”تم مالم جبہ جاؤ گے تو تمہیں پتا چلے گا کہ میں سچ کہہ رہی تھی یا جھوٹ، اس کے علاوہ بھوربن دیکھنا، سوات اور گلگت چلے جاؤ، تم وہاں بہت انجوائے کرو گے۔” نانو نے پورا پلان سامنے رکھ دیا۔
”اچھا سوچوں گا۔” اس نے ٹالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”گرینی! اکیلا میں کیسے جاؤں۔ آپ کو پتہ ہے میں اکیلا کچھ بھی انجوائے نہیں کرسکتا۔”
”اکیلا جانے کی کیا ضرورت ہے۔ اپنے دوستوں اور کزنز کو ساتھ لے جاؤ۔” انہوں نے فوراً تجویز پیش کی۔
”دوست اور کزنز اتنے فارغ کہاں ہیں کہ میرے ساتھ چل سکیں۔”
”میں ولید کو فون کردوں گی۔ وہ تو فوراً چل پڑے گا تمہارے ساتھ۔” نانو نے اسے پوری طرح گھیر لیا۔
”اچھا میں پہلے پاپا سے بات کر لوں۔” اس نے ایک بار پھر جان چھڑانے کی کوشش کی۔
”میں نے کہا نا جہانگیر سے میں خود بات کر لوں گی۔”
”یعنی گرینی! آپ مجھ کو کسی طرح بھی یہاں سے نکلنے نہیں دیں گی۔” عمر نے کچھ بے چارگی سے کہا۔
” تمہیں چلے تو جانا ہی ہے پھر کیا ہے اگر کچھ عرصہ یہاں ہمارے ساتھ گزار لو۔”
”آپ ابھی تک تنگ نہیں آئیں مجھ سے؟”
”نہیں، تنگ کیوں آؤں گی۔” نانو نے کچھ خفگی سے کہا۔
”بہت خدمتیں کرنی پڑتی ہیں آپ کو میری اس لیے پوچھ رہا ہوں۔”
”نہیں! مجھے اچھا لگتا ہے۔ کم از کم کوئی مصروفیت تو ہے نا۔ گھر میں رونق ہے تمہاری وجہ سے۔”
نانو نے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔ عمر چند لمحے ان کے چہرے کو دیکھتا رہا پھر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے زیر لب کچھ کہا۔
٭٭٭
”ہیلو پاپا! میں عمر ہوں۔” کال ملنے پر اس نے کہا۔
”ہاں عمر! کیسے ہو؟”
”میں ٹھیک ہوں پاپا… وہ مجھے پوچھنا تھا کہ آپ نے ابھی تک میری سیٹ بک نہیں کروائی؟” اس نے پوچھا۔
”ہاں، وہ بس کچھ مصروفیت تھی۔” دوسری طرف جہانگیر معاذ نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
”تو پھر کب سیٹ بک کروا رہے ہیں؟”
”اتنی جلدی کیا ہے واپس آنے کی؟”
عمران کی بات پر حیران ہوا۔ ”پاپا آپ نے ہی کہا تھا کہ پیپرز کے فوراً بعد واپس آجاؤں۔”
”ہاں مگر… اب میں سوچ رہا ہوں کہ تم ابھی وہیں رہو۔”
”مگر کیوں پاپا!”
”وہاں رہ کر تم انٹرویو کی تیاری زیادہ بہتر طریقے سے کر سکو گے۔ تمہارے کزنز تمہیں اچھے طریقے سے گائیڈ کردیں گے۔”
”نہیں پاپا! میں آپ کے پاس آکر بھی بہت اچھی تیاری کر لوں گا۔ یہ کوئی اتنا مشکل نہیں ہے۔”
”نہیں نہیں۔ پھر بھی تمہیں وہیں رہ کر تیاری کرنی چاہیے۔” انہوں نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”پایا! کیا گرینی نے آپ سے کوئی بات کی ہے؟” اس نے کچھ بے چینی سے کہا۔
”کیسی بات؟”
”وہ مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ میں ابھی واپس نہ جاؤں مگر میں نے ان سے کہا کہ مجھے فوری طور پر واپس جانا ہے۔ پھر وہ کہنے لگیں کہ میں خود آپ سے بات کرلوں گی۔”
”نہیں۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی مگر ٹھیک ہے اگر وہ اصرار کر رہی ہیں تو پھر تم وہیں رہو۔”
”مگر پاپا! مجھے بہت سے کام ہیں امریکہ میں۔”
”کام بھی ہوجائیں گے۔ فی الحال تو میں یہ چاہتا ہوں کہ تم وہیں رہو۔”
”میں بور ہوگیا ہوں یہاں۔ امریکہ آؤں گا تو کچھ گھوم لوں گا۔ ریلیکس ہوجاؤں گا۔” اس نے اصرار کیا۔
”بور ہونے کی بات ہے تو میں تمہیں کسی دوسرے ملک کا ویزا لگوا دیتا ہوں تم کچھ دن وہاں سیر کرلو۔ اسپین چلے جاؤ یا پھر یونان۔یا جہاں بھی تم چاہو۔”
جہانگیر معاذ نے فوراً پیشکش کی۔ عمر الجھن کا شکار ہوگیا تھا۔ آخر وہ اسے امریکہ آنے سے کیوں روک رہے تھے۔
”پھر بھی پاپا۔۔۔”
”عمرضد مت کرو۔ جیسا میں کہہ رہا ہوں وہی کرو۔ میں خود بھی سوچ رہا ہوں کہ کچھ عرصے تک پاکستان کا ایک چکر لگا جاؤں۔” انہوں نے اسے مزید کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
‘پاپا! کچھ دن کیلئے ہی آنے دیں۔”
” جب میں پاکستان آؤں گا تو واپسی پر آجانا تم میرے ساتھ مگر ابھی نہیں۔ اب یہ بتاؤ کہ کہاں جانا چاہتے ہو تاکہ میں ویزا لگوا دوں؟”
انہوں نے ایک بار پھر بات کا موضوع بدل دیا۔
”کہیں بھی نہیں… پھر ٹھیک ہے’ میں یہیں ٹھیک ہوں۔ گرینی چاہ رہی تھیں کہ میں ناردرن ایریاز چلا جاؤں کچھ دنوں کیلئے تو پھر میں وہیں چلا جاتا ہوں۔”
اس نے خاصی بے دلی سے کہا۔