امربیل — قسط نمبر ۴

نانو نے خفگی سے عمر کو دیکھا تھا۔ ”اس طرح چلانے کی کیا ضرورت ہے؟”
”گرینی ! بات ہی ایسی کی ہے آپ نے۔”
”کیوں ! ایسی کیا بات کی ہے میں نے؟ کیا لڑکیوں کی شادیاں نہیں ہوتی؟”
”ہوتی ہیں گرینی ؟ مگر اس طرح اس عمر میں؟”
وہ اب بھی حیران تھا۔
”ہاں! اسی عمر میں، تم جانتے ہو ہماری فیملی میں لڑکیوں کی شادیاں بہت جلدی کر دی جاتی ہے۔”
”ہاں ! پہلی شادی اسی عمر میں کر دی جاتی ہے۔”
”کیا مطلب ہے تمہارا؟”
”میرا مطلب بہت صاف ہے گرینی اور آپ جانتی ہیں کہ میں کیا کہہ رہاہوں۔ آپ خود شاہد ہیں کہ ہماری فیملی میں لڑکیوں کی کم عمری میں کی جانے والی شادیوں میں سے گنتی کی شادیاں کامیاب رہتی ہیں۔”
”عمر تم۔۔۔”
عمر نے ان کی بات کاٹی تھی۔
”گرینی ! پلیز میری بات سنیں۔ آپ نے ثمینہ پھوپھو کی شادی بھی بہت کم عمری میں کر دی تھی۔ نتیجہ کیا نکلا، اور اگر آپ علیزہ کی شادی ابھی کر دیں گی تو اس پر بہت ظلم کریں گی۔”




نانو نے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھاتھا۔
”تم ابھی اتنے بڑے نہیں ہوئے کہ مجھے ان باتوں کے بارے میں سمجھانے لگو۔”
”میں آپ کو سمجھا نہیں رہا ہوں میں تو آپ کو صرف بتا رہا ہوں، کہ آپ ٹھیک نہیں کر رہی ہیں شادی علیزہ کے پرابلمز کا حل نہیں ہے۔”
”عمر !تم ابھی چھوٹے ہو اور اتنے میچور بھی نہیں ہو کہ ان باتوں کو سمجھ سکو۔”
نانو نے بڑی متانت سے اس کو کہا تھا۔
”گرینی ! ان باتوں کو سمجھنے کے لئے میچورٹی کی ضرورت ہے اور نہ ہی عمر کی جس واحد چیز کی ضرورت ہے وہ کامن سینس ہے اور میرا خیال ہے۔ یہ چیز میرے پاس ہے۔”
نانو کچھ دیر تو اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں بول سکی تھیں۔ وہ صرف خاموشی سے دیکھتی رہیں۔
”علیزہ کے ساتھ یہ نہ کریں وہ بالکل بچی ہے۔”
عمر نے دھیمے لہجے میں نانو سے کہا تھا۔
وہ بچی نہیں ہے سترہ سال کی ہو چکی ہے۔”
نانونے مستحکم آواز میں کہاتھا۔
”سو واٹ گرینی سترہ سال پر آپ اس کی زندگی ختم کر رہے ہیں۔ میں اپنی فیملی کو سمجھ نہیں سکا بعض چیزوں میں اتنے براڈ مائنڈڈ بعض میں اتنے اڑیل، اتنے کنزرویٹو ، اتنے نیرومائنڈڈ اتنے Paradoxتو نہیں ہونے چاہئیں آپ کی زندگی میں۔” وہ جیسے پھٹ پڑا تھا۔
گرینی نے بڑے پرسکون انداز میں اس کی بات سنی۔
”عمر ! تم خواہ مخواہ جذباتی ہو رہے ہو۔ میں نے جس شخص کو اس کے لئے منتخب کیا ہے وہ اسے بہت خوش رکھے گا۔”
”کس شخص کا انتخاب کیا ہے آپ نے اس کے لئے؟”
اس نے کچھ متجسس ہو کر پوچھا تھا۔
”اسامہ کا، حسینہ نے دو سال پہلے مجھ سے علیزہ کے بارے میں کہا تھا ، ابھی دوبارہ پوچھا ہے اس نے۔” نانو نے بڑے اطمینان سے بتایا تھا۔ عمر طنزیہ انداز میں مسکرانے لگا تھا۔
”ساری دنیا میں آپ کو علیزہ کے لئے اسامہ ہی ملا ہے۔”
نانو نے اسے خفگی سے دیکھا مگر عمر نے اپنی بات جاری رکھی تھی۔
”اور آپ کو یہ خوش فہمی بھی ہے کہ اسامہ علیزہ کو بہت خوش رکھے گا۔”
”کیوں اب کیا تکلیف ہو گئی ہے تمہیں؟”
نانو نے اس بار کچھ جل کر کہاتھا۔
”اسامہ علیزہ کو کیا کسی لڑکی کو خوش نہیں رکھ سکتا بیوی کے روپ میں۔ ہاں اگر بیوی کا رشتہ نہ ہو تو اسامہ علیزہ کو کیا ہر لڑکی کو خوش رکھ سکتا ہے۔”
”فضول بکواس مت کرو۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!