امربیل — قسط نمبر ۸

ذوالقرنین اب بھی کچھ بول نہیں پا رہا تھا شاید اس کے لئے علیزہ کی یہ حرکت اتنی غیر متوقع اور حیران کن تھی کہ اسے اپنے اوسان پر قابو پانے میں وقت لگ رہا تھا۔
”آپ مجھ سے ملنا کیوں چاہتے تھے؟” ذوالقرنین نے بالآخر عمر سے کہا اس کا لہجہ خاصا خشک تھا۔
”بس ایسے ہی کچھ باتیں کرنی تھیں آپ سے۔”
”کیا باتیں کرنی تھیں؟”
”اس طرح کھڑے کھڑے کیا بات ہو سکتی ہے۔ آرام سے بیٹھتے ہیں۔ کوئی ایسی بھی خاص بات نہیں ہے۔” عمر نے مسکراتے ہوئے بینچ کی طرف اشارہ کیا۔
”نہیں مجھے جلدی ہے، کچھ کام ہے… یہ تو علیزہ نے اصرار کیا تو میں یہاں ملنے کے لئے آگیا، ورنہ آج میرے پاس بالکل وقت نہیں تھا۔”
ذوالقرنین نے اپنی رسٹ واچ پر نظر دوڑاتے ہوئے عمر سے کہا۔
”آپ کو جو بات کرنی ہے ،وہ جلدی کریں۔” عمر نے ذوالقرنین کو خاصی گہری نظروں سے دیکھا۔ ذوالقرنین کو اس کی نظروں سے الجھن ہوئی تھی۔
”علیزہ کو کب سے جانتے ہو؟” اس نے ذوالقرنین سے پوچھا۔




”یہ بات تو آپ علیزہ سے بھی پوچھ سکتے تھے۔ کیا صرف اتنی سی بات جاننے کے لئے یہاں آئے ہیں؟”
”نہیں جاننا تو کافی کچھ ہے۔ یہ تو بس ویسے ہی پوچھ لیا۔”
”ایک ڈیڑھ ماہ ہوا ہے۔” ذوالقرنین اب پر سکون ہوتا جا رہا تھا۔
”علیزہ بتا رہی تھی، آپ دونوں کی خاصی انڈر اسٹینڈنگ ہے۔”
اس بار ذوالقرنین نے خاصے غور سے علیزہ اور عمر کو باری باری دیکھا۔
”ہو سکتا ہے علیزہ نے ایسا محسوس کیا ہو، میں کیا کہہ سکتا ہوں۔”
”آپ کی کافی دوستی ہے علیزہ کے ساتھ؟”
”ہاں ہے۔”
”اکثر ملتے رہتے ہیں؟”
”اکثر ؟ یونہی کبھی کبھار ملتے ہیں۔”
”میں جاننا چاہ رہا ہوں کہ یہ دوستی کس سلسلے میں ہے؟ کیا آپ علیزہ کے بارے میں سیریس ہیں؟”
”سیریس سے کیا مراد ہے آپ کی؟”
”میرا مطلب ہے شادی کرنا چاہتے ہیں اس سے؟”
”واٹ شادی… یہ آپ سے کس نے کہا؟”
علیزہ کا رنگ فق ہو گیا عمر اسی پر سکون انداز میں اس کا چہرہ دیکھتا رہا، ذوالقرنین اب ناراض نظر آرہا تھا۔
”شادی نہیں کرنا چاہ رہے تو پھر یہ دوستی کس سلسلے میں ہے؟”
”ہر دوستی شادی کے لئے تو نہیں ہوتی۔”
”تو پھر کس لئے ہوتی ہے؟ وقت گزارنے کے لئے”
”You can say that (آپ کہہ سکتے ہیں۔)” ذوالقرنین نے کندھے اچکاتے ہوئے خاصی لاپروائی سے کہا۔
”تو پھر تمہیں علیزہ سے یہ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی کہ تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو… یا یہ کہ تم اس سے محبت کرتے ہو؟”
”میں نے علیزہ سے ایسا کچھ نہیں کہا۔” ذوالقرنین نے ڈھٹائی سے جھوٹ بولا۔
علیزہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
”آپ نے مجھ سے کہا تھا ذوالقرنین؟”
”میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔” اس نے علیزہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑی بے خوفی سے کہا۔
وہ شاک کے عالم میں ذوالقرنین کو دیکھنے لگی۔ یہ وہ ذوالقرنین نہیں تھا جسے وہ پچھلے ایک ماہ سے جانتی تھی۔ وہ بالکل بدل چکا تھا۔
”تو تمہیں علیزہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ نہ ہی تم اس سے شادی کا کوئی ارادہ رکھتے ہو۔ تو پھر تم ملتے کس مقصد کے لئے ہو، ساتھ کیوں لے لے کر پھرتے ہو؟”
”میں نہیں، وہ میرے ساتھ پھرتی ہے… وہ ملنے آتی ہے مجھ سے۔۔۔” عمر بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھتا رہا۔
”اور جہاں تک ساتھ پھرنے کا تعلق ہے تو ساتھ تو تم بھی لئے پھرتے ہو اسے……
…پھر تم کیوں نہیں شادی کر لیتے اس سے… اپنی مصیبت دوسروں کے سر پر کیوں ڈالنا چاہتے ہو؟”
ذوالقرنین کے لہجے میں تمسخر تھا۔ علیزہ خوف کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”کیا ذوالقرنین میرے بارے میں اس طرح سے سوچتا ہے۔”
”مجھے نہیں پتا، یہ تم سے کیا کہتی ہے یا بتاتی رہی ہے۔ مگر میں اتنا احمق نہیں ہوں کہ اس سے محبت یا شادی کا وعدہ کروں، اگر اسے خود ہی میرے بارے میں کوئی خوش فہمی یا غلط فہمی ہو جائے تو میں کیا کر سکتا ہوں، مگر اس طرح اگر کوئی کزن کو پکڑلائے۔ ایموشنل بلیک میلنگ کے لئے تو میں کم از کم وہ بندہ نہیں ہوں جو اس طرح پھنس جائے اس جیسی ہزار لڑکیوں کے ساتھ میل جول ہے میرا… سب کے ساتھ شادی کر لوں کیا؟” اس کے لہجے میں تضحیک تھی۔
”مجھے تم سے مل کر واقعی بڑی خوشی ہوئی ہے ذوالقرنین! کیونکہ تم میری توقعات پر بالکل پورا اترے ہو… میں جتنے گھٹیا آدمی سے ملنے کا سوچ کر آیا تھا، تم اس سے زیادہ گھٹیا نکلے ہو… بہرحال دوبارہ تم نے اگر کبھی علیزہ کو فون کیا یا اس سے ملنے کی کوشش کی تو ملنے سے پہلے وصیت کر آنا کیونکہ پھر تم دوبارہ واپس نہیں جا سکو گے ۔ آؤ علیزہ!”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۷

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!