امربیل — قسط نمبر ۸

عمر اب موبائل نکال رہا تھا ” میں گرینی سے بات کرنے لگا ہوں، انہیں تمہارے بارے میں بتا رہا ہوں… تم تب تک یہ طے کر لو کہ تمہیں ان سے کیا کہنا ہے، مگر ان سے بات کرتے ہوئے اپنی آواز اور نروز پر قابو رکھنا۔ گھبرانا مت۔”
وہ اس کو اس طرح ہدایت دے رہا تھا، جیسے ذوالقرنین کی بجائے وہ خود اسے اپنے ساتھ لے کر گیا تھا… علیزہ کو یوں لگا جیسے وہ زمین میں دھنسنے لگی ہو۔
وہ جوس پیتے ہوئے موبائل پر گھر کا نمبر ڈائل کر رہا تھا۔ فون حسب توقع نانو نے ہی اٹھایا تھا شاید وہ تب سے فون کے پاس ہی بیٹھی تھی۔
”ہیلو گرینی…! میں عمر بول رہا ہوں۔”




”علیزہ کا کچھ پتا چلا؟” نانو نے اس کی آواز سنتے ہی پوچھا۔
”ہاں گرینی…! نہ صرف پتا چلا ہے بلکہ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ہے۔ ہم واپس گھر آرہے ہیں۔ میں نے آپ کو یہی بتانے کے لئے فون کیا ہے۔” عمر نے اپنے لہجے کو حتی الامکان پر سکون رکھتے ہوئے کہا۔
”اوہ خدایا… تیرا شکر ہے ، وہ کہاں تھی؟” نانو نے بے اختیار سکون کا سانس لیتے ہوئے اگلا سوال کیا۔
”وہ کالج میں ہی تھی۔” علیزہ عمر کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی جو بڑی روانی سے جھوٹ بول رہا تھا۔ ”اندر ہی کچھ کلاس فیلوز کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی، اس کے کسی کلاس فیلو کی برتھ ڈے پارٹی تھی۔ اسے چھٹی کے وقت کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہوا۔ جب وہ گیٹ پر آئی تب تک صدیق چوکیدار سے اس کے بارے میں پوچھ کر جا چکا تھا اب میں یہاں پہنچا ہوں تو وہ یہاں پریشان بیٹھی تھی۔ گھربھی اس نے دو تین بار فون کیا مگر فون انگیج مل رہا تھا میرا خیال ہے اس نے اسی وقت فون کیا ہو گا جب آپ شہلا کی ممی سے بات کر رہی تھیں۔”
”مگر چوکیدار تو کہہ رہا تھا کہ وہ صبح کالج آئی ہی نہیں۔” نانو کے لہجے میں اب تشویش کی بجائے غصہ تھا۔
”ہاں میں نے چوکیدار سے پوچھا تھا وہ شرمندہ ہو گیا۔ وہ کسی دوسری علیزہ کی بات کر رہا تھا اور اسے واقعی یہ پتا نہیں تھا کہ اندر لڑکیاں کسی پارٹی میں مصر وف ہیں۔” وہ جھوٹ پر جھوٹ بولنے میں مصروف تھا۔
”تم علیزہ سے میری بات کرواؤ۔” نانو نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ عمر نے موبائل علیزہ کی طرف بڑھا دیا۔
”گرینی سے بات کرلو۔”
علیزہ نے کچھ نروس ہو کر موبائل ہاتھ میں لیا۔
”لاپروائی کی حد کر دی تم نے۔” موبائل پر ہیلو کہتے ہی اس نے دوسری طرف نانو کو کہتے سنا ”میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ تم اتنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر سکتی ہو، تمہیں شرم آنی چاہئے۔ تمہاری وجہ سے کتنی پریشانی اٹھانی پڑی ہے مجھے۔”
نانو اس کی بات سنے بغیر مسلسل بول رہی تھیں اور اس وقت علیزہ کو اسی میں اپنی عافیت محسوس ہو رہی تھی کہ وہ چپ چاپ ان کی جھڑکیاں کھاتی رہے۔ وضاحتیں پیش کرنے سے اس وقت یہ کام بہرحال بہتر تھا وہ ڈوبتے ڈوبتے بچ گئی تھی۔ نانو کچھ دیر اسی کام میں مصروف رہیں، پھر انہوں نے جلدی گھر آنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔
عمر تب تک گاڑی کو دوبارہ سڑک پر لا چکا تھا، علیزہ نے موبائل بند کرنے کے بعد اس کی طرف بڑھا دیا۔ گاڑی میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔
کچھ دیر پہلے اگر وہ خوفزدہ تھی تو اس وقت وہ بے حد شرمندہ تھی۔ عمر نے اگرچہ اسے نانو کے سامنے کسی جواب دہی سے بچا لیا تھا، مگر خود اس کی خاموشی اسے چبھ رہی تھی۔
کیا یہ مجھ سے واقعی کچھ بھی پوچھنا نہیں چاہتا؟
کیا یہ مجھ سے ناراض ہے؟ یہ میرے بارے میں کیا سوچ رہا ہے؟
یہ اب مجھے اچھی لڑکی تو نہیں سمجھ رہا ہو گا۔
بہت سے سوال اسے یکے بعد دیگرے بے چین کر رہے تھے۔
