امربیل — قسط نمبر ۴

”اب جگا دوں اسے؟”
علیزہ نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد پوچھا تھا۔
”نہیں ،ابھی اسے سونے دو۔”
نانو نے اس سے کہا تھا۔ کچن میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی تھی۔
”نانو ! عمر نے یہ سب کیو ں کیا؟”
اس نے کچھ دیر بعد پوچھا تھا۔
نانو چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں۔ ”پتا نہیں۔”
انہوں نے مایوسی سے سر ہلایا تھا۔
”نانو ! وہ بالکل بدل گیا ہے نا۔”
”ہاں ! ایسا تو ہونا ہی تھا۔”
”مگر کیوں نانو ! عمر تو……وہ تو…… مجھے یقین نہیں آتا نانو! عمر ایساہو جائے گا۔ ابھی کل تک تو وہ بالکل ٹھیک تھا، ایک دن میں ہی کیا ہو گیا؟”
”میرے پاس تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں ہے علیزہ!”
نانو نے بے بسی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہاتھا۔
”جہانگیر انکل اسے کیوں پریشان کر رہے ہیں ۔اس کی مرضی کے خلاف اس سے ایک کام کیوں کروانا چاہتے ہیں۔”
”وہ بھی مجبور ہے!”
انہوں نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
”نہیں نانو ! وہ مجبور نہیں خود غرض ہیں۔”
نانو نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا تھا۔




وہ کچھ دیر وہیں بیٹھی رہی پھر اٹھ کر واپس اپنے کمرے میں آگئی۔
دوپہر کے دو بجے وہ ایک بار پھر پریشان ہو کر اپنے کمرے سے نکلی۔ عمر کا دروازہ اب بھی بند تھا۔ اس نے بنا سوچے سمجھے دروازہ پر دستک دی۔ اندر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔ علیزہ نے ایک بار پھر دستک دی۔ اس بار دستک کی آواز زور دار تھی۔ مگر اندر خاموشی نہیں ٹوٹی۔اس نے یکے بعد دیگرے کئی بار دروازہ بجایا۔ مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ علیزہ خوفزدہ ہوگئی۔
”عمر دروازہ کیوں نہیں کھول رہا۔ وہ اتنی گہری نیند تو نہیں سوتا۔”
اس نے دم سادھے سوچا۔
بجلی کے ایک جھماکے سے اسے یاد آیا کہ کمرے کی ایک اور چابی نانو کی درازمیں پڑی ہوئی ہے اور وہ اس چابی کو لاکر دروازہ کھول سکتی ہے۔ تقریباً بھاگتے ہوئے وہ نانو کے کمرے میں ائی تھی۔ اس نے ان کی دراز سے چابیوں کا گچھا نکالا اور تیز رفتاری سے واپس عمر کے کمرے کے دروازے کے پاس آگئی۔ کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اس نے دروازے میں چابی گھمائی۔دروازہ کا لاک کھل گیا۔ اس نے ناب گھما تے ہوئے آہستہ آہستہ دروازہ کھولنا شروع کر دیا۔ کمرے میں لائٹ اب بھی آن تھی، اور دروازہ کھلنے کی آواز نے بھی عمر کو متوجہ نہیں کیا تھا۔ علیزہ نے دروازہ کھولتے ہوئے اپنا قدم اندر بڑھایا اور پھر جیسے اسے شاک لگا تھا۔
عمر بیڈ پر کمبل لپیٹے اوندھے منہ سویا ہوا تھا۔ اس کا سر تکیہ پر تھا، اور دایاں ہاتھ کہنی تک تکیہ کے نیچے تھا۔ جس کی وجہ سے تکیہ داہنی طرف سے کچھ اٹھ گیاتھا اور اس اٹھے ہوئے حصہ نے اس کے چہرہ کو مکمل طور پر کور کر لیا تھا۔
اس کے لئے حیران کن بات تھی کہ عمر لائیٹ جلتی چھوڑ کر سو گیا تھا۔ مگر اس وقت جس چیز سے اسے شاک لگا تھا وہ بیڈ کے کچھ فاصلے پر تپائی پر موجود دو تین بوتلیں اور ایک گلاس تھا وہ بوتلیں اس کے لئے نئی نہیں تھیں ۔وہ بہت دفعہ ویسی ہی بوتلیں بازار سے خرید کر انہیں بیلیں لگا نے کے لئے استعمال کرتی رہی تھی مگر وہ بوتلیں ہمیشہ خالی ہوتی تھیں۔ آج پہلی بار وہ ان بوتلوں کا اصلی مصرف دیکھ رہی تھی اور وہ بھی عمر کے کمرے میں۔۔۔۔۔
وہ کچھ دیر تک ساکت کھڑی ان بوتلوں کو دیکھتی رہی تھی۔ پھر دھیمے قدموں سے تپائی کی جانب جانے لگی۔ تپائی کے قریب پہنچ کر اس نے جھک کر ان بوتلوں کو دیکھاتھا۔ ایک بوتل خالی تھی جبکہ دوسری بوتل آدھی خالی تھی۔ عمر کے بیڈ سائڈ ٹیبل پر پڑی ہوئی ایش ٹرے سگریٹ کے جلے ہوئے ٹکڑوں سے بھری ہوئی تھی۔
وہ اب جان چکی تھی کہ رات کو کمرہ لاک کرنے کے بعد وہ کیا کرتا رہا ہو گا اور شاید نشہ کی ہی حالت میں وہ لائٹ بند کیے بغیر ہی سو گیاتھا۔ علیزہ ابھی بھی کچھ بے یقینی سے ان چیزوں کو اور بیڈ پر پڑے ہوئے عمر کو دیکھتی رہی۔
”عمر تو یہ دونوں چیزیں استعمال نہیں کرتا تھا۔ پھر اب کیوں؟” اس نے مایوسی سے سوچا، چند لمحے وہیں کھڑی وہ بے مقصد عمر کو دیکھتی رہی۔ پھر کچھ مایوسی سے اسی طرح دھیمے قدموں سے کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔ نانو کے کمرے میں چابی رکھنے کے بعد وہ ایک بار پھر لاؤنج میں آگئی تھی۔
لاؤنج کے صوفہ پر بیٹھ کر وہ ایک بار پھر رات کے واقعات کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔
”کیا عمر اٹھ گیا ہے؟”
وہ اچانک نانو کی آواز پر چونکی تھی۔ وہ پتا نہیں کس وقت کچن سے نکل کر لاؤنج میں آگئی تھیں۔ علیزہ نے انہیں دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔ نانو کچھ فکر مند کھڑی تھیں۔
”ابھی تک نہیں جاگا؟ تم نے اسے جگانے کی کوشش کی؟” انہوں نے علیزہ سے پوچھا تھا۔
”نہیں۔” اس نے ایک بار پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”کیوں نہیں جگایا؟ تمہیں جگانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔”
وہ کچھ خفا ہو کر بولی تھیں۔
”آپ نے کہا تھاکہ اسے سونے دو۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۳

Read Next

برسات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!