امربیل — قسط نمبر ۸

اس واقعہ کے اگلے ایک ہفتہ تک ان دونوں کے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوئی عمر نے اس بار معذرت کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اور اس بات نے علیزہ کی رنجیدگی اور غصے میں کچھ اور اضافہ کیا تھا۔ اس سے پہلے اس نے ہمیشہ عمر کو چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی فوراً معذرت کرتے دیکھا تھا اوروہ اس بات کی اتنی عادی ہوچکی تھی کہ اس بار پہلے کی طرح اس سے معذرت نہ کرنے پر وہ جیسے شاکڈ ہوگئی تھی۔ اس نے نانو کو عمر کے اس طرح ہاتھ اٹھانے کے بارے میں نہیں بتایا تھا، اس کیلئے یہ اتنی توہین آمیز بات تھی کہ وہ کسی سے اس کے بارے میں ذکر کر ہی نہیں سکتی تھی۔
نانو نے دونوں کے درمیان موجود کشیدگی کو محسوس کرلیا تھا کیونکہ ڈائننگ ٹیبل پر پہلے کی طرح دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا سلسلہ بند ہوچکا تھا۔ دونوں اپنے اپنے وقت پر آتے۔ خاموشی سے کھانا کھاتے اور اٹھ کر چلے جاتے۔
نانو ان کے درمیان اس بے اعتنائی کو اس دن کے عمر کے تبصرے کا نتیجہ سمجھ کر صلح صفائی کروانے کی کوشش میں لگی رہی تھیں۔ انہوں نے دونوں کو علیحدگی میں اور ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھانے کے دوران بھی سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ بری طرح ناکام رہی تھیں۔ علیزہ اگر ناراضگی دور کرنے کی بات پر مشتعل ہوجاتی تھی تو عمر سرے سے اس موضوع پر بات کرنے کو ہی تیار نہیں تھا۔ وہ ہر بار بات شروع کرنے پر بڑی سختی سے نانو کو روک دیتا۔
”اگر آپ اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کریں گی تو میں یہاں سے اٹھ کر چلا جاؤں گا۔”
وہ تلخی سے کہتا اور نانو خاموش ہوجاتیں۔




