امربیل — قسط نمبر ۸

”اچھا اور علیزہ کے ذوق کے بارے میں آپ کیسے جانتے ہیں؟” شہلا اب باقاعدہ بحث پر اتر آئی۔
”علیزہ کے صرف ذوق کے بارے میں ہی نہیں جانتے اور بھی بہت کچھ جانتے ہیں ہم۔” اس بار ذوالقرنین کا لہجہ معنی خیز تھا۔
”مثلاً…؟” شہلا نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا۔
”یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر بات آپ کو بتائی جائے مس شہلا۔”
”ارے!کس طرح آپ نے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ جب علیزہ سے رابطہ کرنا چاہ رہے تھے تو واحد ذریعہ میں ہی نظر آرہی تھی اور اب… اب مجھے کچھ بتانا بھی ضروری نہیں لگ رہا۔” شہلا یکدم برامان گئی۔
”تم فضول مت بولا کرو۔ اب چلو یہاں سے۔”




علیزہ نے یکدم اس کا بازو پکڑ کر کھینچنا شروع کردیا۔ اس نے شہلا کو یہ ضرور بتایا تھا کہ ذوالقرنین نے اسے چند بار فون کیا تھا مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ اس سے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے ہے اور اسے خوف تھا کہ مذاق میں ہونے والی اس گفتگو کے دوران ذوالقرنین کوئی ایسی بات نہ کردے جس سے شہلا کو یہ پتہ چل جائے کہ اس نے ذوالقرنین سے رابطے کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا ہے۔
”علیزہ! آپ انہیں کہاں لے جارہی ہیں۔ بھئی! میں تو آپ دونوں کو لنچ کروانے کا سوچ رہا ہوں۔” ذوالقرنین نے فوراً مداخلت کی۔
”لنچ؟ ضرور۔”شہلا فوراً آمادہ ہوگئی۔
”نہیں۔ بہت دیر ہو رہی ہے ابھی مجھے شہلا کے گھر جانا ہے اور پھر واپس اپنے گھر بھی جانا ہے۔” علیزہ نے نظریں ملائے بغیر فوراً کہا۔
”یار میرے گھر جاکر بھی تو ہم نے کھانا ہی کھانا ہے۔ اب ذوالقرنین آفر کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے چلتے ہیں۔ ایڈونچر رہے گا۔” شہلا نے اپنا بازو اس کے ہاتھوں سے چھڑاتے ہوئے کہا۔
”نہیں! شہلا دیر ہو رہی ہے۔”
”کبھی کبھی دیر ہوجانے میں کوئی ہرج نہیں۔ اس کو بھی ایڈونچر ہی سمجھیں۔” ذوالقرنین نے علیزہ کے انکار کے جواب میں کہا۔
”نہیں۔ مجھے جانا ہے۔”
”یار! جب کوئی اتنا اصرار کرے تو اس کی بات مان لینی چاہیے۔ روز روز ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں جو خود بخود ہی لنچ کی دعوت دیتے پھریں۔”
شہلا پر بھی علیزہ کے انکار کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
پھر علیزہ کے مسلسل انکار کے باوجود وہ دونوں اسے ایک ریسٹورنٹ میں لے گئے تھے۔ ذوالقرنین اور شہلا لنچ کے دوران مسلسل چہکتے رہے تھے جبکہ علیزہ بمشکل اپنے حلق سے کھانا نیچے اتارتی رہی۔ ذوالقرنین کے سامنے اس طرح بیٹھ کر کھانا کھانا اس کیلئے ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔ اسے اس کی باتوں پر ہنسی بھی آرہی تھی اور ساتھ یہ خوف بھی تھا کہ اگر نانو کو یہ پتہ چل گیا کہ وہ شہلا کے گھر کے بجائے اس وقت کسی انجان شخص کے ساتھ بیٹھی لنچ کر رہی ہے تو وہ شاید قیامت ہی اٹھادیں گی۔ ذوالقرنین بار بار اسے مخاطب کر رہا تھا وہ نروس ہو رہی تھی۔ شاید اسے اس کا اندازہ بھی تھا، اس لیے وہ بار بار اس حوالے سے بھی مذاق میں تبصرے کر رہا تھا اور علیزہ کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
ایک گھنٹہ ریسٹورنٹ میں گزار کر وہ دونوں وہاں سے نکلی تھیں اور تب تک علیزہ روہانسی ہوچکی تھی۔ شہلا کے گھر جانے کے بجائے وہ اس کے ڈرائیور کے ساتھ واپس گھر آگئی۔
نانو کو اس کے اس ایڈونچر کا پتہ نہیں چل سکا۔ اگلے چند دن وہ اس خدشہ سے ہولتی رہی کہ انہیں کسی نہ کسی ذریعے سے کہیں ذوالقرنین کے ساتھ کیے جانے والے اس لنچ کا پتا نہ چل جائے مگر نانو کو پتا نہیں چل سکا تھا۔ وہ ایک بار پھر نانو کو دھوکا دینے میں کامیاب رہی تھی اور اس کامیابی نے اسے غیرمحسوس طور پر خوش کیا تھا۔ نہ صرف وہ خوش تھی بلکہ اس کے اعتماد میں بھی کچھ اضافہ ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ چند دن بعد… ذوالقرنین کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے اس نے جب اس سے دوبارہ ملنے پر اصرار کیا تو وہ کوشش کے باوجود بھی انکار نہیں کرسکی۔