دوسری طرف عمر اسی لاپروائی اور بے نیازی سے گاڑی چلانے میں مصروف تھا۔
وہ اب یہ سوچنے میں مصروف تھی کیا اسے خودعمر کو مخاطب کر لینا چاہئے، اور یہ ایسا کام تھا جو وہ خود کرنے کی ہمت نہیں پا رہی تھی۔ اسے حیرت ہو رہی تھی کہ کیا عمر واقعی اس سے کچھ پوچھنا نہیں چاہتا تھا کیا اسے کوئی تجسس نہیں ہے، کہ میں کہاں گئی تھی اور کسی کے ساتھ گئی تھی، اور اس نے نانو سے میرے بارے میں جھوٹ کیوں بولا ہے، کیا یہ واقعی میری اتنی پروا کرتا ہے کہ مجھے ہر نقصان سے بچانا چاہتا ہے۔ یا پھر یہ مجھ پر احسان کرکے…
وہ اب اس کی خاموشی سے الجھنے لگی۔
کیا یہ وہ واقعی نانو نانا سے یہ بات چھپائے رکھے گا کہ میں کسی لڑکے کے ساتھ گئی تھی یا پھر یہ میرے سامنے ایک ڈرامہ کر رہا ہے۔
وہ سوچ رہی تھی اور اس کے پچھتاوے میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
مجھے ذوالقرنین کے ساتھ نہیں جانا چاہئے تھا اگر میں اس کے ساتھ نہ جاتی تو آج کم از کم میں اس طرح عمر سے نظریں نہ چرا رہی ہوتی۔ وہ سوچ رہی تھی۔
آج پہلی بار ذوالقرنین کے اصرار پر اس کے ساتھ گئی تھی ورنہ اس سے پہلے اس کی ذوالقرنین سے ملاقاتیں صرف برٹش کونسل اور ایک دو جگہوں تک ہی محدود تھیں۔ وہ ان جگہوں پر جاتی، ذوالقرنین پہلے سے وہاں موجود ہوتا، دونوں کچھ دیر وہاں بیٹھے باتیں کرتے رہتے اور پھر واپس چلے آتے… مگر عمر کے آنے کی وجہ سے اس کا برٹش کونسل کا شیڈول بری طرح متاثر ہو رہا تھا۔ وہ کوشش کے باوجود ذوالقرنین سے مل نہیں پا رہی تھی کیونکہ نانو ہر جگہ عمر کو اس کے ساتھ بھیجنے کی کوشش کرتیں۔ خود عمر بھی بڑی خوش سے اس کے ساتھ چلنے پر آمادہ رہتا اور یہ چیزہ علیزہ کو بری طرح ڈسٹرب کر رہی تھی شاید یہ اسی فرسٹریشن کی وجہ سے تھا کہ جب ذوالقرنین نے اس سے کالج سے اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا تو وہ زیادہ دیر تک انکار نہیں کر سکی تھی۔
ڈرائیور نے صبح اسے کالج اتارا تھا اور وہ ڈرائیور کے جانے تک کالج کے گیٹ کے اندر نہیں گئی تھی اور جب ڈرائیور چلا گیا تو وہ گیٹ سے کچھ فاصلے پر کھڑی ذوالقرنین کی گاڑی کی طرف گئی تھی۔ جسے وہ کالج آتے ہوئے دیکھ چکی تھی اور پھر وہ دونوں سارا دن جگہ جگہ گھومتے رہے تھے۔ ذوالقرنین نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کالج کی چھٹی ہونے کے وقت اسے کالج کے باہر ڈراپ کر دے گا اور وہاں سے وہ اپنے گھر چلی جائے گی مگر ذوالقرنین کے ساتھ پھرتے ہوئے اسے وقت گزرنے کا بالکل احساس نہیں ہوا اور جس وقت ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے لنچ کرتے ہوئے اسے یہ خیال آیا… اس وقت کالج کو بند ہوئے بہت دیر ہو چکی تھی اور تب صحیح معنوں میں علیزہ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے۔
اس کے برعکس ذوالقرنین بالکل خوفزدہ نہیں تھا بلکہ وہ اسے بھی تسلیاں دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر اس کی تسلیوں نے اس پر کوئی زیادہ اثر نہیں کیا تھا، کالج پہنچتے پہنچتے ساڑھے تین بج چکے تھے اور رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی تھی۔ جب علیزہ نے عمر کی گاڑی کو کالج کے گیٹ پر کچھ فاصلے پر دیکھا تھا۔اس نے ذوالقرنین کو اس وقت وہاں عمر کی موجودگی کے بارے میں نہیں بتایا تھا مگر اس کا جسم تب تک کانپنا شروع ہو چکا تھا اسے توقع تھی کہ عمر کے ساتھ نانو بھی وہاں ہوں گی اور شاید وہ اس وقت کالج کے اندر ہوں گی مگر بعد میں عمر کو اکیلا وہاں دیکھ کر اسے کچھ حیرت ہوئی اور عمر کے اب تک کے رویے نے اس حیرت میں بتدریج اضافہ ہی کیا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۷

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!