عمر ان دنوں باہر سے آنے والے اپنے سامان کو انیکسی میں رکھوانے میں مصروف تھا۔ نانو کے بہت بار کہنے کے باوجود بھی علیزہ نے اس کی مدد کرنے کی کوشش نہیں کی۔
دو تین دن وہ وقفوں وقفوں سے کارگو سے آنے والے اپنے سامان کو انیکسی کے کمروں میں رکھواتا رہا۔ علیزہ دن میں کئی بار اسے انیکسی کی طرف آتے جاتے دیکھتی رہی۔ وہ ان دنوں یکدم جیسے بہت مطمئن نظر آرہا تھا اور علیزہ کیلئے یہ خبر تکلیف دہ تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اگر اس سے معذرت نہیں بھی کرتا تب بھی اپنی حرکت پر پشیمان ضرور ہوگا مگر عمر جہانگیر کے رویے میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس سے علیزہ کو یہ لگتا کہ وہ اپنی اس حرکت کی وجہ سے پریشان ہے۔
زندگی میں پہلی بار وہ عمر جہانگیر کے رویے سے حقیقی طور پر ہرٹ ہوئی تھی۔
زندگی میں پہلی بار اس نے عمر اور اپنے تعلق کو ایک نئی نظر سے دیکھنا شروع کیا تھا۔ پچھلے پانچ سال سے اس کی زندگی میں عمر کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔ اس سے مستقل رابطہ نہ ہونے کے باوجود علیزہ کیلئے دنیا میں عمر سے زیادہ اہم کوئی نہیں تھا۔
اس نے پچھلے پانچ سالوں کو اس طرح ہی گزارنے کی کوشش کی تھی جس طرح عمر کی خواہش تھی۔ عمر جس چیز کو ناپسند کرتا، وہ لاشعوری طور پر اس چیز سے کترانے لگتی۔ عمر جس چیز کو پسند کرتا، وہ بھی اس چیز کے عشق میں گرفتار ہوجاتی۔ وہ جیسے عمر کے پیروکاروں میں سے تھی۔ آنکھیں بند کر کے سب کچھ کر گزرنے والوں میں سے… جو اس سے کہا جاتا اور ا سے اس چیز پر رتی بھر بھی ملال محسوس نہ ہوتا۔ اس کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ عمر اس سے خوش تھا۔ پہلی بار اس نے عمر کی کسی بات سے اختلاف کیا تھا اور پہلی بار ہی عمر کا رویہ…؟
”کیا یہ شخص کسی دوسرے میں sense of judgement ڈیولپ کرسکتا ہے؟ انکل جہانگیر پر تنقید کرتے کرتے کیا یہ خود ویسا نہیں ہوگیا؟”
وہ اب انتہا پر جاکر سوچ رہی تھی۔
”میرے لیے ہمیشہ سب سے اہم رہنے والے شخص کی زندگی اور نظر میں خود میری کیا اہمیت اور حیثیت ہے؟ اس کی نظر میں علیزہ سکندر کی کیا اوقات ہے؟ ایک امیچور لڑکی جس کی ہر خوبی اور ہر خامی سے وہ اچھی طرح واقف ہے۔ یا پھر اس کی انگلی پکڑ کر چلنے والی لڑکی جس کی اپنی کوئی شخصیت سرے سے ہے ہی نہیں اور میں… میں علیزہ سکندر آخر کب تک عمر کی چھتری کے سائے میں پھلنے پھولنے کی کوشش کرتی رہوں گی اور اس شخص کا سایہ کتنا بھی آرام دہ کیوں نہ ہو مگر وہ میرے وجود کو کبھی بھی اپنے قد تک آنے نہیں دے گا۔”
اس کے ذہن میں ان دنوں ان سوالوں کے علاوہ اور کوئی سوچ نہیں آتی تھی۔
”میں پچھلے پانچ سالوں سے کیا کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اپنے آپ کو صرف عمر جہانگیر کیلئے قابل قبول بنانے کی کوشش کرنے کے علاوہ میں اپنی زندگی میں کیا کر رہی ہوں۔ کیا عمر جہانگیر کی ہمدردی اور ترس کی بھیک نے مجھے اتنا کمزور کردیا ہے کہ اب میں اپنی زندگی کو عمر جہانگیر کے بغیر سوچنے کے قابل نہیں رہی اور خود اس شخص کے دل میں میرے لیے ترس یا ہمدردی سے زیادہ کیا اور کچھ ہے…؟ یاکبھی تھا؟ یا کبھی ہوگا…؟ اور میں کیا ساری زندگی عمر جہانگیر کی انگلی پکڑ کر چلتی رہوں گی… اس کی نظروں سے دنیا کو دیکھتی رہوں گی… علیزہ سکندر کیا ہے؟ کیا یہ پوچھنے کی کوشش نہیں کروں گی؟ علیزہ سکندر کیا کرسکتی ہے؟ کیا یہ دریافت کرنے کی خواہش نہیں کروں گی۔ بائیس سال کی عمر میں کم از کم اب تو مجھے اپنی ترجیحات کا پتا ہونا چاہیے۔ مجھے اب تو عمر جہانگیر کے مدار سے نکل آنا چاہیے۔ اس نے میری زندگی کے بہت سے مشکل لمحات میں میرا ساتھ دیا ہے مگر پچھلے پانچ سالوں میں یہ کام میں نے بھی تو کیا ہے بلکہ شاید عمر جہانگیر سے بڑھ کر… یہ کچھ لو اور کچھ دو تھا اور یہ سلسلہ اب ختم ہوجانا چاہیے۔ کم از کم اب عمر جہانگیر کے پاس میرے لیے ترس اور ہمدردی بھی نہیں رہی۔”
وہ اپنے لیے زندگی کا ایک نیا راستہ منتخب کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایسا راستہ جہاں کہیں بھی اس کا سامنا عمر جہانگیر سے ہو، نہ ہی وہ اس کے راستے کی رکاوٹ بنے۔
اگلے چند ہفتوں کے بعد عمر سہالہ چلا گیا تھا۔ جانے سے پہلے بھی اس نے علیزہ سے کوئی بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی، نہ ہی اسے خدا حافظ کہنے آیا تھا۔ بس خاموشی سے چند دن اپنا سامان پیک کرتا رہا اور پھر ایک دن یونیورسٹی سے واپسی پر اسے اس کی روانگی کی اطلاع مل گئی تھی۔ علیزہ نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا مگر پچھلے پانچ سالوں میں پہلی بار اسے عمر کے چلے جانے سے خوشی ہوئی تھی۔ اس سے کھانے کی میز پر ہونے والا سامنا اس کی ٹینشن اور ڈپریشن میں اضافہ کردیتا تھا اور بہت دنوں کے بعد پہلی بار وہ خود کو آزاد محسوس کر رہی تھی۔ اس کے برعکس نانو، عمر کے جانے پر بہت اداس تھیں۔ عمر سے ان کی اٹیچ منٹ علیزہ کے بعد خاندان کے سارے بچوں سے زیادہ تھی اور عمر کا آنا جانا ہمیشہ ہی ان کیلئے بہت اہمیت رکھتا تھا۔
علیزہ کو اگلے چند دنوں نانو کی زبان سے بار بار عمر کا ذکر سن کر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ ہر بار اس کے جانے پر وہ ایسے ہی کرتی تھیں مگر نانو کو اس بار حیرت ہوئی تھی جب علیزہ نے اس کے جانے پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔
***




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۷

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!