اس نے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”پھر ؟”
”پھر میں ٹھیک ہو گئی تھی!”
”تواب کیوں؟” عمر نے بات ادھوری چھوڑی دی۔
”پتا نہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا مگر آپ نانو سے بات نہ کریں۔”
”ان سے بات کرنے کا فائدہ ہی ہوگا۔ سائیکاٹرسٹ سے دوبارہ سیشن ہوں گے تو تم پھر ٹھیک ہو جاؤ گی۔”
عمر نے اسے تسلی دی۔
”میں یہ سب نہیں چاہتی۔”
وہ سر پکڑ کر دبی ہوئی آواز میں چلائی تھی۔
”آپ سمجھتے نہیں میرے ایگزامز شروع ہونے والے ہیں ، میں ٹینشن میں تھی، اسی لئے ایسا ہوا۔ اب میں ریلیکس ہونے کی کوشش کروں گی تو سب کچھ ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ نانو اور نانا فضول میں پریشان ہوں گے۔ مجھے بھی ڈسٹرب کریں گے۔ میں بھی اپنے پیپرز پر توجہ نہیں دے پاؤں گی۔ پلیز آپ ان کو کچھ مت بتائیں!”
اس کے لہجہ میں اتنی بے چارگی تھی کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی بات ماننے پر مجبور ہو گیا۔
”ٹھیک ہے میں ان سے بات نہیں کروں گا۔”
اسے یک دم علیزہ کے چہرے پر اطمینان نظر آیا۔
”تھینک یو!”
اس نے بے اختیار عمر سے کہا۔
”کوئی بات نہیں !”
وہ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا۔ علیزہ خاموشی سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔
٭٭٭
اگلے چند دن عمر رات کو خود لاؤنج لاک کرتارہاتھا اور سونے سے پہلے باہر کا بھی ایک چکر لگا لیتا تھا۔ پھر علیزہ کے کمرے کے ہینڈل بہت آہستگی سے گھما کر چیک کرتا،دروازہ ہمیشہ ہی اسے لاکڈ ہی ملا۔ وہ مطمئن ہو گیا کہ علیزہ نے اس کی ہدایات پر عمل کیا تھا اور اس رات کا واقعہ واقعی وقتی ٹینشن کا نتیجہ تھا۔
مگر یہ اطمینان زیادہ دنوں تک بر قرار نہیں رہاتھا۔ اس رات وہ اپنے آخری پیپر کی تیاری میں مصروف تھا۔ اس نے رات کے پچھلے پہر گھر میں مدھم شور سنا۔ کچھ چونک کر اس نے غور سے شور کی نوعیت سمجھنے کی کوشش کی۔ وہ چیخوں کی آواز تھی۔ وہ بجلی کی سی تیزی سے اپنے کمرے سے نکل آیا۔ چیخوں کی آواز علیزہ کی تھی، اور اس کے کمرے سے آرہی تھی۔ عمر بے اختیار بھاگتا ہوا اس کے کمرے کی طرف گیا دروازہ لاکڈ تھا اور اندر سے وہ کچھ کہتے ہوئے زور زور سے چیخ رہی تھی۔ عمر نے پوری قوت سے دروازہ بجایا۔
”علیزہ کیا بات ہے؟ کیا ہوا؟”
اس نے عمر کی بات کے جواب میں کچھ بھی نہیں کہاتھا۔ وہ اب بھی اسی طرح چیخ رہی تھی۔ عمر کی سراسیمگی میں اضافہ ہو گیا۔ اس نے ایک بار پھر پوری قوت سے دروازے کو پیٹا۔
”علیزہ !……علیزہ ! دروازہ کھولو۔”
فار گاڈ سیک… دروازہ کھولو۔”
اندر کیا ہورہا ہے۔ علیزہ… علیزہ…۔”
اس بار اندر یک دم خاموشی چھا گئی تھی اور اس خاموشی نے عمر کے اضطراب میں اور اضافہ کیا تھا۔
”علیزہ! علیزہ! دروازہ کھولو۔ کیا ہوا ہے؟” اس نے ایک بار پھر بلند آواز میں کہتے ہوئے دروازہ بجایا اور تب ہی اس نے نانا اور نانو کو تیز رفتاری سے آگے پیچھے آتے دیکھا۔
”گرینی ! علیزہ ابھی کچھ دیر پہلے اندر چیخ رہی تھی، پتہ نہیں کہ اسے کیا ہوا ہے؟”
عمر نے اضطراب کے عالم میں نانو سے کہا۔ ان کے چہرے پر بھی تشویش تھی مگر وہ عمر کی طرح گھبرائی نہیں تھیں۔
”دوبارہ ڈر گئی ہو گی!”
انہوں نے دروازہ بجاتے ہوئے کہاتھا۔
”کیا؟”
عمر نے حیرانی سے ان کا چہرہ دیکھا۔
”دوبارہ ڈر گئی، کس چیز سے ڈر گئی ؟”
نانا نے اس کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔ ”پریشان مت ہو۔ وہ نیند میں ڈر جاتی ہے۔”
عمر ساکت کھڑا انہیں دیکھتا رہا۔ وہ بھی اب نانو کے ساتھ مل کردروازہ بجا رہے تھے۔
علیزہ لائٹ جلاؤ۔ میری جان دروازہ کھولو۔ گھبراؤ مت۔”
نانواب اسے ہدایات دے رہی تھیں۔ چند منٹوں بعد عمر نے دروازے کی جھری سے کمرے میں روشنی ہوتے دیکھی۔ پھر چند لمحوں بعد دروازہ کھل گیا۔
علیزہ کا رنگ زرد تھا اور وہ کانپ رہی تھی۔ عمر نے اس کے چہرے کو پسینے سے بھیگا ہوا دیکھا۔ نانو نے آگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