امربیل — قسط نمبر ۸

وہ اپنے کمرے میں ایک کتاب پڑھنے میں مصروف تھا جب دروازے پر دستک ہوئی۔ ”کم ان” عمر نے کتاب سے نظر اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ دروازہ آہستہ آہستہ کھلا اور عمر نے علیزہ کو اندر آتے دیکھا۔ عمر وال کلاک کو دیکھتے ہوئے کچھ حیران ہوا۔ رات کے اس وقت علیزہ کا وہاں آنا خاصا حیران کن تھا۔
”میں نے آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا؟” اس نے اندر آکر پوچھا۔
”ناٹ ایٹ آل… آؤ بیٹھو۔۔۔” عمر نے کتاب بند کرکے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
وہ کچھ سوچتے ہوئے کمرے میں موجود صوفہ پر بیٹھ گئی، عمر اس کا چہرہ دیکھنے لگا وہ اب کارپٹ پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔
”کوئی پریشانی ہے؟” عمر نے اسے مسلسل خاموش دیکھ کر گفتگو شروع کرنے میں اس کی مدد کی۔




”نہیں۔۔۔”اس نے اسی طرح کارپٹ پر نظریں جمائے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
چند لمحے کمرے میں خاموشی رہی پھر علیزہ نے خاموشی کو توڑا۔
”آپ مجھے رات کے اس وقت یہاں دیکھ کر حیران ہوئے ہوں گے؟”
”نہیں۔” اس بار عمر نے اسی کے انداز میں جواب دیا۔ علیزہ نے بے اختیار سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ بے حد پر سکون نظر آرہا تھا”تم اگر یہ سوچ کر پریشان ہو رہی ہو کہ میں گرینی کو تمہارے بارے میں کچھ بتا دوں گا، تو بے فکر رہو… میں ایسا نہیں کروں گا۔”
علیزہ نے بے اختیار ہونٹ بھینچ لیے، وہ خود ہی اس موضوع پر آگیا تھا۔
”آپ مجھ سے پوچھیں گے نہیں؟” اس نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔
”مثلاً کیا؟” عمر اب بھی اسی طرح پر سکون تھا۔
”آج… کے… واقعہ… کے بارے میں” اس نے کچھ لڑکھڑاتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔” اس نے اطمینان سے کہا۔
”کیوں؟” وہ بے چین ہوئی۔
”یہ تمہارا پرسنل معاملہ ہے، تمہاری اپنی زندگی ہے۔ جو چاہے کرو۔” عمر کے لہجے میں لاپروائی تھی اور علیزہ کو یہ لا تعلقی اچھی نہیں لگی۔
”آپ واقعی مجھ سے کچھ نہیں پوچھیں گے۔” اسے ابھی بھی جیسے عمر کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔
”نہیں میں واقعی کچھ نہیں پوچھوں گا، لیکن تم اگر کچھ بتانا چاہتی ہو… تو ٹھیک ہے، میں سن لیتا ہوں۔”
”کیا آپ کو میری حرکت بری نہیں لگی؟”
”میں نے اس بارے میں سوچا نہیں… اور ویسے بھی مجھے دوسروں کے کاموں میں فتوے دینے کا کوئی شوق نہیں ہے۔” اس نے بڑی صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”پھر آپ نے نانو سے میرے بارے میں جھوٹ کیوں بولا؟”
”تمہیں بچانے کے لئے۔”
”اور آپ مجھے بچانا کیوں چاہتے ہیں؟”
”کیونکہ تم میری دوست اور کزن ہو، دوستوں کے لئے میں اکثر جھوٹ بولتا رہتا ہوں۔” وہ بڑے دوستانہ انداز میں کہہ رہا تھا۔
”آپ کو مجھ سے کچھ توپوچھنا چاہئے۔”
”مثلاً کیا؟”
”یہی کہ میں کہاں گئی تھی؟”
”تم کہاں گئی تھیں علیزہ؟” عمر نے اسی کے انداز میں اس کا سوال دہرا دیا۔
وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کہا ”ذوالقرنین کے ساتھ۔”
”اور یہ… یہ ذوالقرنین کون ہے؟” اس بار عمر نے اگلا سوال خود ہی کیا تھا۔
”میرا فرینڈ ہے۔”
”کب سے دوستی ہے تمہاری اس کے ساتھ؟”
”اور یہ شخص کرتا کیا ہے؟”
”تقریباً ڈیڑھ ماہ ہوا ہے۔”
”میڈیکل کالج میں ہے۔”
”تمہاری دوستی کیسے ہوئی؟”
وہ اب آہستہ آہستہ اس سے سب کچھ اگلوا رہا تھا، علیزہ نے اسے ذوالقرنین کے ساتھ ہونے والی پہلی ملاقات کے بارے میں بتا دیا۔
”تم اس سے اکثر ملتی ہو؟”
”اکثر تو نہیں، مگر ملتی ہوں۔” اس نے اعتراف کیا۔
”اسی طرح کالج سے غائب ہو کر؟”
”نہیں، آج پہلی بار کالج سے گئی تھی ورنہ پہلے تو کبھی نہیں گئی… ہم برٹش کونسل میں ملتے ہیں۔”
”اور آج کہاں گئی تھیں؟”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۷

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!