امربیل — قسط نمبر ۸

”مگر میں شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔” وہ کچھ تنگ آگیا۔
”کیوں؟”
”بس میرا دل نہیں چاہتا۔”
”جہانگیر اور زارا کی ڈایؤورس کی وجہ سے؟”
”آپ جو چاہیں سمجھ لیں۔”
”ضروری تو نہیں ہے کہ اگر پیرنٹس کی شادی ناکام رہے تو بچوں کی بھی اتنی ہی ناکام رہے۔”




”مجھے پیرنٹس کی شادی کی ناکامی سے کوئی غرض نہیں ہے۔ میں بس اپنے کندھوں پر کوئی ذمہ داری لادنا نہیں چاہتا اور شادی جیسا احمقانہ کام کم از کم اس عمر میں، میں افورڈ نہیں کرسکتا بلکہ شاید کسی بھی عمر میں… اور ہاں! میں کل واپس جارہا ہوں۔” عمر نے بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
لئیق انکل چونک گئے۔۔”کل؟… کیوں…؟ اتنی جلدی جانے کی کیا ضرورت ہے؟”
”اتنی جلدی تو نہیں جارہا ہوں، بہت دن ہوگئے ہیں۔ ویسے بھی اب یہاں میرا کوئی کام نہیں ہے۔”
”تم نے جہانگیر کو بتا دیا ہے۔”
”آپ ان کو بتا دیں میں بتانا نہیں چاہتا۔ میں دوبارہ ان سے کوئی جھگڑا نہیں کرنا چاہتا۔” اس نے بڑی لاپروائی سے کہا۔
”سائیکالوجسٹ سے ملوانا چاہتے تھے وہ مجھے… میں مل چکا ہوں… دوسرے ضروری کام بھی کرچکا ہوں… اب صرف فنکشنز اٹینڈ کرنے کیلئے تو یہاں نہیں رہ سکتا۔”
”چلو ٹھیک ہے۔ فنکشنز اٹینڈ مت کرو… ویسے ہی رہو، چند دن تک ثمرین بھابھی بھی اسلام آباد آرہی ہیں۔ ان کے آنے تک تو تمہیں یہاں رہنا چاہیے۔” لئیق انکل نے اسے اطلاع دی۔
”کیوں ان کے آنے تک میں کیوں یہاں رہوں۔ میرا ان سے ملنا ضروری نہیں ہے۔ جب میں ان کے ساتھ ان کے گھر پر رہا کرتا تھا یا ہاسٹل سے چھٹیاں گزارنے گھر آتا تھا تو انہوں نے کبھی گھر پر میرا انتظار نہیں کیا۔ پھر اب ان کے ساتھ ایسی کون سی ٹریجڈی ہوگئی ہے کہ میں ان کا انتظار کروں۔ وہ پاپا کی زندگی میں خود بھی دوسری بیوی بن کر آئی تھیں۔ پھر اب اگر کوئی تیسری بیوی آگئی ہے تو کون سی قیامت آگئی ہے… برداشت کریں… جیسے دوسرے بہت سے لوگوں نے انہیں برداشت کیا تھا۔ ویسے بھی وہ تو پاپا کو آئیڈیل مین کہا کرتی تھیں، پھر ان جیسا perfectionist اب انہیں اپنی زندگی کے جس حصے میں رکھنا چاہ رہا ہے وہ چپ کر کے رہیں۔ اتنا شور کرنے کی کیا ضرورت ہے۔’ ‘اس کے لہجے میں تلخی تھی۔
”عمر! تم اب جاؤ… مجھے ان فائلز کو دیکھنا ہے۔”
لئیق انکل نے اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے بڑی سردمہری سے سامنے پڑی فائل پر نظریں جمالیں۔
”ٹھیک ہے! میں جارہا ہوں۔ صبح کی فلائٹ سے میں لاہور چلا جاؤں گا۔ پاپا سے آپ کی بات ہو تو ان کو بتادیں۔”وہ کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
٭٭٭
علیزہ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی ٹھٹھک گئی۔ عمر، نانو کے ساتھ صوفہ پر بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ علیزہ کو دیکھ کر وہ مسکرایا۔
