”کوئی وجہ تو ہوگی نا؟” نانو اسے کرید رہی تھیں۔
”میں آزاد زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ کوئی ذمہ داری سر پر لینا نہیں چاہتا۔ ویسے بھی جب ہر چیز شادی کے بغیر مل رہی ہو تو خود کو خواہ مخواہ زنجیروں میں کیوں جکڑا جائے۔”
نانو اس کے جواب سے زیادہ اس کے اطمینان پر حیران ہوئی تھیں۔ ”تمہارا دماغ خراب ہے عمر؟”
”نہیں گرینی! میرا دماغ بالکل ٹھیک ہے۔ میری زندگی کے سارے راستے بالکل صاف اور واضح ہیں اور ان کے متعلق میرے دماغ میں کوئی ابہام (Ambiguity) نہیں ہے۔ میں نے اپنی ساری فیملی کی زندگی سے یہ سیکھا ہے کہ شادی نہیں کرنی چاہیے۔ زندگی گزارنے کیلئے شادی کوئی ضروری نہیں ہے۔ اس کے بغیر میں زیادہ اچھے طریقے سے رہ سکتا ہوں۔”
”جہانگیر کو پتا چلے نا تمہاری اس فلاسفی کا تو وہ تمہاری عقل ٹھکانے لگا دے۔”
”میں نے یہ فلاسفی ان ہی کی زندگی کا جائزہ لے کر بنائی ہے۔”
اس نے نانو کی بات پر خوفزدہ ہوئے بغیر کہا تھا۔ کچھ دیر نانو اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکیں۔ ”میں تم سے علیزہ کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔” کچھ دیر بعد انہوں نے پھر اس سے کہا۔
”علیزہ بہت کم عمر ہے۔ وہ ابھی تک خود کو سمجھ نہیں پائی تو مجھے کیسے سمجھ سکے گی اور شادی کوئی ایک دو دن کا ساتھ نہیں ہوتا۔ یہ ساری زندگی پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھے بغیر زندگی کیسے گزاری جاسکتی ہے۔”
”چلو ٹھیک ہے۔ اب نہیں تو چار سال بعد تو وہ اس قابل ہوسکتی ہے کہ بقول تمہارے ایک اچھی بیوی کی تمام خصوصیات اپنے اندر پیدا کرلے۔ تب کرو گے تم اس سے شادی؟” نانو ابھی بھی اپنی بات پر مصر تھیں۔
عمر پر سوچ انداز میں ان کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔ ”اگر آپ ابھی اس کی شادی ملتوی کردیتی ہیں تو میں وعدہ کرتا ہوں چار پانچ سال بعد ضرور اس سے شادی کے بارے میں سوچوں گا۔”
”صرف سوچو گے؟”
”گرینی! ہر چیز سوچنے سے ہی ہوتی ہے۔”
”مگر کوئی واضح یقین دہانی تو ہونی چاہیے۔”
”میں نے آپ سے کہا نا کہ میں سوچوں گا تو پھر آپ کو اعتبار ہونا چاہیے میری بات پر۔ ٹھیک ہے نا۔ اب آپ علیزہ کی شادی کے بارے میں کچھ مت کیجیے گا۔”
نانو کچھ دیر اسے دیکھتی رہیں اور پھر اچانک ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ لہرائی۔
”تم پسند کرتے ہو نا اسے؟”
وہ ان کی بات پر یک دم چونک گیا۔ ”گرینی! علیزہ کو کوئی بھی ناپسند نہیں کرسکتا۔”
”مگر تمہاری پسندیدگی کی نوعیت مختلف ہے۔” وہ اپنی بات پر مصر تھیں۔
”گرینی! میں۔۔۔” وہ اپنی بات مکمل نہیں کرسکا۔ علیزہ کرسٹی کو اٹھائے ہوئے ایک دم لاؤنج میں داخل ہوئی۔
اس کی آمد اتنی غیر متوقع اور اچانک تھی کہ نانو بھی کچھ گڑبڑا گئیں۔ عمر بات کرتے کرتے خاموش ہوگیا۔
علیزہ کرسٹی کے ساتھ صوفے پر بیٹھ کر خاموشی سے ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہوگئی۔ اس نے غور کرنے کی کوشش نہیں کہ عمر کون سی بات کہتے کہتے رک گیا تھا۔
عمر نے علیزہ کی آمدکو غنیمت جانا اور گرینی سے کسی کام کا بہانا کر کے اٹھ گیا۔ گرینی نے علیزہ کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی کیا اس نے ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سنی تھی۔ مگر علیزہ کا چہرہ بے تاثر تھا۔ وہ کوئی اندازہ نہیں لگا سکیں۔
٭٭٭
”پھر اب کیا طے کیا ہے تم نے؟” نانا اس دوپہر کو کھانے کی میز پر اس سے پوچھ رہے تھے۔
”نہیں گرینڈ پا! پہلے ہی مجھے یہاں بہت دیر ہوگئی ہے۔ اب مجھ کو واپس جانا ہے۔”
”مگر عمر! ابھی تم واپس جا کر کرو گے کیا! چار پانچ ماہ تک تمہارا رزلٹ آئے گا۔ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ تب تک یہیں رہو۔”
”رہنے میں کوئی ہرج نہیں ہے مگر پاپا کے ساتھ یہی طے ہوا تھا کہ پیپرز دینے کے بعد واپس آجاؤں گا اور انٹرویو کی تیاری وہیں کروں گا۔”
”مگر یہاں تم کو زیادہ آسانی ہوگی۔”
”آسانی کی تو خیر کوئی بات نہیں ہے، میرے لیے دونوں جگہ پر ایک ہی بات ہے مگر اب پاپا نے کہا تھا تو ظاہر ہے کہ میرے لیے ضروری ہے کہ واپس چلا جاؤں۔”
نانو نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔ ”جہانگیر سے میں خود بات کر لوں گی اس کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے، مگر تم فی الحال یہیں رہو۔”
نہیں گرینی! مجھے خود بھی وہاں کچھ کام نپٹانے ہیں اس لئے مجھ کو جانا ہو گا۔”
اس نے ایک بار پھر انکار کرتے ہوئے کہا۔
”بھئی، تمہیں اتنا پرابلم کس بات کا ہے؟”
”پرابلم کوئی نہیں ہے گرینی! بس میں اب کچھ اکتا گیا ہوں ایک ہی جگہ رہ کر… کچھ گھومنا پھرنا چاہتا ہوں۔”
”تو یہاں گھومو پھرو… تم نے پاکستان میں کچھ دیکھا ہی نہیں۔”
”یہاں گھومنے کیلئے کیا ہے گرینی؟”
”بہت کچھ ہے، ناردرن ایریاز کی طرف جاؤ گے تو حیران رہ جاؤ گے۔”
”کیوں وہاں ایسا کیا ہے؟”
”تم جاؤ گے تو پتا چلے گا نا کہ وہاں کیا ہے۔”
”گرینی! پہلے تو آپ نے لاہور کی تعریفوں کے انبار لگائے تھے… مگر لاہور میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اب ناردرن ایریاز کی تعریف کر رہی ہیں تو مجھے شک ہے کہ وہاں بھی کچھ نہیں ہوگا۔”