سوزِ دروں — سندس جبین

وہ بے انتہا خوش تھی ۔
عبدالہادی نے رِنگ ڈبیا سے نکال لی ، اور پھر اُس کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔ وہ اُس کا ہاتھ تھامنا چاہتا تھا ۔اُس نے بلا جھجھک اپناہاتھ اُس کے ہاتھ میںدے دیا اور اس سے قبل کہ وہ کچھ بولتا۔یک لخت جیسے بھونچال سا آگیا ۔ دروازہ زور دار طریقے سے دھڑ دھڑایا گیا۔۔ باہر سے کوئی چلا کر دروازہ کھولنے کو کہہ رہا تھا۔۔ دوڑتے قدموں کی آوازیں، اسٹوڈنٹس کا شور۔۔
وہ دونوں پتھر کے مجسموں کی مانند ساکت تھے ۔
اس سے پہلے کہ اُن کے ساکن وجود میں کوئی جنبش ہوتی دروازے میں حرکت ہوئی اور اُسے زور دار دھکا لگایا گیا۔ایک ٹھوکر ۔۔۔ دوسری ۔۔۔اور کمزور چٹخنی جواب دے گئی ۔ دھاڑ کی آواز سے دروازہ کھلا اور ۔۔۔ سب سے آگے اندرآنے والا چہرہ سکیورٹی چیف میجر احسن کا تھا جن کے پیچھے گارڈز تھے اور ان کے پیچھے اسٹوڈنٹس کا جمِ غفیر جمع تھا ۔۔۔۔۔
نور کا رنگ سفید پڑگیا ۔ اُس کے ہاتھ سے عبدالہادی کا ہاتھ چھوٹ گیا ۔۔۔ اور وہ رِنگ پھسلتی ہوئی نیچے گر گئی ، اُس کی قسمت میں نور کی انگلی میں سجنا نہیں لکھا تھا ۔
کم نصیبی کا کوئی رنگ نہیں ہوتا
یہ بے رنگ ہوتی ہے ۔
مگر بے رنگ ہوتے ہوئے بھی
ذی نفس کے چہرے کے رنگ
کھا جاتی ہے ۔۔۔۔!!!
بد نصیبی ، بددعا کی طرح ہوتی ہے
جو موت تک پیچھا کرتی ہے
میں کم نصیب تھی نہ بد نصیب
میں تقدیر کا شکار تھی
کیوں کہ ۔۔۔۔!!!
میرے مقدر میں ہار تھی ۔۔۔!





وہ ٹوٹے ہوئے قدموں سے ویران سڑک پر چل رہی تھی ۔اُس کا اسکارف ڈھیلا ہو کر ایک طرف ڈھلکا ہوا تھا اور اُس کا بیگ کسی پنڈولم کی طرح اُس کے کندھے پر جھول رہا تھا ۔ اُس کے بیگ کی پہلی زپ میں ایک آفیشل آرڈر تھا جس کے نیچے یونیورسٹی ریکٹر کے دستخط تھے، اُسے یونیورسٹی سے ”رسٹی کیٹ” کر دیا گیا تھا ۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بغیر کسی تعطل کے بہتے چلے جارہے تھے۔ کسی آبشار کی مانند۔۔۔ روانی سے ، اور اُس کی آنکھوں کا کاجل اُس کے گالوں پر پھیلا ہو ا تھا۔ جس سے اُس کے نقوش کی دل کشی مدھم پڑ گئی تھی۔
اور اس کے ہاتھوں کی انگلیاں خالی تھیں، ان میں وہ ”رِنگ ”نہیں تھی۔
اور نصیب میں کیا تھا ؟؟
کم ازکم وہ ذلت ، وہ کالک اور وہ اذیت تو بالکل نہ تھی جو اُس نے اپنے اعمال سے خود اپنے لئے لکھ لی تھی۔
یہ وہ خاک تھی جو اُس نے خود اپنے سر میں ڈالی تھی ۔ اب وہ کچھ بھی کرتی، وقت واپس نہیں آسکتا تھا ۔ اس کا ذہن ایک ہی منظر پر منجمد تھا ۔
