امربیل — قسط نمبر ۸

”تم نے ذوالقرنین سے بات کی؟”
اس واقعہ سے تقریباً ایک ہفتے کے بعد عمر نے ایک شام اس سے پوچھا۔
”ہاں۔۔۔”
”پھر…؟”
”وہ آپ سے ملنا نہیں چاہتا۔” علیزہ نے اس سے نظریں ملائے بغیر کہا۔
”کیوں؟” عمر کو بہت حیرت نہیں ہوئی۔
”یہ مجھے نہیں پتا… وہ کہہ رہا تھا کہ آپ کو اس سے کیا بات کرنی ہے؟”
”تم نے اسے نہیں بتایا؟”
”نہیں… مجھے بہت مشکل لگ رہا تھا۔” اس نے کچھ ندامت سے کہا۔
”مگر بات تو اس سے کرنا ہی ہے۔ آج نہیں تو کل… کل نہیں تو پرسوں۔”




”میں کیا کروں… وہ ملنا نہیں چاہتا، تو میں اسے مجبور کیسے کر سکتی ہوں؟” علیزہ نے بے چارگی سے کہا۔
”اگر وہ تمہارے بارے میں واقعی سیریس ہے تو اسے مجھ سے ملنے سے ڈرنا نہیں چاہئے۔” عمر اب سنجیدہ ہو گیا تھا۔
”علیزہ !کیا وہ تمہارے بارے میں واقعی سیریس ہے؟”
”ہاں… میں نے آپ سے کہا ہے نا وہ دوسروں سے Differentہے۔”
علیزہ نے عمر کو یقین دلانے کی کوشش کی۔ عمر کچھ دیر خاموش رہا۔
”اگلی بار تم اس سے کہاں مل رہی ہو؟”
علیزہ بلش ہوئی۔
”کہیں بھی نہیں… اب میں اس سے نہیں ملوں گی۔”
”میں چاہتا ہوں، تم اس سے ملو اور اس بار میں تمہارے ساتھ جاؤں گا۔”
”مگر وہ آپ سے ملنا نہیں چاہتا۔”
”اسے پہلے سے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اس سے کہوں گا کہ میں تمہیں چھوڑنے آیا ہوں، اور پھر اس سے کچھ بات چیت ہوگی۔” عمر نے جیسے مسئلے کا حل نکال لیا تھا۔
”لیکن اگر وہ ناراض ہو گیا تو؟” علیزہ کو فکر ہونے لگی۔
”ناراض کس بات پر ہو گا؟”
”اس طرح آپ سے ملوانے پر۔”
”تم نے خود کہا ہے وہ ایک مختلف آدمی ہے۔ میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں وہ کتنا Different ہے۔ اگر وہ تمہارے بارے میں واقعی سنجیدہ ہے تو ناراض نہیں ہو گا، اور میں اس سے لڑنے تو نہیں جا رہا۔ اچھے ماحول میں بیٹھ کر اس سے کچھ اچھی اچھی باتیں ہوں گی۔ اس میں خفگی کہاں سے آجاتی ہے۔”
عمر اسے مطمئن کر رہا تھا علیزہ سوچ میں پڑ گئی۔
”ٹھیک ہے، میں آپ کو اس سے ملوا دیتی ہوں۔” کچھ دیر بعد وہ جیسے کسی فیصلہ پر پہنچ گئی۔
”تم اسے کہاں بلواؤ گی؟”
”برٹش کونسل۔” اس نے کہا عمر نے حیرانی سے اسے دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
”اچھا تو میرے ساتھ برٹش کونسل جانے پر اس لئے اعتراض ہوا تھا، وہاں ذوالقرنین صاحب سے ملاقات ہوتی ہوگی۔”
علیزہ اس کی بات پر خجل ہو گئی۔
”بہرحال تم برٹش کونسل کے بجائے اسے کسی پارک میں بلواؤ۔” عمر نے جگہ طے کرتے ہوئے کہا ”یا پھر کسی ریسٹورنٹ میں۔”
٭٭٭
”تیسرے دن وہ عمر کے ساتھ ایک پارک کی پارکنگ میں موجود تھی۔ کار سے اترتے ہوئے وہ نروس ہو رہی تھی اس نے ذوالقرنین کو یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ آج عمر کو بھی ساتھ لا رہی ہے اور اب وہ خوفزدہ تھی کہ کہیں ذوالقرنین اس بات پر ناراض نہ ہو جائے۔
ذوالقرنین پارک کے اندر مخصوص بینچ پر بیٹھا ہوا تھا عمر کے ساتھ چلتے ہوئے علیزہ نے اسے دور سے ہی کھڑے ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔ شاید اس نے علیزہ کو آتے ہوئے دیکھا لیا تھا اور نہ صرف علیزہ کو بلکہ اس کے ساتھ آتے ہوئے عمر کو بھی اور اس کے کھڑے ہونے کی وجہ بھی یہی تھی۔
اس کے پاس پہنچ کر اس نے ذوالقرنین کے چہرے پر بوکھلاہٹ اور ناگواری کے تاثرات دیکھے تھے۔
”ہیلو، میں عمر ہوں آپ یقیناً ذوالقرنین ہیں۔”
عمر نے اس کے پاس پہنچ کر نہایت دوستانہ انداز میں ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ذوالقرنین نے کسی مسکراہٹ کے بغیر اس سے ہاتھ ملایا۔
”آپ سے ملنے کا خاصا شوق تھا مجھے… علیزہ کافی تعریف کرتی رہتی ہے آپ کی۔”
عمر اس کی سرد مہری سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔
”میں نے سوچا مجھے بھی ملنا چاہئے آپ سے، مجھے تو آپ جانتے ہی ہوں گے، میں علیزہ کا کزن ہوں۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۷

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!