہور آیا ہے، کل واپس چلا جائے گا پھر وہ اطمینان سے اس سے بات کر لیں، اتنی افراتفری کی کیا ضرورت ہے۔”
”ایاز کو کوئی ضروری بات کرنی ہے ورنہ ایاز اس طرح آسان سر پر نہ اٹھاتا وہ بھی جانتا ہے کہ کل وہ واپس سہالہ چلا جائے گا اور وہ وہاں اس سے رابطہ کر سکتا ہے۔ پھر بھی وہ اگر اسے ڈھونڈنے پر بضد ہے تو یقیناً کوئی ایمرجنسی ہی ہو گی۔”
” میرا نہیں خیال کہ وہ کسی فرینڈ وغیرہ کے گھر پر ہو گا۔ اگر وہ آپ کے پاس نہیں آیا تو پھر یقیناً ہوٹل میں ٹھہرا ہوگا اور یہاں لاہور میں دو ہی تو ہوٹلز ہیں جہاں وہ ٹھہرتاہے۔ اس لئے وہاں فون کرکے پتہ کر لیتے ہیں۔” علیزہ نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا۔
”ہاں یہ ٹھیک ہے، پہلے ان ہوٹلز میں فون کرتے ہیں۔” علیزہ نے ڈائریکٹری پکڑی اس سے نمبر دیکھ کر نمبر ملایا۔ پہلے ہوٹل میں ہی انہیں عمر کی موجودگی کا پتہ چل گیا۔ ”وہ اس وقت ہوٹل میں نہیں ہے۔ آپ میسج چھوڑ دیں۔”
”ان سے کہیں کہ اپنا موبائل آن کریں یا پھر اپنی گرینی کو فون کر لیں۔” علیزہ نے فون بند کر دیا۔
”انکل ایاز اس سے اتنی ایمرجنسی میں کیا بات کرنا چاہتے ہیں؟” فون بند کرتے ہی علیزہ نے پاس بیٹھی نانو سے پوچھا۔
”یہ تو میں نہیں جانتی۔ میں نے پوچھا بھی مگر ایاز نے بتایا نہیں مگر بہت سنجیدہ لگ رہا تھا۔” نانو نے بتایا۔
”ہو سکتا ہے ۔ عمر کا پھر کوئی جھگڑا ہو گیا ہو انکل جہانگیر سے اور انکل ایاز اسی سلسلے میں بات کرنا چاہتے ہوں۔” علیزہ نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
”میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ یہ تو ایاز ہی بتائے گا تو پتا چلے گا۔” نانو کچھ متفکر نظر آرہی تھیں۔
وہ دونوں وہیں لاؤنج میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں، جب فون کی گھنٹی بجی فون کا ریسیور نانو نے اٹھایا۔ خلاف توقع دوسری طرف عمر تھا۔
”تم نے موبائل آف کیوں کیا ہوا ہے۔ میں کب سے تم سے کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔” نانو نے چھوٹتے ہی شکوہ کیا۔
”آپ کا میسج ملتے ہی آپ کو کال کر رہا ہوں، بائی دا وے، آپ کو یہ کیسے پتا چلا کہ میں یہاں لاہور میں اس ہوٹل میں ٹھہرا ہوا۔” عمر نے ہوٹل کا نام لیتے ہوئے کہا۔
دوسری طرف عمر تھا۔
”ایاز نے فون کیا تھا۔ اسی نے بتایا کہ تم ویک اینڈ پر لاہور آئے ہو اور علیزہ نے اندازاہ لگایا کہ تم ہوٹل میں ٹھہرے ہو گے۔”
”انکل ایاز نے میرے بارے میں آپ سے بات کی۔” اس کا لہجہ سنجیدہ ہو گیا تھا۔
”ہاں وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے، تم سے اس کا رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ اس لئے اس نے مجھے فون کیا اور تمہیں اس طرح ہوٹل میں ٹھہرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا میرے پاس نہیں آسکتے تھے اور یہاں آنے کے بعد تم سے یہ بھی نہیں ہوا کہ مجھے فون ہی کر لیتے۔” نانو کو اپنی شکایتیں یاد آنے لگیں۔
”انکل ایاز مجھ سے کیا بات کرنا چاہتے ہیں انہوں نے آپ کو بتایا؟” عمر نے ان کی شکایت سنی ان سنی کر دی۔
”پتا نہیں اس نے تو کچھ بھی نہیں بتایا بس یہ کہا کہ تم سے اس کا رابطہ کراؤں اب تم اسے فون کر لو یا پھر اپنا موبائل آن رکھو… وہ خود تمہیں فون کر لے گا۔”
”میں انہیں فون کر لیتا ہوں لیکن کوئی اور آپ کو کال کرکے میرے بارے میں پوچھے تو نہ میرا کانٹیکٹ نمبر دیں اور نہ ہی کسی کو یہ بتائیں کہ میں کہاں ٹھہرا ہوں۔” عمر نے اسی سنجیدگی سے کہا۔
”مگر وہ کیوں ؟کیا بات ہے؟” نانو کچھ پریشان ہوئیں۔
”آپ کو پتا چل جائے گا گرینی کہ اس بار آپ کے بیٹے نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔” دوسری طرف عمر نے خاصی تلخی سے کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۷

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!