امربیل — قسط نمبر ۴

”میں اس لئے دخل اندازی کر رہا ہوں کیونکہ مجھے علیزہ سے ہمدردی ہے۔ گرینی ! اس نے زندگی کو نہیں دیکھا ہے زندگی کے بارے میں سرے سے اس کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ اس کا کینوس بہت ہی محدود ہے۔ اس کے لئے زندگی ایک ٹرائی اینگل ہے۔ ثمینہ پھوپھو، اس کے پاپا، اور یہ گھر …باہر کی دنیا کیا ہے یہ جاننے کا آپ نے اسے موقع ہی نہیں دیا اور نہ ہی آپ دینا چاہتے ہیں اپ اسے ایک پنجرے سے دوسرے پنجرے میں ٹرانسفر کر دینا چاہتے ہیں۔ میرا نہیں خیال ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے حوالے سے کوئی بھی خواب دیکھے ہوں گے اس کے خوابوں میں بھی ثمینہ پھوپھو اس کے پاپا اور آپ لوگ ہی ہوں گے۔ اسامہ بہت چالاک ہے۔ وہ گزارہ نہیں کر سکتاعلیزہ کے ساتھ۔”
”اچھا ٹھیک ہے اسامہ مناسب نہیں ہے اس کے ساتھ تو ایک دو اور پرپوزل بھی ہیں اس کے لئے میں ان میں سے کسی کو دیکھ لوں گی۔”
”یعنی آپ کو شادی ضرور کرنی ہے اس کی؟”
وہ کچھ جھنجھلا یا تھا۔ ”شادی نہ کروں تو پھر کیا کروں۔”
نانو نے اس سے تیکھے انداز میں پوچھاتھا۔
”اے پڑھنے دیں۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے دیں بلکہ ہو سکے تو باہر بھیج دیں۔ دنیا کو دیکھنے دیں، لوگوں کو سمجھنے دیں ذہنی طور پرکچھ میچور ہونے دیں۔ پھر اس کی شادی کریں تاکہ جس کے ساتھ بھی اس کی شادی ہو وہ وہاں ایڈ جسٹ ہو سکے۔ اپنی اور دوسروں کی زندگی خراب نہ کرے۔”
”اور اس کے باپ سے کیا کہوں؟”
”سمجھائیں انہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انہیں آخر کیا تکلیف ہے ، علیزہ ان کے پاس نہیں رہتی۔ انہیں تو کچھ کرنا نہیں پڑتا تو پھر انہیں اس کی شادی میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟”





”وہ اس کا باپ ہے ، اور علیزہ اس کے ساتھ ہو یا نہ ہو بہرحال وہ اس کے بارے میں سوچتا ہو گا۔ جب تم باپ بنو گے اور بیٹی کے باپ تو پھر تمہیں ان چیزوں کا احساس ہو گا۔”
”اول تو میں شادی نہیں کروں گا اور اگر کی بھی تو کم از کم اس طرح کا باپ نہیں بنوں گا۔ میں اپنی بیٹی کو اتنی آزادی تو ضرور دوں گا کہ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارے، اور کم از کم میں سترہ سال کی عمر میں اس کی شادی کرنے کے بارے میں نہیں سوچوں گا۔”
اس نے کچھ جتانے والے انداز میں گرینی سے کہاتھا۔
”آپ ثمینہ پھوپھو سے بات کریں، کہ ابھی علیزہ شادی کے قابل نہیں ہے۔ اسے اپنی زندگی کو سمجھنے کے لئے ابھی چند سال دیں۔”
”عمر ! تم سمجھتے …۔۔۔” عمر نے ان کی بات کاٹی دی تھی۔
”گرینی ! اس میں ہرج کیا ہے۔ اگر اب شادی کرنے کی بجائے چند سال بعد اس کی شادی کر دی جائے، کیاآپ نے علیزہ سے پوچھا ہے اس کی شادی کے بارے میں؟”
ایک خیال آنے پر اس نے گرینی سے پوچھا۔
”علیزہ سے بھی پوچھ لوں گی، جب شادی طے ہو جائے گی۔ تو اس سے بھی پوچھ لوں گی ابھی تو بات چیت چل رہی ہے۔” عمر نے حیرانی سے گرینی کو دیکھا ۔
”یعنی آپ علیزہ سے پوچھے بغیر اس کی شادی طے کر رہی ہیں۔ گرینی! آپ کو کیا ہوگیا ہے؟”
”کیوں کیا ہوگیا ہے مجھے؟”
”جس لڑکی کی آپ زندگی کا فیصلہ کر رہی ہیں۔ اس سے پوچھنے تک کی زحمت نہیں کی آپ نے اگر اسے اعتراض ہوا تو پھر آپ کیا کریں گی؟”
”علیزہ اعتراض نہیں کرے گی۔ میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں۔”
”پھر بھی گرینی! اس کا حق ہے کہ اس کی شادی کے بارے میں اس سے پوچھا جائے۔ ابھی آپ جلد از جلد اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتی ہیں مگر ایک دو سال کے بعد وہ پھر ڈائی وورس لے کر آپ کے پاس موجود ہوگی شاید اپنی ہی جیسی کوئی اور بچی لے کر پھر آپ کیا کریں گی؟” عمر نے تلخی سے کہا تھا۔
”اتنی ہولناک تصویر پیش مت کرو میرے سامنے اسامہ آخری چوائس تو نہیں ہے اس کے بجائے کسی اور پر غور کیا جاسکتا ہے۔”
”چند سال بعد شادی نہیں کرسکتیں اس کی؟” عمر نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔
”کر سکتی ہوں اگر۔۔۔” نانو کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔
”اگر؟” عمر نے چونک کر پوچھا تھا۔
”کیا تم شادی کرو گے اس سے؟” وہ ان کے اس سوال پر ساکت رہ گیا تھا۔
چند لمحے وہ کچھ کہے بغیر نانو کا چہرہ دیکھتا رہا جو بہت پرسکون اور سنجیدہ نظر آرہی تھیں۔ اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی کیا وہ مذاق تھا یا… مگر وہ کوئی اندازہ نہیں لگاپایا۔ پھر ایک گہری سانس لے کر اس نے ہلکی آواز میں نانو سے کہا۔
”مجھ میں اور اسامہ میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔”
”کیا مطلب؟”
”گرینی! میں نے آپ کو جو کچھ اسامہ کے بارے میں بتایا ہے وہی سب آپ میرے بارے میں بھی سچ مان لیں۔”
”عمر! میں تمہاری بات سمجھ نہیں رہی۔”
”میں بھی اسامہ سے بہتر نہیں ہوں جو برائیاں اس میں ہیں، وہی مجھ میں بھی ہیں۔ میں بھی علیزہ کو خوش نہیں رکھ سکتا۔” اس کی سنجیدگی میں کچھ اور اضافہ ہوگیا تھا۔
نہ تم علیزہ کو خوش رکھ سکتے ہو نہ اسامہ رکھ سکتا ہے۔ کسی تیسرے کا نام لوں گی تو تم اس میں بھی سو برائیاں گنوا دو گے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ علیزہ کی شادی سرے سے کی ہی نہ جائے۔” نانو کا لہجہ طنزیہ تھا۔
”گرینی میں۔۔۔” عمر نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن نانو نے کچھ تیز اور خشک لہجے میں اس کی بات کاٹ دی۔
”تم علیزہ کو خوش رکھ سکتے ہو لیکن تم اس سے شادی کرنا نہیں چاہتے۔”
”گرینی! میں سرے سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔”
”کیوں نہیں کرنا چاہتے؟”
” بس نہیں کرنا چاہتا۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!