ان کی اگلی ملاقات فیروز سنز پر ہوئی تھی اور اس بار وہ اکیلی تھی۔ نانو سے اس نے کچھ کتابیں خریدنے کیلئے مارکیٹ جانے کا کہا اور فیروز سنز پہنچ کر اس نے ڈرائیور کو ایک گھنٹہ تک انتظار کرنے کیلئے کہا۔
ذوالقرنین اندر پہلے ہی اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس دن وہ ایک گھنٹہ وہیں اندر کھڑے باتیں کرتے رہے۔
اگلی ملاقات امریکن سینٹر میں ہوئی۔ اس کے پاس امریکن سینٹر اور برٹش کونسل کی لائبریریز کی ممبر شپ تھی، اور پہلے بھی اکثر ان دونوں جگہوں پر جایا کرتی تھی۔ صرف یہ دو جگہیں ایسی تھیں جہاں جانے کی اسے بڑی آسانی سے اجازت مل جایا کرتی تھی۔ اب یہ دونوں جگہیں ان کیلئے ملاقات کا مقام بن چکی تھیں۔ علیزہ کو وہاں یہ خوف نہیں ہوتا تھا کہ کوئی ذوالقرنین کے ساتھ دیکھے جانے پر نانو کو انفارم کردے گا کیونکہ وہ کوئی بھی بہانا بنا سکتی تھی… وہاں بہت سے لوگ آتے جاتے رہتے تھے اور کہا جاسکتا تھا کہ وہ بھی کسی سے رسمی سی گفتگو کر رہی تھی۔
فون پر ذوالقرنین سے ہونے والی گفتگو کا سلسلہ بھی طویل ہوتا جارہا تھا۔ وہ ذوالقرنین سے بات کرنے کیلئے رات دیر تک جاگتی رہتی اور پھر لاؤنج میں آکر اندھیرے میں بیٹھ کر اسے فون کرتی اور ہر روز رات کو وہ نانا اور نانو کے کمرے میں موجود ایکسٹینشن کے پلگ کو نکال دیتی اور پھر صبح سویرے جب نانا واک کیلئے نکل جاتے اور نانو نماز میں مصروف ہوتیں تو وہ ان کے کمرے میں جاکر دوبارہ اسے لگا آتی۔
عورت کی تعریف اسے زیرکرنے کیلئے مرد کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتی ہے اور ذوالقرنین اس ہتھیار کو بخوبی استعمال کرلیتا تھا۔ اس سے بات کر کے علیزہ کو یوں لگتا تھا جیسے وہ اس دنیا کی مخلوق نہ ہو۔ اس کا تعلق کسی دوسری دنیا سے ہو۔ اس دنیا سے جہاں سے ذوالقرنین تعلق رکھتا تھا۔ اس کے سامنے بیٹھے ہوئے اسے پہلی بار احساس ہوا تھا کہ وہ کسی کیلئے کتنی اہم ہے۔ کوئی اس کے دیر سے آنے پر ناراض ہوسکتا ہے۔ علیزہ سکندر خود کو پہلی بار دریافت کر رہی تھی یا شاید زندگی کو پہلی بار دریافت کر رہی تھی۔
اس کیلئے ہر چیز جیسے مکمل طور پر بدل گئی تھی۔ ذوالقرنین جیسے ہر جگہ موجود رہنے لگا تھا۔ جہاں وہ نہ ہوتا وہاں اس کی آواز ہوتی، جہاں اس کی آواز نہ ہوتی وہاں اس کا خیال ہوتا جہاں اس کا خیال نہ ہوتا۔ وہاں… وہاں علیزہ سکندر کیلئے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہر بار فون رکھنے کے بعد وہ اگلے فون پر اس سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں سوچنا شروع کردیتی۔ اسے کیا کہنا تھا… ذوالقرنین کس بات کے جواب میں کیا کہے گا اس کے ذہن میں اس کے علاوہ کچھ نہیں رہتا تھا۔
ان دنوں پہلی بار اس نے اپنے ذہن میں اپنے ماں، باپ کے بارے میں سوچنا ختم کردیا تھا۔ ذوالقرنین کی محبت نے جیسے دوسری ہر محبت، ہر رشتہ کی جگہ لے لی تھی۔ اسے یوں لگنے لگا تھا جیسے اپنے ماں، باپ کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ اپنا وقت ضائع کر رہی تھی۔ وہ عمر کو بھی مکمل طور پر فراموش کرچکی تھی۔
”آپ کا کیا خیال ہے اگلے الیکشن میں کون سی پارٹی کی حکومت آئے گی؟”
اسلام آباد میں ایک فیڈرل سیکرٹری کے گھر ہونے والی اس پارٹی میں عمر لئیق انکل کے ساتھ جس ٹیبل پر بیٹھا ہوا تھا، وہاں ان سروس اور ریٹائرڈ بیورو کریٹس کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی اور ہونے والی گفتگو کا موضوع اگلے الیکشنز تھے۔ ملک میں مارشل لاء کے ایک لمبے عرصے کے بعد بننے والی پہلی جمہوری حکومت کو کچھ عرصہ پہلے برطرف کیا جاچکا تھا اور اب عبوری حکومت ملک چلا رہی تھی اور بیسویں صدی کے اس آخری عشرے میں جمہوریت کے اس پہلے تجربے کی ناکامی کے بعد جانے والی حکومت کے مختلف عہدیداروں کی طرف سے کی جانے والی حماقتوں پر کھل کر ہنسا جارہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ آنے والی حکومت کے بارے میں اندازے لگائے جارہے تھے۔
”ایک بات تو طے ہے کہ اگلے الیکشن میں یہ پارٹی تو برسر اقتدار نہیں آسکتی جس کی حکومت برطرف کی گئی ہے۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۷

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!