چیف سکیورٹی آفیسر میجر احسن نے جھک کر کالر سے عبدالہادی کو پکڑا تھا اور الٹے ہاتھ کا ایک تھپڑ اُس کے بائیں گا ل پر مارا تھا ۔وہ چوں کہ اس عمل کیلئے تیار نہ تھا، اس لیے اسے دھچکا لگا تھا وہ لڑکھڑا کر پیچھے گر ا اور گارڈز نے اُسے دونوں بازوؤں سے جکڑ لیا ۔۔ ۔ وہ ہل بھی نہیں سکا۔
میجر احسن نے سختی سے اُسے اُٹھنے کا آرڈر دیا ۔وہ گم صم سی کھڑی ہو گئی۔ اسٹوڈنٹس کے دل خراش کمنٹس اور گارڈز کی چھید کرتی نظریں۔ اُسے لگا اُ سکی ٹانگیں جیلی کی بنی ہوئی تھیں۔ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ پائی ،اور لڑکھڑا کر نیچے پڑی ۔اُس کا دل گھبرا رہا تھا ۔کسی اسٹوڈنٹ نے چیخ کر کہا تھا اور وہ الفاظ کیا تھے ۔ اُس کا دل چاہا وہ کانوں پر ہاتھ رکھ لے ۔۔۔ وہ کاٹتے ، وجود کو چھلنی کرتے الفاظ ۔۔۔۔ ”گندی لڑکی ” ۔۔۔ اُسے لگا وہ وہیں مر گئی ہو ۔۔۔
‘نورالصباح ” کے شفاف ، بے داغ وجود اور پاکیزہ کردار کی دھجیاں اُڑا کے رکھ دی گئیں ۔ ”بند کمرے ” کا کھیل کیا تھا ؟ اور کب سے چل رہا تھا ۔ ہر طرف یوں چیخ و پکار تھی جیسے وہ سب ایک پل میں جان لینا چاہتے تھے کہ کیا وہ پہلے بھی یونہی کمرہ بند کر کے ۔۔۔ ؟؟ اُسے لگا قیامت بس آہی گئی تھی ۔ بھلا اس سے بڑھ کر قیامت کیا ہو گی ؟؟؟
انہیں مجرموں کی طرح گارڈز کے نرغے میں ریکٹر آفس میں پہنچا دیا گیا ۔
اور اس بات کی خبر لمحوں میں یونیورسٹی میں پھیل گئی ۔ سوشل میڈیا پر Condemn کرنا، وعظ و نصیحت، لڑکی کی تربیت پر انگلی اٹھانا، لڑکے کو نفس پر قابو رکھنے کے مشورے سب اس طرح سے پھوٹا جیسے برسات میں جا بجا کُھمبیاں اُگ آتی ہوں ۔
ریکٹر صاحب عبدالہادی کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ وہ ان کے دوست کے بھائی کا بیٹا تھا اور اس کے ایڈمیشن کے وقت انہیں عبدالہادی کا خاص خیال رکھنے کی تاکید کی گئی تھی ۔ اس وقت اُسے اپنے آفس میں دیکھ کر اور سارا معاملہ جا ن کر چند لمحے وہ شاکڈ رہ گئے تھے ۔
مگر یہ اس قدر حساس اور نازک معاملہ تھا کہ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا تھا ۔
انہوں نے خاموشی سے اس کا جھکا سر دیکھا ۔ وہ کچھ بول نہیں رہا تھا نہ کوئی وضاحت دے رہا تھا ۔اس بات نے انھیں مزید طیش دلایا تھا ۔
دوسری طرف وہ لڑکی بالکل خاموش تھی اور اُس کا رنگ بری طرح زرد پڑا ہوا تھا۔ اُس کا چہرہ سورج مکھی کے پھول کی طرح تھا، خوبصورت ، زرد اور اداس۔ وہ بے حد ڈری ہوئی تھی اور اس کی آنکھوں میں مسلسل ایک نمی ٹھہری ہوئی تھی جو بہ بھی نہ رہی تھی ۔
