انکل جہانگیر دوسرے دن شام کو پہنچ گئے تھے۔ ان کا موڈ واقعی اس بار کچھ اور ہی طرح کا تھا۔ ہر بار جب بھی آتے تھے تو بہت خوشگوار موڈ میں ہوتے تھے۔ علیزہ سے کافی گرم جوشی سے حال احوال پوچھا کرتے تھے، مگر اس بار وہ بہت سنجیدہ تھے۔ علیزہ سے ان کی رسمی سی سلام دعا ہوئی تھی اس کے بعد وہ نانو کے ساتھ ان کے کمرے میں چلے گئے تھے۔ وہاں ان دونوں کے درمیان کیا کیا باتیں ہوئی تھیں ، وہ نہیں جانتی تھی اور نہ ہی اس نے جاننے کی کوشش ہی کی۔ اس نے بس ملازم کے ہاتھ چائے اور کچھ کھا نے کی چیزیں اندر بھجوادیں تھیں۔
ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد انکل نانو کے ساتھ باہر لاؤنج میں نکل کر آگئے تھے۔علیزہ نے نانو کے چہرے پر بھی ٹینشن دیکھی تھی۔ بہت عرصہ کے بعد وہ اس طرح پریشان نظر آرہی تھیں۔ لاؤنج میں بیٹھنے کے تھوڑی دیر بعد عمر کا فون آگیا تھا۔ وہ ائیرپورٹ پر تھا اور ڈرائیور بھیجنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ نانو نے اس کا فون ریسیو کیا تھا اور ڈرائیور کو بھجوا دیا تھا۔
ایک گھنٹے کے بعد پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز سنائی دی تھی۔ علیزہ نے انکل کے چہرے پر نظر دوڑائی تھی، وہاں تناؤ میں اضافہ ہو گیا تھا۔ پچھلے ایک گھنٹہ سے وہ نانو اور انکل جہانگیر کی باتیں سن رہی تھی، اور وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھے فیملی ممبرز کے بارے میں معمول کی گفتگو میں مصروف تھے۔ مگر ان کی گفتگو میں گرم جوشی یاخوشی نہیں تھی یوں لگ رہا تھا جیسے وہ صرف وقت گزارنے کے لئے باتیں کررہے تھے۔
علیزہ نے ایک گہری سانس لی تھی ۔ لاؤنج کا دروازہ کھلا اور عمر اپنی ہی رو میں اندر آیا تھا۔ پہلا قدم اندر رکھتے ہی وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ علیزہ نے اس کے چہرے پر موجود ہلکی سی مسکراہٹ کو غائب ہوتے دیکھا۔ وہ انکل جہانگیر کو دیکھ چکا تھا اور علیزہ نے اس سے پہلے اس کے چہرے کو کبھی اتنا بے تاثر نہیں دیکھا تھا۔ اس نے انکل جہانگیر کو ایک نظر دیکھا اور پھر گہری نظروں سے نانو کو دیکھا تھا، اور اس وقت علیزہ کو اس کی آنکھوں میں شکوہ نظر آیاتھا۔
دروازہ بند کر کے وہ اب آگے بڑھ آیا تھا۔ السلام و علیکم کے دو لفظ کہنے کے بعد وہ وہاں رکے یا کسی کو دیکھے بغیر لاؤنج سے گزر گیاتھا۔ انکل جہانگیر نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔ اس کے چہرے پر بہت عجیب تاثرات تھے۔
”علیزہ ! تم جاؤ اور اسے کہو کہ کپڑے بدل کر کھانے کے لئے آ جائے ، کھانا تیار ہے۔”
نانو نے اسی لمحے علیزہ کو مخاطب کیا تھا۔وہ ایک لمحے کے لئے جھجکی اور پھراٹھ کھڑی ہوئی۔
عمر کے بیڈ روم کے دروازے پر اسے دو تین بار دستک دینی پڑی تھی پھر وہ رک گئی۔ ہو سکتا ہے وہ پہلے ہی ڈریسنگ میں کپڑے تبدیل کر رہا ہو۔ اس نے سوچاتھا۔ چند منٹ وہ وہیں دروازہ کے باہر کھڑی انتظار کرتی رہی پھر اس نے ایک بار پھر دروازے پر دستک دی تھی۔ اس بار اسے انتظار نہیں کرنا پڑا تھا۔ فوراً ہی اسے عمر کی آواز سنائی دی تھی۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ عمر اب سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھا اور موبائل پر کوئی نمبر ڈائل کرنے میں مصروف تھا۔ اسے دیکھ کر رک گیا تھا۔
”نانو کہہ رہی ہیں کہ آپ کھانے کے لئے آجائیں!”
