امربیل — قسط نمبر ۴

”مگر مجھے تم سے بہت سی باتیں ابھی کرنی ہیں یہ تم اچھی طرح سن لو۔”
”تم اس طرح سے فرار حاصل نہیں کر سکتے۔”
اس بار انکل جہانگیر نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا تھا۔ نانو نے انکل جہانگیر کے کندھے کو دبا یاتھا۔
”کیا ہو گیا ہے جہانگیر ؟ کیوں اس طرح سے چلا رہے ہو؟ آرام سے بات کرو ، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
”نہیں گرینی ! انہیں چلانے دیں ۔ پچھلے تیس سالوں میں انہوں نے چلانے کے علاوہ اور کیا ہی کیا ہے۔”
”عمر ! تم بھی تمیز سے بات کرو ، وہ باپ ہے تمہارا۔”




اس بار نانو نے عمر کو جھڑکا تھا۔
”یہ باپ نہیں ہیں ،traitor(غدار) ہیں۔ ان کے نزدیک ہر چیز بکنے والی شے ہے۔ چاہے وہ ویلیوز ہوں یا پھر اولاد۔”
اس نے تلخی سے انکل جہانگیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاتھا۔
”آپ سن رہی ہیں اس کی باتیں!”
انکل جہانگیر نے ترشی سے نانو سے کہاتھا۔
”آپ نے ہی خواہش کی تھی باتیں سننے اور سنانے کی۔ یہ میری خواہش نہیں تھی۔”
”عمر تم بیٹھ جاؤ!”
نانو نے عمرسے کہاتھا۔
”مجھے بیٹھنا ہی نہیں ہے ۔جب مجھے کوئی بات ہی نہیں کرنا ہے تو پھرمجھے یہاں بیٹھ کرکیا کرنا ہے۔”
وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا تھا۔ انکل جہانگیرہونٹ بھینچے ہوئے اسے جاتا دیکھتے رہے تھے۔
”میں نے آپ سے کہا تھا نہ کہ اس کا دماغ خراب ہو چکا ہے۔”
انہوں نے اس کے جاتے ہی نانو سے کہا تھا۔
”اس وقت اسے سونے دو۔ وہ تھکا ہوا ہے۔ اس لئے زیادہ تلخ ہو گیا ہے۔ تم صبح دوبارہ اس سے بات کرنے کی کوشش کرنا اور کچھ نرمی سے بات کرنا۔ وہ کوئی چھوٹا سا بچہ نہیں ہے، جوان ہے انڈیپینڈنٹ ہے، اور اس طرح وہ کبھی بات نہیں سنے گا۔”
نانو انکل جہانگیر کو سمجھارہی تھیں۔
”آپ کا کیا خیا ل ہے کہ میں نے اس سے نرمی سے بات نہیں کی ہے، میں اس سے ہر طرح سے بات کر چکا ہوں،مگر وہ اپنی بات پر جما ہوا ہے۔ اسے احساس ہی نہیں ہے کہ اس کی ضد میرے لئے کتنی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔”
وہ تیز آواز میں نانو سے بات کر رہے تھے جو بڑی خاموشی سے ان کی باتیں سن رہی تھیں۔
”ٹھیک ہے فی الحال ابھی تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ وہ سونے چلا گیا ہے۔ تم بھی جا کر سو جاؤ۔ صبح دیکھوں گی کہ میں تمہارے لئے کیا کر سکتی ہوں؟”
نانو نے انکل جہانگیر کو دلاسا دیتے ہوئے کہا، اور وہ انکل جہانگیر کو اپنے ساتھ لے کر ٹیبل سے اٹھ گئیں۔
علیزہ چپ چاپ وہیں بیٹھی انکل جہانگیر کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کر تی رہی۔ ملازم ٹیبل سے کھانے کے برتن اٹھا نے لگا۔ وہ سوچتی رہی کہ اس بار عمر اور انکل کے درمیان وجہ تنازعہ کیا ہو سکتی ہے۔
ان دونوں کے درمیان ہونے والا یہ پہلا جھگڑا نہیں تھا۔ علیزہ کو ایسے بہت سے مواقع یاد تھے، جب ان دونوں کے درمیان اختلافات ہوتے رہے تھے۔ مگر اس بار معاملہ یقیناً زیادہ سیریس تھا۔
٭٭٭
اگلے دن وہ یونیورسٹی چلی گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی واپسی تک انکل جہانگیر اور عمر کے درمیان جو بات ہونا ہو گی، ہو چکی ہو گی، اور گھر کا اعصاب شکن ماحول بدل چکا ہو گا۔ مگر سہ پہر کو واپسی پر اسے پتہ چلا تھاکہ عمر صبح ہی کہیں چلا گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا۔ انکل جہانگیر کا پارہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا اور نانو کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔
عمر شام کے وقت واپس آیا تھا اور اس بار انکل جہانگیر نے وقت ضائع کئے بغیر اس سے بات کرنی شروع کر دی۔ وہ لاؤنج میں ہی بیٹھے ہوئے تھے اور علیزہ چند منٹ پہلے ہی انہیں چائے دیکر آئی تھی۔
”میں آپ کو کل بھی بتا چکا ہوں کہ مجھے آپ سے کوئی بھی بات نہیں کرنی۔”
عمر نے لاؤنج میں کھڑے کھڑے ہاتھ اٹھا کر کہاتھا۔
”عمر ! اس طرح……!”
عمر نے نانو کو بات بھی مکمل نہ کر نے دی تھی۔
”گرینی ! میں یہاں اس لئے آیا ہوں تاکہ کچھ دن سکون سے گزار سکوں۔اگر یہ ممکن نہیں ہے تو پھر میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔”
یہ کہہ کر وہ لاؤنج سے نکل گیا نانو نے اسے آواز دی تھی مگر اس نے ان کی آواز کو نظر انداز کر دیا تھا۔
”علیزہ ! جاؤ اس سے جا کر کہو کہ آکر چائے تو پی لے۔”
نانو نے علیزہ سے کہا۔ وہ اٹھ کر عمر کے کمرے کی طرف آگئی تھی۔ دستک کی آواز سنتے ہی اندر سے عمر نے آوازدی تھی۔
علیزہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی تھی۔ وہ اپنے گلے میں بندھی ہوئی ٹائی کھول رہا تھا۔ علیزہ نے نانو کا پیغام اسے پہنچا دیا تھا۔
”نہیں، مجھے چائے نہیں پینی!”
اس نے بڑی ترشی سے کہا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!