علیزہ نے اچانک ہی اس سے پوچھا۔ وہ چہرہ صاف کرتے کرتے رک گیا۔
”تمہیں میری پرواہ ہے؟”
اس نے عجیب سے لہجے میں علیزہ سے پوچھا۔ وہ ایسے کسی سوال کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ چند لمحے حیرانی سے اس کا منہ دیکھتے رہنے کے بعد اس نے کہا۔
”ہاں ! سب سے زیادہ۔”
”ٹھیک ہے پھر تم میری بات مانو اور یہاں سے چلی جاؤ۔”
علیزہ کو اس کے مطالبے پر شاک لگا۔
”اس وقت مجھے صرف تنہائی درکار ہے۔”
اس نے ایک بار پھر کہا وہ چند لمحے کچھ بھی کہے بغیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی، جو اس کے جواب کا منتظر تھا۔ پھر اس نے کہا۔
”اگر آپ وعدہ کریں کہ آپ… آپ نہیں کریں گے تو میں چلی جاتی ہوں۔”
”کیا نہیں کروں گا؟”
اس نے علیزہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے پوچھا ۔
”جوکچھ دیر پہلے آپ……!”
علیزہ نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔ وہ خاموشی کے عالم میں اسے دیکھتا رہا۔
”آپ نہیں کریں گے نا؟!”
اس بار علیزہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر یقین دھانی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ”نہیں کروں گا۔” بہت دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے علیزہ سے آنکھیں چرالی تھیں۔ اسے عمر کی آنکھوں میں نمی کی ہلکی سی چمک نظر آئی۔ اگلے لمحے وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے ہٹا کر چہرہ جھکا چکا تھا۔
وہ بوجھل دل سے اس کے قریب سے اٹھ گئی۔ عمر ایک بار پھر اپنا خون بند کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ بھاری قدموں سے چلتے ہوئے وہ باہر نکل آئی، اور پھر چند لمحوں کے بعد اس نے دروازہ لاک ہونے کی آواز سنی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اب وہ اندر کیا کر رہاتھا یا کیا کرنے والا تھا وہ وہاں سے نہیں جانا چاہتی تھی۔ علیزہ وہیں دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی چند منٹ پہلے جو کچھ بھی ہوا تھا وہ اس کے لئے قطعی غیر متوقع تھا، لیکن غیر متوقع ہونے سے زیادہ ناقابل یقین تھا۔
انکل جہانگیر اور عمر کے درمیان ہمیشہ ہی اختلافات رہے تھے، اور ان سے کوئی بھی بے خبر نہیں تھا، لیکن یہ کسی کے لئے تشویش کا باعث بھی نہیں تھے۔ ایسے اختلافات صرف عمر اور جہانگیر کے درمیان ہی نہیں تھے، بلکہ خاندان کے تمام لوگوں کے درمیان تھے۔
٭٭٭
معاذ حیدرانگریزوں کے زمانے میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے تھے۔ اس زمانے میں انڈین سول سروس میں مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم تھی، اور جو تھے، وہ سول سروس میں رہنے کے لئے بڑی جانفشانی سے کام کرتے تھے۔ اپنے انگریز افسروں کے سامنے برٹش گورنمنٹ سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے بعض اوقات انہیں آؤٹ آف دا وے جا کر کام کرنا پڑتا، مگر ان کے ضمیر کے لئے یہ بات بہت کافی تھی کہ ان کے آفیسرز ان سے خوش تھے۔ سول سروس اس زمانے میں بھی ان کی ضرورت نہیں، شوق تھا۔ ان کا خاندان مالی طور پر اتنا مستحکم تھا کہ نوکری کی ضرورت نہ تو کسی کو پیش آتی تھی اور نہ ہی اسے پسند کیا جاتا تھا۔مگر معاذ حیدر کے باپ نے اس ٹرینڈ کوتوڑا اور اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے بعد سول سروس میں لے آئے۔ بنیادی طور پر وہ ایک جاگیردار خاندان سے تعلق رکھتے تھے، اور ان کے مزاج میں جاگیرداروں والی تمام چیزیں کوشش کے باوجود ختم نہیں ہو سکی تھیں۔ سول سروس جوائن کرنے کے کچھ سالوں بعد ہندوستان تقسیم ہو گیا تھا معاذ حیدر مشرقی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان ہجرت کی۔ جتنا عرصہ وہ سول سروس میں رہے، انہوں نے بہت محنت سے کام کیا۔ جب انہوں نے ملازمت سے ریٹائرمنٹ لی تب تک ان کے چاروں بیٹے تھوڑے تھوڑے عرصہ کے وقفہ سے سول سروس سے منسلک ہو چکے تھے۔