انہوں نے فور ی طور پر ایڈ منسٹریشن بلاک میں کال کر کے ان کے گھر وں کے ایڈریس اور فون نمبر لانے کا کہا تھا۔
دس منٹ بعد اُن کا پی اے ایک چِٹ اُن کے ٹیبل پر رکھ گیا ۔
عبدالہادی کے پاپا کا نمبر، اُس کے گھر کا ایڈریس ۔نورالصباح کے گھر کا نمبر ، اس کے گھر کا ایڈریس۔
نور الصباح کے گھر کا پتہ مکمل تھا اور اُس کا دیا گیا فون نمبر ایک پی ٹی سی ایل لینڈ لائن تھا جو کہ گذشتہ تین ماہ سے بند تھا ۔
جبکہ عبدالہادی کے پاپا نے پہلی بیل پر ہی فون اٹھا لیا تھا ۔انہوں نے فوراً اسے اپنے آفس طلب کیا ۔
اور جب شہاب منیر وہاں پہنچے تو نور کو الگ روم میں بٹھا دیا گیا تھا۔
ریکٹر کو بڑی اچھی طرح اندازہ تھا کہ یہ معاملہ اتنی آسانی سے سلجھنے والا نہیں تھا ۔جبھی انہوں نے بنا لگی لپٹی رکھے ، صاف لفظوں میں انھیں سارا کچھ بتا دیا تھا ۔ وہ بے چارے شہاب منیر، سادہ گو اور سیدھے سادھے بزنس مین، چند لمحے بے یقینی سے اپنے بیٹے کو دیکھتے رہے جس کا سر جھکا ہوا تھا۔ ان کا خوبصورت اور معصوم بیٹا بھلا یہ کر سکتا تھا جس کی خبر انھیں ریکٹر صاحب دے رہے تھے؟
ایک بند کمرے میں وہ کسی لڑکی کے ساتھ موجود تھا اور سکیورٹی انچارج کے بیان کے مطابق دروازہ بجایا گیا اور جب کھولا نہ گیا تو مجبوراًتوڑنا پڑا تھا ۔ اس کے آگے کی کہانی جاننے میں کسی کو بھی دلچسپی نہ تھی ۔ کیوں کہ آگے کچھ بھی سوچنا اتنا ہی آسان تھا کہ کسی کو بھی یہ جاننے میں دلچسپی نہ تھی کہ موقعہ واردات پر وہ کس حالت میں تھے ؟؟؟
انھوں نے بڑے تحمل سے ریکٹر کی بات سنی اور پھر چند لمحے بے یقینی سے اُنھیں دیکھتے رہے۔اور پھر غصے اور بے پناہ غیض و غضب کی ایک تیز لہر تھی جو اُنھیں بہا لے گئی وہ بے ساختہ اُٹھے اور عبدالہادی پر جھپٹے اور اُسے گریبان سے پکڑ لیا ۔
”کیا کر بیٹھے ہو؟” اُن کی آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا ۔
”پاپا پلیز۔۔۔ کچھ نہیں کیا میں نے۔ ” وہ پہلی بار بولا تھا ۔ اس کے انداز میں تلخی تھی ۔
”جسٹ شٹ اپ!” انھوں نے بے قابو ہو کر اسے تھپڑ مارا تھا ۔۔۔ وہ ہل کررہ گیا ۔
آخر کیا تھا اس دن میں؟؟؟ اتنا بُرا دن کیسے طلوع ہوا تھا اُس کی زندگی میں ؟؟؟ اتنی ذلت کیسے لکھ دی گئی تھی اُس کی قسمت میں ؟؟؟
اُس مقدر کے سکندر کو جیسے یقین ہی نہیں آرہا تھا ۔ اُس پرآج تک کسی نے ہاتھ نہیں اٹھایا تھا ۔ مگر نہیں آج سے پہلے تک۔ آج اُس کے حسین چہرے پر بڑے غصیلے اور زور دار تھپڑ پڑے تھے ۔ اور اتنی ذلت ۔۔۔ اُسے عادت نہیں تھی ناں !
