نانو نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہاتھا۔ پھر وہ بہت دیر تک اس کے پاس بیٹھی رہیں۔
اٹھ کر جانے سے پہلے انہوں نے کہاتھا۔
”لنچ کی ٹیبل تیار ہو چکی ہو گی اور عمر بھی آنے ہی والا ہو گا تم بھی آجاؤ۔”
”نہیں نانو ! مجھے بھوک نہیں ہے۔”
وہ اب عمر کا دوبارہ سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
”نہیں علیزہ ! تم آؤ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ میں نے تم سے کہا ہے کہ اس وقت اس سے ناراض ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تم ناراض ہوگی تو وہ اور پیچھے ہٹ جائے گا۔ اس وقت اس کی ہر تلخ بات کو نظر انداز کر دو۔ تم لنچ باہر آکر کرو میں چاہتی ہوں وہ یہ محسوس نہ کرے کہ ہم اس کی کسی بات پر ناراض ہیں۔”
نانو نے ایک بار پھر بڑی ملائمت سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔
”ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔”
اس نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہاتھا۔ نانو مسکرا کر کمرے سے نکل گئی تھیں۔
علیزہ نے واش روم میں جاکر منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے شروع کر دئیے تھے۔ واش بیسن کے اوپر لگے ہوئے آئینے میں اس نے اپنا چہرہ دیکھا، اس کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں، اور اس وقت اس کے سامنے جانے پر بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ روتی رہی ہے۔ مگر وہ باہر نہ جاکر ایک بار پھر نانو کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس نے ٹاول اسٹینڈ سے تولیہ لے کر چہرہ خشک کیاتھا، اور پھر کمرے سے باہر نکل آئی تھی
٭٭٭
وہ اس وقت کھانے کی میز پر نانو کے ساتھ بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی جب وہ تقریباً پندرہ منٹ کے بعد بالآخر اپنے کمرے سے نکل آیا۔
اس وقت وہ بالکل ہی نارمل لگ رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں بریف کیس پکڑے اور دوسرے ہاتھ میں موبائل پکڑے وہ بہت سنجیدہ مگر پر سکون نظر آرہا تھا۔
”ڈائننگ روم میں داخل ہو کر اس نے ڈائننگ ٹیبل کے ایک کونے میں بریف کیس رکھ دیا تھا اور پھر کچھ اور کہے بغیر اپنی کرسی کی طرف دیکھا اب وہ پانی کا گلاس اٹھا کر پانی پی رہا تھا۔
”عمر ! یہ دیکھو ، کباب بنوائے ہیں میں نے تمہارے لئے۔”
نانو نے بات شروع کی تھی۔ اس نے کچھ بھی کہے بغیر ان کی بڑھائی ہوئی ڈش میں سے ایک کباب اٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھ لیاتھا۔
”یہ چاول لو……!”
نانو نے خاموشی توڑنے کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔ خاموشی نہیں ٹوٹی تھی۔ چاول خاموشی سے لئے گئے تھے۔ نانو نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ اس بار عمر کی طرف رشین سلاد بڑھایا گیا تھا۔
”یہ بھی لو نا ، تمہیں پسند ہے میں نے خود تمہارے لئے بنا یا ہے۔”
”گرینی ! مجھے جس چیز کی ضرورت ہو گی، میں خود ہی لے لوں گا۔ آپ مجھے خاموشی سے کھانا کھانے دیں۔ بار بار ڈسٹرب نہ کریں۔”
اس بار عمر نے سلاد لینے کی بجائے اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر بڑے روکھے انداز میں کہا تھا۔
نانو بے ساختہ شرمندہ ہو گئی تھیں۔ انہوں نے سلاد کا ڈونگا میز پر رکھ دیا۔ علیزہ نے کھانا کھاتے ہوئے سر اٹھاکر نانو کو دیکھا تھا۔ وہ کچھ کھسیانی سی ہو کر اب اپنی پلیٹ میں چاول نکال رہی تھیں۔
مرید بابا ٹیبل پر کوئی چیز رکھنے آئے تھے جب عمر نے ان سے کہاتھا۔
”مرید بابا ! ڈرائیور سے کہیں وہ گاڑی نکالے اور میرے کمرے میں جو بیگز ہیں، وہ ذرا گاڑی میں رکھوا دیں۔”
علیزہ کا ہاتھ رک گیا تھا۔ وہ اسی اطمینان سے کھانا کھانے میں مصروف تھا۔ علیزہ نے نانو کو دیکھا تھا وہ بھی عمر کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ مرید بابا باہر جاچکے تھے۔
”سامان کیوں؟”
نانو نے کچھ بے چین ہو کر پوچھا تھا۔
”میں یہاں سے جارہا ہوں!”
بڑے اطمینان سے جواب دیا گیا تھا۔
”کہاں جارہے ہو؟”
”فی الحال تو ہوٹل میں بکنگ کروائی ہے۔”
”مگر کیوں؟”
”کیوں سے کیا مطلب ہے ؟ ظاہر ہے مجھے یہاں سے جانا ہی تھا، یہ میرا گھر نہیں ہے۔ میں نے یہاں آکر غلطی کی تھی۔”
وہ کباب کے ٹکڑے کرتے ہوئے بڑے اطمینان سے کہہ رہا تھا۔
”عمر ! یہ تمہارا گھر ہے۔”
”نہیں گرینی ! یہ میرا گھر نہیں ہے، یہ آپ کا گھر ہے ، علیزہ کا گھر ہے میرا نہیں۔”
اس کا لہجہ بہت دو ٹوک تھا۔
”اگرآپ میری وجہ سے یہ گھر چھوڑ کر جا رہے ہیں تو پلیز میں اپنی غلطی کے لئے ایکسکیوز کرتی ہوں۔آپ مجھ سے ناراض ہو کر یہاں سے نہ جائیں۔”
اس بار علیزہ نے اس سے کہاتھا۔
”میں کسی سے بھی ناراض ہو کر یہاں سے نہیں جارہا۔ بس مجھے اب یہاں نہیں رہنا۔”