”ہیلو علیزہ! میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔”
”آپ کب آئے؟” وہ کندھے سے اپنا بیگ اتارتے ہوئے کچھ آگے بڑھ آئی۔
”صبح آیا تھا۔ تم تب کالج جاچکی تھیں۔” عمر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”بالوں کا نیا اسٹائل۔” عمر نے ستائشی انداز میں اس کے کندھوں پر جھولتے بالوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ یکدم کچھ گڑبڑا گئی۔
”یار! یہ ہیرکٹ بہت سوٹ کر رہا ہے تمہیں۔” وہ کچھ بول نہیں سکی۔
”کیوں گرینی؟” اب وہ نانو سے پوچھ رہا تھا۔ انہوں نے مسکرا کر سرہلایا۔
”میں کپڑے چینج کر کے آتی ہوں۔”
وہ یکدم بیگ پکڑ کر کھڑی ہوگئی۔ لاشعوری طور پر وہ نروس ہونے لگی تھی۔
عمر نے لاؤنج سے نکلتے ہوئے اسے غور سے دیکھا۔ پھر وہ نانو کے ساتھ دوبارہ باتوں میں مصروف ہوگیا۔
علیزہ کچھ پریشان ہو کر اپنے کمرے میں آئی تھی۔ عمر کے اسلام آباد جاتے ہوئے وہ جتنی اداس اور پریشان تھی اس کی واپسی نے بھی اسے اتنا ہی پریشان کر دیا تھا۔ اسے عمر کا یکدم واپس آجانا اچھا نہیں لگا۔ نانو اور نانا سے پچھلے چند ہفتوں سے جاری اپنی سرگرمیاں چھپانا آسان تھا مگر عمر سے… وہ کچھ دیر پریشانی کے عالم میں بیڈ پر بیٹھی رہی۔ پھر خاصی بے دلی کے عالم میں اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ آج بھی اسے برٹش کونسل میں ذوالقرنین سے ملنا تھا اور اب عمر کو دیکھ کر اسے اپنا پروگرام غارت ہوتا نظر آرہا تھا کیونکہ عمر یقیناً اس کے ساتھ گفتگوکیلئے اسے گھر پر رہنے پر مجبور کرتا۔
دوپہر کا کھانا اس نے عمر اور نانو کے ساتھ کھایا تھا۔ عمر کھانے کی میز پر مسلسل چہک رہا تھا۔ علیزہ نے اسلام آباد جاتے ہوئے اس کے چہرے پر افسردگی اور تناؤ کی جو کیفیت دیکھی تھی وہ اب یکسر مفقود تھی۔ وہ نانو کو اسلام آباد میں لئیق انکل کے گھر والوں کے حالات و واقعات سنانے میں مصروف تھا اور علیزہ یہ سوچ رہی تھی کہ وہ نانو سے اس کے سامنے برٹش کونسل جانے کی اجازت کیسے لے۔
کھانا کھانے کے بعد یکدم عمر اٹھ کر چند لمحوں کیلئے اپنے کمرے میں گیا اور علیزہ نے موقع غنیمت جانتے ہوئے نانو سے برٹش کونسل جانے کی اجازت لے لی۔ نانو نے اسے جلد واپس آنے کی تاکید کی۔
”ڈونٹ وری نانو! میں جلدی آجاؤں گی۔” وہ بہت مسرور ہو کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
بیگ لے کر جب وہ واپس لاؤنج میں آئی تو اس نے عمر کو ایک بار پھر نانو کے پاس پایا۔ علیزہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف بڑھی تھی کہ اس نے عمر کو کھڑے ہوتے اور نانو کو اپنا نام پکارتے دیکھا۔
”علیزہ! رکو۔ عمر بھی تمہارے ساتھ جارہا ہے۔”
وہ گڑبڑا گئی ”میرے ساتھ…؟”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۷

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!