اُس کا گال دہک رہا تھا اور دل جل رہا تھا ۔پاپا نے اُس کا موبائل چھین لیا اور اس کے بعد انہوں نے ریکٹر سے کہا تھا کہ وہ دل کے مریض ہیں اور اُن کی حالت ٹھیک نہیں،وہ بعد میں اُن سے ملنے آئیں گے ۔
ریکٹر صاحب نے اُن کا چہرہ دیکھا جو کہ تکلیف میں ڈوبا ہوا تھا ۔ روحانی بھی اور جسمانی بھی ۔اور اُنھیں اجازت دینا پڑی ۔
جیسے ہی وہ آفس سے باہر نکلے ،گارڈز نے فور ی طور پر اُنھیں پارکنگ میں اُن کی گاڑی تک پہنچایا تھا ۔
ورنہ اسٹوڈنٹس اتنے مشتعل تھے کہ ان پر ٹوٹ پڑتے ۔ اُن کے جانے کے بعد نورالصباح کو بُلایا گیا ۔۔۔ مگر چوں کہ اس کا پتہ اور نمبر دونوں ہی نامکمل تھے اور وہ کسی صورت اپنے پیرنٹس کو یونیورسٹی بلانے کو تیار نہ تھی ۔لہٰذ ااس کے جواب میں ریکٹر صاحب نے اُسے دو ٹوک الفاظ میں بتایا تھا کہ وہ عبدالہادی کی آس پر نہ رہے ، وہ جا چُکا ہے۔ نو ر کا یہ سننا تھا کہ اُس کا رنگ مزید زرد پڑ گیا ۔
اب اُس کے لب مضبوطی سے بھنچ گئے ، پہلے وہ کچھ بولنا چاہتی تھی شاید مگر اب نہیں ۔ جب ساتھی ہی نہ رہا تو کس کے سہارے پر اکڑتی ؟؟؟
اُس نے رولز کو violate کیا تھا ۔ اخلاق سوز اور اخلاق باختہ حرکت کی تھی اور اب اس کی اس یونیورسٹی میں موجودگی نا ممکن تھی ۔ ایسی کتنی ہی وجوہات تھیں جو کہ اس کے لیٹر پر درج کی گئیں تھیں جس کے مطابق اُسے رسٹی کیٹ کر دیا گیا تھا ۔
اور وہ خالی دل اور خالی ہاتھوں سے وہ ”کریکٹر سرٹیفکیٹ ” لے کر گھر آگئی ۔
زندگی خاک ہوئی بھی تو اُس کے لیے جس نے اپنا بنایا، نہ کسی کے قابل چھوڑا ۔ کیا یہ محبت تھی ؟؟؟
٭…٭…٭





میرے ہم سفر ، میرے سائباں
میری زندگی ، میرا کل جہاں
ہیں رہ ِ حیات کے سلسلے
کبھی فرقتیں کبھی فاصلے
رہیں تیرے ساتھ رواںدواں
میرے کارواں ، میرے قافلے
تو ہی رو برو ، تو ہی ہے نہاں
میرے ہم سفر ، میرے سائباں
تیری ملاقات کی خواہشیں
تیری آرزو، تیری چاہتیں
شب وروز تیری ہی جستجو
تجھے ڈھونڈتی پھروں کُو بکو
تو میرا یقین ، تو کہیں گماں
میرے ہم سفر ، میرے سائباں
تین دن سے اُس کا نمبر بند تھا ۔ اور وہ اس قدر بیمار تھی کہ کروٹ لینا بھی محال تھا ۔نیم غنودگی میں ”ہادی ہادی ” پکارتی اور پھر جب عالم ہو ش میں لوٹتی تو رو رو کر نڈھال ہو تی ۔ اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ سو کیوں نہیں پارہی ؟اُسے نیند نہیں آرہی تھی، اُس کی آنکھیں بند ہوتی تھیں۔مگر اس کے بعد وہی بھیانک منظر اُس کی آنکھوں کے پردے پر جم جاتا۔ وہ تڑپ کر آنکھیں کھولتی اور پھر پسینے میں ڈوب جاتی ۔ حالاں کہ یہ سردیوں کے دن تھے مگر اس کے باوجود اس کا یہی حال ہوتا ۔ وہ لیٹی روتی رہتی اور اگر غنودگی میں جاتی تو اُسے ڈراؤنے خواب آنے لگتے تھے۔ کبھی وہ دیکھتی کہ وہ یونیورسٹی گراؤنڈ پر گری پڑی ہے اور وہاں موجود سب لوگ اُسے پتھر مار رہے ہیں۔۔ کبھی اُسے لگتا وہ سب اُسے”گندی لڑکی” پکاررہے ہیں، کبھی وہ دیکھتی کہ وہ پیاس کے صحرا میں بھٹک رہی ہے اور ہادی اُسے چھوڑ کر جا چکا ہے۔
بس ایسے ہی تھے اُس کے خواب!!!
