”کیوں؟”
”یہ اچھی بات نہیں ہے، اس طرح آپ لوگوں کے ساتھ جانا۔”
”سو واٹ!” اس نے خاصی لاپروائی سے کہا۔ ”خیر ٹھیک ہے۔ تم نہیں جانا چاہتی تومیں مجبور نہیں کروں گا۔یہ بتاؤ تمہارے لیے وہاں سے کیا لاؤں؟”
وہ اب اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
علیزہ اس کی بات پر چونکی۔ ”میرے لیے؟”
‘ہاں بھئی تمہارے لیے… بتاؤ کیا لاؤں!”
”پتا نہیں۔”
”اب یہ بھی نہیں پتا۔” علیزہ اس باربھی خاموش رہی۔
”آپ نے تو شاید کچھ دن تک… میرا مطلب ہے، واپس چلے جانا تھا۔” علیزہ نے کچھ اٹکتے ہوئے اس سے پوچھا۔
وہ اس کی بات پر کچھ چونکا۔ ” اوہ! یہاں تو میرے جانے کا انتظار ہورہا ہے۔” عمر نے کچھ افسوس بھرے انداز میں کہا۔
علیزہ کچھ شرمندہ ہوگئی۔
”ہاں جانا تو تھا لیکن بس پاپا ابھی بلوانے پر تیار نہیں ہیں اور گرینی بھیجنے پر۔ اس لیے آپ کو کچھ اورعرصہ مجھے برداشت کرنا پڑے گا علیزہ!”
علیزہ کو کچھ مایوسی ہوئی۔ اب تو اس کے پیپرز بھی ہوچکے ہیں پھر اب یہ کیوں نہیں جارہا؟ اس نے کچھ بے دلی سے سوچا۔
عمر بڑے غور سے اس کے چہرے پر ابھرنے والے تاثرات کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس کے چہرے پر پھیلنے والی مایوسی اس کی تیز نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکی۔
”تم چاہتی ہو، میں چلا جاؤں؟” اس نے علیزہ سے پوچھا۔
”میں نے یہ کب کہا!”
”تم نے کہا نہیں لیکن۔۔۔”
”آپ نے خود ہی کہا تھا کہ آپ پیپرز کے بعد واپس چلے جائیں گے۔ اس لیے میں نے پوچھ لیا۔” اس نے عمر کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ وہ اس کی بات کے جواب میں کچھ دیر خاموش رہا۔
”اب یہاں سے جاتا کیوں نہیں؟” وہ اپنے کمرے میں اس کی مستقل موجودگی سے تنگ آگئی تھی۔
”کچھ دن دیر سے سہی مگر مجھے یہاں سے چلے جانا ہے میں یہاں ہمیشہ رہنے کیلئے نہیں آیا۔ مگر یہاں سے جانے کے بعد میں تمہیں مس کروں گا۔”
وہ یک دم سنجیدہ نظر آنے لگا۔ علیزہ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔
”تم مس کرو گی مجھے؟” اس نے یک دم علیزہ سے پوچھا۔ وہ اس کے غیر متوقع سوال پر بس اسے صرف دیکھ کر رہ گئی۔
”میں شکر کروں گی کہ تم یہاں سے چلے گئے۔” اس نے دل میں سوچا اور جواب میں کہا۔ ”پتا نہیں۔”
”مگر مجھے پتا ہے۔ تم شکر کرو گی کہ میں یہاں سے چلا گیا۔” ایک لمحے کیلئے اس کا دل دھڑکنا بھول گیا۔
”کیا یہ شخص ٹیلی پیتھی جانتا ہے؟” اس نے فق چہرے کے ساتھ اسے دیکھا جواب مسکرا رہا تھا۔
”نہیں، مجھے ٹیلی پیتھی نہیں آتی۔ میں بس چہروں کو پڑھ لیتا ہوں۔”
وہ ایک بار پھر حیران ہوئی۔ عمر جیسے اس کی ہر سوچ سے آگاہ تھا۔
”ویسے علیزہ تمہیں کیا سب کزنز اتنے ہی برے لگتے ہیں؟”
”کیا مطلب؟” وہ اس کی بات پر الجھ گئی۔
”مطلب۔۔۔”وہ خود بھی اپنے سوال پر غور کرنے لگا۔
”مطلب یہ کہ کیا اسامہ بھی اتنا ہی برا لگتا ہے جتنا میں؟”
”مجھے آپ بھی برے نہیں لگتے۔”
”مگر اسامہ زیادہ اچھا لگتا ہوگا۔” وہ پتا نہیں کیا جاننا چاہتا تھا۔
”پتا نہیں، میں نے غور نہیں کیا۔ وہ بھی یہاں بہت کم آتے ہیں۔” اس نے کچھ سوچ کر کہا۔
”مگر آتا جاتا رہتا ہے؟”
”آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟” وہ پہلی بار چونکی۔
”بس ویسے ہی گرینی بات کر رہی تھیں اس کے بارے میں اس لیے پوچھ رہا ہوں۔”
”جب یہاں اکیڈمی میں ٹریننگ حاصل کرتے تھے تو اکثر آیا کرتے تھے۔”
”تمہیں لگتا کیسا ہے وہ؟”
”ٹھیک ہیں۔”
”بس ٹھیک ہیں؟” وہ اب اسے کرید رہا تھا۔
”آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟” وہ اب اس کے سوالوں سے بے چین ہو رہی تھی۔
”میں… کچھ خاص نہیں… ایسے ہی پوچھ رہا تھا کہ وہ اتنا سمارٹ بندہ ہے۔ میری طرح تم اسے ناپسند نہیں کرتی ہوگی۔”
وہ یک دم بات کا موضوع بدل گیا۔ علیزہ اب اس کی گفتگو سے بری طرح بیزار ہوچکی تھی۔
”اسامہ بہت اچھا دوست ہے میرا۔” وہ اسی طرح کمرے کے وسط میں کھڑا بتا رہا تھا۔ وہ دلچسپی لیے بغیر اسے دیکھتی رہی۔
”ہم دونوں ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے رہے ہیں کیلی فورنیا یونیورسٹی میں۔ پھر اسکالر شپ پر آکسفورڈ چلا گیا۔”
اس کا دل چاہا وہ اس سے پوچھے کہ وہ اسے یہ سب کچھ کیوں بتا رہا ہے مگر وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔
”گرینی کہہ رہی تھیں، تمہاری بڑی اچھی دوستی تھی اسامہ کے ساتھ؟” عمر نے دانستہ جھوٹ بولا۔
”کیا! میری دوستی؟” وہ حیران رہ گئی۔
”کیوں کیا تمہاری دوستی نہیں ہے؟”
”نہیں، وہ مجھ سے بہت بڑے ہیں۔ نانو کہتی تھیں میں انہیں بھائی کہا کروں۔ وہ بہت سنجیدہ رہتے تھے۔”
وہ نانو کے جھوٹ پر حیران ہو رہی تھی۔ عمر نے ایک گہرا سانس لیا۔
”اچھا! ہوسکتا ہے گرینی کو ہی غلط فہمی ہوگئی ہو۔” اس نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ میں اب چلتا ہوں۔” اس کے اگلے جملے پر علیزہ نے اللہ کا شکریہ ادا کیا۔
دروازہ کھولتے ہوئے اس نے ایک بار پلٹ کر علیزہ کو دیکھا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر پھر وہ باہر نکل گیا۔
٭٭٭