علیزہ نے نانو کا پیغا م اسے دیاتھا۔
”پاپا کب آئے ہیں؟”
اس نے علیزہ کی بات کے جواب میں سوال کیا تھا۔
”انکل آج شام کو آئے ہیں۔”
” اور تم لوگوں کو پہلے سے پاپا کے آنے کا پتا تھا؟” اس بار اس کا لہجہ بہت تیکھا تھا۔
”کل انکل نے فون کر کے نانو کو اپنے آنے کا بتایا تھا۔”
”صبح جب میں نے گرینی کو فون کیا تھا تو انہوں نے مجھ سے پاپا کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔”
”انکل نے نانو کو منع کر دیا تھا کہ وہ ان کے آنے کے بارے میں آپ کو کچھ بھی نہ بتائیں۔”
وہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا تھا۔ یوں جیسے اس کی بات کو جانچ رہا ہو۔
”ٹھیک ہے تم جاؤ، میں آ رہا ہوں۔”
اس نے ایک بار پھر موبائل پر کال ملانی شروع کر دی تھی۔ وہ خاموشی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔
لاؤنج میں آکر اس نے نانو کو اس کے آنے کے بارے میں بتا دیاتھا۔ ملازم نے چند منٹوں بعد انہیں کھانا لگنے کی اطلاع دی تھی اور وہ تینوں اٹھ کر ڈائننگ روم میں آگئے تھے۔
ان کے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھتے ہی عمر ڈائننگ روم میں آگیا تھا۔ کچھ کہے بغیر وہ ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔
ملازم نے سوپ سرو کرنا شروع کر دیاتھا۔
”نہیں، مجھے سو پ نہیں چاہئے۔ ”
اس نے سوپ کا پیالہ ایک طرف کرتے ہوئے چاولوں کی ڈش اپنی طرف کھینچ لی تھی۔
سب نے کھانا شروع کر دیا تھا۔ نانو باری باری انکل جہانگیر اور عمر کو ڈشز سرو کر رہی تھیں۔ عمر سر جھکائے ہوئے ایک لفظ کہے بغیر پوری سنجیدگی سے کھانا کھاتا رہا۔اس نے ایک بار بھی انکل کی طرف دیکھنے یا انہیں مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ دوسری طرف انکل جہانگیر بھی بہت خاموشی سے کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ علیزہ کھانا کھاتے ہوئے باری باری انکل جہانگیر اور عمر پر نظر دوڑاتی رہی۔
عمر نے سویٹ ڈش کھانے کے بعد پلیٹ کھسکا کر نیپکن اٹھا لیا تھا، اور وہ منہ پونچھ رہا تھا۔ جب نانو نے اسے مخاطب کیا تھا۔
”عمر ! اب تم میرے کمرے میں چلنا مجھے تم سے اور جہانگیر سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔”
علیزہ نے یکد م اس کے چہرے پر تناؤ دیکھا۔
”مجھے اس وقت کسی سے کچھ بھی بات نہیں کرنا ہے میں بہت تھک چکا ہوں اور جو واحد چیز میں اس وقت چاہتا ہوں وہ نیند ہے۔ جہاں تک آپ کی بات سننے کا تعلق ہے تو وہ میں صبح سن لو ں گا اور اس کے علاوہ مجھے کسی دوسرے کی نہ تو کوئی بات سننا ہے اور نہ ہی کسی سے کوئی بات کرنا ہے۔”
وہ کرسی پیچھے کھسکا کر کھڑا ہو گیا تھا۔ علیزہ جان گئی تھی کہ اس کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ اس نے انکل جہانگیر کے ماتھے پر بل پڑتے دیکھے تھے ۔انہوں نے بھی اپنی پلیٹ پیچھے سر کا دی تھی۔
”کیوں، مجھ سے بات کرتے ہوئے تمہیں کیا تکلیف ہوتی ہے؟”
علیزہ نے انہیں تیز آواز میں کہتے ہوئے سناتھا۔
”مجھے آپ سے جتنی باتیں کرنا تھیں ، میں کر چکا ہوں۔مزید باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔”
عمر نے پہلی بار ان کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