خوف اور دہشت سے بھرے ہوئے ، اُس کے پوشیدہ ڈر اور خوف خواب کی صورت دھار کر اُسے ڈراتے تھے اور وہ تڑپ تڑپ جاتی تھی۔ اُسے ہر شخص سے شکوہ تھا، ہر کوئی اسے زہر سے بھی بُرا لگ رہا تھا مگر اس کے باوجود اُسے بس ہادی کی فکر تھی ۔
اُس کے گھر تو سب بے خبر تھے ۔۔۔۔ مگر عبدالہادی کے تو پاپا آئے تھے ۔ اُنھیں تو سب بتا دیا گیا ہو گا اور وہ سوچتی تو کانپ جاتی کہ بھلا انہوں نے ہادی کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا ؟؟؟
وہ گھر جانے کے بعد اس سے کس طرح پیش آئے ہوں گے ؟؟؟
اُسے اپنی فکر نہیں تھی ۔اُس کا کردار گندا ہوا ۔اُس کا نام بدنام ہوا ۔اُس کا کیرئیر ختم ہوا
اُسے یونی ورسٹی سے نکال دیا گیا ۔
اُسے شاید یہ ساری باتیں یاد بھی نہیں تھیں ۔ یاد تھا تو بس اتنا کہ عبدالہاد ی کدھر تھا؟؟؟
اُس نے ایک بار بھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی تھی کہ اُس نے کس قدر غلط قدم اٹھائے تھے جن کے نتیجے میں اُسے آج یہ دن دیکھنا پڑا تھا ۔اُس نے ایک بار بھی یہ نہ سوچا تھا کہ اللہ کی بنائی گئی حدود کو توڑ کر اُس نے اپنے ساتھ کس قدر ظلم کیا تھا ۔
یادرہ گیا تھا تو بس اک وہ شخص جو اُس کے دل میں تھا ۔۔۔اُس کا دل تھا، اُس کی جان تھا اور اُس کی سانس تھا ۔
محبت اتنی ہی اندھی ہوتی ہے شاید جو انسان کو سب رشتے ، عزت، مرتبہ اور نام سب کچھ ڈبو دینے پر مجبور کر دیتی ہے ۔اور انسان پچھتاتا بھی نہیں ۔
اُسے بھی کوئی پچھتاوا نہیں تھا ۔
اُسے پتا تھا کہ وہ غلط تھی ۔ مگر اُسے لگتا تھا کہ وہ ‘غلط’ نہیں تھی ۔
اُس نے اپنی زندگی خاک کر لی تھی اور اسے خبر تک نہیں تھی ۔
٭…٭…٭
کمرے میں ہلکی نیلی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔ایزی چیئر پر دراز وجود آہستہ آہستہ جھول رہا تھا ۔ اُس کے ہلنے سے کمرے کی خاموش اور جامد فضا میں ہلکی سی آواز پھیلتی اور جب چیئر رکتی تو خاموشی پھر سے اپنے پَر پھیلا لیتی ۔
آج جو کچھ ہوا تھا، وہ بے حد تکلیف دہ تھا ۔ جس کی نہ تو اُس نے توقع کی تھی نہ ہی خواہش۔
وہ ابھی تک بے یقین تھا۔ جو اُس نے سُنا کیا وہ سچ تھا ؟ یا اُس کو مبالغہ آرائی سے بڑھا چڑھا دیا گیا تھا؟؟؟




Loading

Read Previous

کھانا پکانا — ارم سرفراز

Read Next

انہیں ہم یاد کرتے ہیں — اشتیاق احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!