ان کا سب سے بڑا بیٹا ایاز حیدر بیرون ملک لاء کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب وطن واپس آکر فارن سروس جوائن کر چکا تھا۔ دوسرے بیٹے سعد حیدر نے بھی بڑے بھائی کی پیروی کرتے ہوئے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سول سروس جوائن کر لی، لیکن بڑے بھائی کے برعکس انہوں نے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کا انتخاب کیاتھا۔ عالمگیر اور جہانگیر نے بھی بڑے بھائیوں کی طرح بیرون ملک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد فارن سروس جوائن کر لی۔ سول سروس میں اپنی ساری اولاد بھیجنے والے معاذ حیدر واحد نہیں تھے، ان کے بھائیوں نے بھی قیام پاکستان کے بعد اپنی اولادوں کے لئے اسی شعبے کا انتخاب کیا تھا، اور اس وقت ان کا تقریباً سارا خاندان سول سروس کے مختلف شعبوں سے منسلک تھا۔
معاذ حیدر نے ملازمت صاف ہاتھوں سے چھوڑی تھی۔ چھوٹی موٹی چیزوں کو اگر ایک طرف رکھ دیں تو انہیں اپنی ملازمت کے دوران کسی اسکینڈل کا سامنا کرنا پڑا تھا، نہ ہی انہیں کوئی ایسا کام کرنا پڑا تھا کہ جس پر انہیں شرمندگی ہو یا ان کا ضمیر خود کو مجرم تصور کرتا ہو۔ ورثے میں باپ سے لمبی چوڑی جاگیر ملی تھی، اور انہوں نے اسی روپے سے اولاد کو بیرون ملک تعلیم کے لئے بھیجوایا تھا۔ لیکن بیرون ملک قیام کے دوران ان کے بیٹوں کی مکمل برین واشنگ ہو گئی تھی۔ وہ چاروں زندگی کو ایک نئی نظر سے دیکھنے لگے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے باپ نے اپنی سروس میں صرف اچھی ریپیوٹیشن کمائی ہے اور یہ کمائی ان کی محنت کے مقابلے میں کچھ نہیں تھی۔ ان چاروں نے سول سروس جوائن کرتے ہوئے اپنے ذہن میں کچھ اور مقاصد رکھے تھے اور پھر انہوں نے ہمیشہ ان ہی مقاصد کے حصول کے لئے کام کیاتھا۔ چاروں نے اپنی سروس کے دوران ہر طرح کی کرپشن کی۔ مگر اس کے باوجود وہ فیملی بیک گراؤنڈ اور تعلقات کی وجہ سے ایسے اہم عہدوں تک پہنچ گئے تھے جس کی مثال صرف پاکستان میں ہی ملتی تھی ۔
معاذ حیدر سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے کبھی اپنی اولاد کے ذہنوں کو پڑ ھنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے خود کو ضرورت سے زیادہ لبرل ظاہر کیا تھا۔ ان کی مصروفیات ہمیشہ ان کے اپنے بچوں کے ساتھ رابطوں میں آڑے آتی رہیں۔ مگر انہوں نے اس کی خاص پرواہ نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ بچوں کی آئیڈیل تربیت کر رہے ہیں۔ انہوں نے انہیں دنیا کی ہر نعمت دے رکھی تھی۔ اس لئے وہ ہر لحاظ سے ایک مثالی باپ ہیں۔ بعد میں بھی بیٹوں کو کسی چیز سے منع کرنے کے بجائے،انہوں نے اس چیز کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے انہیں ہر کام کی اجازت دے دی تھی۔
جب ان کے بیٹوں کی کرپشن کا ذکر ہونے لگا تب بھی انہوں نے انہیں روکنے کے بجائے انہیں بچانے کے لئے اپنے تعلقات کو بخوبی استعمال کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے بیٹے جو کچھ کر رہے ہیں وہ ساری بیورو کریسی کرتی ہے اور ان چیزوں کے بغیر ان کے بیٹے اپنا کیرئیر نہیں بناسکتے۔ کبھی اگر انہیں پچھتاوا ہوتا بھی تو وہ خود کو سو دلیلوں سے سمجھا لیتے۔
ان کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں کو انہوں نے اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی ، لیکن بیٹیوں کو کانونٹ میں پڑھانے کے بعد بہت ہی کم عمری میں ہی ان کی شادیاں کر دی تھیں۔ ان کے بیٹے اور بیٹیاں مالی لحاظ سے جتنے آسودہ تھے، نجی زندگی میں اتنے ہی زیادہ مسائل کا شکار تھے۔
ان کے سب سے بڑے بیٹے ایاز نے بیرونِ ملک تعلیم کے دوران ہی ان کی مرضی کے خلاف اپنی مرضی سے ایک یونانی لڑکی سے شادی کر لی تھی۔ ایک ڈیڑھ سال یہ شادی کسی نہ کسی طرح چلتی رہی پھر دونوں میں طلاق ہو گئی تھی۔ پاکستان آنے کے بعد انہوں نے سول سروس جوائن کرنے کے بعد ماں باپ کی مرضی سے دوسری شادی کی۔ یہ شادی کچھ عرصہ تو اچھی طرح چلتی رہی۔ ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہوئے پھر کچھ عرصہ بعد انہوں نے چھپ کر ایک اورشادی کر لی۔