امربیل — قسط نمبر ۴

چند منٹوں بعد اس نے صابن سے ہاتھ دھونے کے بعد اپنے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے شروع کر دئیے تھے۔ مگر یہ ترکیب بھی کچھ زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوئی۔ چند لمحے وہ اسی طرح وہیں کھڑا رہا۔پھر کچھ بے چارگی کے عالم میں واش روم سے نکل آیا۔ اب کچن میں جانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
وہ جانتا تھا۔ کچن میں اس وقت خانساماں کے علاوہ گرینی بھی ہوں گی اور شاید علیزہ بھی اور وہ اس حالت میں ان لوگوں کے سامنے نہیں جانا چاہتا تھا۔ مگر اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ ڈریسنگ روم سے نکلا تھااور پھر اپنے کمرے کے دروازے تک پہنچ گیا۔
دروازہ کی ناب پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے لاک کھولنے کی کوشش کی تھی اور ٹھٹک گیاتھا۔ اسے بہت اچھی طرح یاد تھا کہ رات کو علیزہ کے کمرے سے نکلنے کے بعد اس نے سب سے پہلا کا م دروازے کو لاک کرنے کا کیا تھا۔ مگر اس وقت لاک کھلا ہوا تھا۔ وہ hang over کا شکار تھا مگر وہ رات کو ہونے والے تمام واقعات یاد کر سکتا تھا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس نے دروازے کو خود لاک کیا تھا تاکہ علیزہ یا کوئی اور دوبارہ اس کے کمرے میں نہ آئے اوراس کے بعد وہ ڈرنک کرنے لگا تھا۔
”اور اب یہ دروازہ کھلا ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی نہ کوئی رات کے کسی وقت یا پھر صبح میرے کمرے میں مجھے دیکھنے آیا تھا، اور وہ کون ہو سکتا ہے؟” اس نے ناب پر ہاتھ رکھے ہوئے چند لمحے جھنجھلاتے ہوئے سوچا تھا، اور پھر جیسے اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا تھا۔ وہ ہونٹوں کو بھینچتے ہوئے اپنے کمرے سے باہر نکل آیا تھا۔




لاؤنج سے گزر کر وہ کچن میں آگیاتھا۔
”اوہ عمر ! تم اٹھ گئے؟”
گرینی نے اسے دیکھتے ہی کہاتھا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیاتھا ان کی طرف دیکھے بغیر وہ فریج کی طرف بڑھ گیاتھا۔
”تمہیں کچھ چاہئے؟”
گرینی نے اسے فریج کا دروازہ کھولتے دیکھ کر پوچھا تھا۔ اس نے اب بھی کوئی جواب دینے کے بجائے فریج کے اندر جھانکتے ہوئے سرکے کی بوتل تلاش کرنی شرو ع کر دی۔ گرینی اب کچھ کہنے کی بجائے خاموشی سے اس کی حرکات کو دیکھتی رہیں۔ وہ سرکے کی بوتل نکال کر کچن میں پڑی ہوئی چھوٹی سی ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گیا تھا۔
”مرید بابا ! ایک گلاس میں تھوڑا سا پانی دے دیں۔”
اس نے سرکے کی بوتل کھولتے ہوئے کہاتھا۔
گرینی دم بخود اس کی کارروائی دیکھ رہی تھیں۔ مرید بابا نے خاموشی سے ایک گلاس میں تھوڑا سا پانی ڈال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے سرکے کی بوتل میں سے کچھ سرکہ اس گلاس میں انڈیلا اور گلاس ہاتھ میں لے کر اسے پینے لگا۔ چند گھونٹ پینے کے بعد اس نے یک دم خود کو بہتر محسوس کیاتھا۔ گلاس میں اس نے کچھ اور سرکہ انڈیلا تھا اور پھر گلاس ہاتھ میں لے کر اٹھ کر کھڑا ہو۔ اس بار نانو نے اس سے کچھ کہنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ سب کچھ سمجھ چکی تھیں اور اس وقت وہ اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ وہ گلاس لے کر کچن کے دروازے سے نکلا تھااور اس کی نظر لاؤنج کے سامنے والے صوفے پر بیٹھی ہوئی علیزہ پر پڑی تھی۔ لاؤنج سے پہلے گزرتے ہوئے وہ علیزہ کی طرف پشت ہونے کی وجہ سے اسے دیکھ نہیں سکا تھامگر اب علیزہ اس کے بالکل سامنے تھی اور عمر یک دم غضبناک ہو گیا تھا۔ اس نے بلند آواز میں علیزہ سے کہا تھا۔
”دوسروں کے معاملات میں اتنی دلچسپی کیوں ہے تمہیں؟”
علیزہ نے بے حد حیرانی کے عالم میں اسے دیکھا تھا۔ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی اس کے سامنے سے گزر کر کچن میں گیا تھا اور اب کچن سے باہر نکل کر وہ ایک دم اس ٹون میں اس سے بات کرنے لگا تھا۔ اس کی آواز کی کرختگی اور چہرے پر موجود خفگی علیزہ کو خوفزہ کرنے کے لئے کافی تھی۔وہ زرد چہرے سے اس کے جملے کا مقصد سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔
وہ کچھ آگے بڑھ آیا تھا اور علیزہ نے اس کے پیچھے نانو کو بھی کچن سے نکلتے دیکھا تھا۔
”کیا ہوا عمر؟ کیوں شور کر رہے ہو؟”
”میرا دماغ خراب ہو گیا ہے، اس لئے شور کر رہا ہوں!”
وہ نانو کی بات پر اور بھی بگڑ گیا۔
”آخر ہوا کیا ہے؟جس پر اتنے ناراض ہو رہے ہو؟”
نانو نے نرمی سے اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
”یہ سوال مجھ سے نہیں اس سے پوچھیں۔”
اس نے علیزہ کی طرف اشارہ کیا تھا۔ جو بالکل بے حس و حرکت صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ نانو کو جیسے حیرت کا ایک جھٹکا لگاتھا۔
”علیزہ سے پوچھوں؟ علیزہ نے کیا کیا ہے؟”
”اس کے نزدیک دوسروں کی زندگی تماشا ہے جسے دیکھ کر انجوائے کرنا اس کا فرض بنتا ہے۔”
نانو اس کی بات بالکل نہیں سمجھی تھیں۔
”عمر ! مجھے بتاؤ اس نے کیا کیا ہے؟”
”میں نے آپ سے کہا ہے نا کہ مجھ سے مت پوچھیں اس سے پوچھیں۔”
عمر اس کی بات پر یک دم بھڑکا تھا۔ نانو نے حیرت سے علیزہ کو دیکھا تھا جس کا چہرہ سفید ہو گیا تھا۔
اس کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ عمر کمرے میں آنے کی بات جان جائے گا اور پھر اس پر اس طرح ہنگامہ کھڑا کر دے گا۔
”کیا حق پہنچتا ہے تمہیں کہ تم لوگوں کی ذاتیات میں دخل اندازی کرو منہ اٹھا کر چوری چھپے دوسروں کے کمروں کے لاک کھول کر وہاں جاؤ۔”
اس کی آواز اتنی بلند اور لہجہ اتنا تلخ تھا کہ علیزہ کے ہاتھ پیر کانپنے لگے تھے۔
”تم ہوتی کون ہو، یہ سب کچھ کرنے والی۔ یہ گھر تمہارا یا تمہارے باپ کا نہیں ہے کہ تم یہاں کے ہر کمرے میں جھانکنے لگو۔”
وہ انگلی اٹھا کر تیز آواز میں اس سے کہہ رہا تھا۔
”جتنا حق تمہارا اس گھر پر ہے اتنا ہی میرا ہے اس لئے تمہیں اپنی حدود کاپتا ہونا چاہئے۔”
”عمر ! اتنے غصہ میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ علیزہ کا کوئی قصور نہیں ہے میں نے ہی اسے تمہارے کمرے میں جانے کے لئے کہا تھا۔”
نانو نے بڑی نرمی سے اسے روکنے کی کوشش کی تھی۔ عمر کو ایک دم دھچکا لگا تھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!