سوزِ دروں — سندس جبین

اور یوں اُس ویک اینڈ پر جب کہ وہ اپنے شہر آئی ہوئی تھی ۔ وہ دونوں بنا بتائے اُ ن کی طرف آگئے ۔ اماں بے حد حیران تھیں کہ اس کی میڈم اُس کے لیے اپنے بھانجے کا رشتہ لائی تھیں ۔
بڑی خوش اسلوبی سے سارے معاملات کو ڈیل کرتے کرتے وہ فیضان کی مرضی بھول گئیں جوکہ اس پرپوزل سے قطعی طور پر بے خبر تھا ۔
اور دوسری طرف’وہ’ تھی ۔
اپنے آپ کو مکمل ”بے خبر” ظاہر کرتی تھی ۔ اُ س نے کہیں سے بھنک ہی نہ لگنے دی کہ وہ اس سارے ماسٹر پلان کو جانتی تھی ۔
ابا نے سوچنے کے لیے وقت مانگا تھا ۔ جسے ان کا حق سمجھ کر بہ خوشی دیا گیا ۔
دوسری طرف وہ حیران سی تھی۔ ابھی کل ہی تو اُس کی فیض سے بات ہوئی تھی اُس میں تو اس نے قطعی کوئی اشارہ نہ دیا تھا ؟
وہ دیتا بھی کیسے ؟اُسے خود کب علم تھا؟
وہ بھی بے خبر تھا اور رات جب خالہ مزے سے اُسے سارا قصہ سُنارہی تھیں تو وہ ساکت سارہ گیا ۔
”مجھ سے پوچھے بغیر آپ اتنا بڑا قدم کیسے اُٹھا سکتی ہیں؟” وہ بلبلا اٹھا ۔
جواباً خالہ نے یوں ظاہر کیا جیسے کچھ سُنا ہی نہ ہو۔
”اگر تم اپنی زندگی ضائع کرنا چاہتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم تمہیں اس کی اجازت بھی دے دیں گے ۔ ہربات تمہاری نہیں مانی جاسکتی ۔” اُنہیں غصہ آگیا ۔
وہ کچھ ٹھنڈا سا ہو گیا تھا ۔





”مگر پھر بھی۔۔۔” وہ ہلکی آواز میں بولا ۔
”تو ٹھیک ہے مت کرو شادی اُس سے ، کسی اور سے کر لو ۔” اس بار انہوں نے نیاتُرپ کا پتا پھینکا ۔ وہ لمحوں میں بے بس ہوا تھا ۔
”خالہ ! آپ کیا چاہتی ہیں ؟”
”فیضان ! میری بات سنو، تم نے جو بھی اُس کے لیے کیا، وہ صرف تم جانتے ہو ، وہ نہیں جانتی ۔ اس لیے پلیز کوئی فضول حرکت کرنے سے گریز کرنا ۔تم سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ اُس کو اپنے ”احسانات” گنواؤ، اس کے بہ جائے تم یہ کیوں نہیں کرتے اُسے اپنی ”محبت ” کے بارے میں بتاؤ۔”
وہ اُسے اپنے مخصوص ٹھنڈے میٹھے انداز میں سمجھا رہی تھیں۔
فیضان کے اندر کچھ چمکا تھا ۔ کوئی جگنو سا تھا شاید۔۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرا دیا ۔
”اب لگتا ہے یہی کرنا پڑے گا ۔” وہ اُنہیں کہنے لگا ۔
”اور سنو۔”
”جی ”
”بریکنگ نیوز یہ ہے کہ نورالصباح میرے ”بھانجے ” سے ملنا چاہتی ہے۔ ” وہ اس بار ہنس رہی تھیں۔
فیضان کو جھٹکا سا لگا ۔
”کیا واقعی ”؟
”جی ہاں ”
”اور اگر اُس نے مجھے دیکھ کر انکار کر دیا تو ؟” اُسے عجیب سی پریشانی نے آن گھیرا ۔
”اللہ نہ کرے ۔” وہ دہل سی گئیں ۔
”امکان تو ہے ”۔ اُس کے لہجے میں خالی پن سا تھا ۔
”ان شاء اللہ ایسا کچھ نہیں ہو گا ۔ ایک دو دن میں تمہیں اُس سے ملنا ہو گا ۔” انہوں نے کہا تو وہ خاموشی سے سر ہلا کر اُٹھ گیا ۔
وہ صرف دو بھائی تھے ۔ بڑا بھائی امریکا سے پی ایچ ڈی کررہا تھا اور وہ تھا کہ صاف کہتاکہ پڑھنے کو دل نہیں کرتا ۔ ماما کی ڈیتھ بچپن میں ہی ہو چکی تھی اور اسی وجہ سے اُس کا زیادہ تر بچپن خالہ کے ساتھ گُزرا تھا جو کہ ماں بھی تھیں اور دوست بھی ۔
وہ بڑے اچھے طریقے سے جانتا تھا کہ وہ ہر حال میں اُس کے لیے خیر اندیش تھیں، جبھی مطمئن ہو گیا تھا کہ وہ جو کہہ رہی تھیں، ویسا ہی ہو گا ۔
٭…٭…٭
یہ کچھ دن بعد کا ذکر تھا جب ان دونوں کو پیغام ملا کہ میم کی اسٹوڈنٹ اور میم کا بھانجا ایک دوسرے سے مل لیں۔ وقت اور جگہ طے شدہ تھی ۔
دونوں اس میسج کو پڑھ کر مسکرائے تھے۔
فیضان کو یقین تھا کہ یہ نورالصباح کے لیے بہت بڑا جھٹکا ہو گا ۔ اسے اس سے ملنے کے لیے جاناتھا اور تیارہوتے ہوئے وہ عجیب سی کنفیوزن کا شکار لگ رہا تھا۔اتنا کچھ ریجیکٹ کرنے کے بعد اس نے ایک سادہ سفید شلوار قمیض پہن لیا ۔آنکھوں کی سرخی آج کچھ کم تھی ۔ اور بالوں کو ہاتھ سے پیچھے سنواررہا تھا ۔ جب اس نے ریسٹورنٹ میں قدم رکھا تو شام کے زرد سائے چاروں طرف اپنے پَر پھیلا چکے تھے ۔
اور وہ’ ساحرہ’ اس کے سامنے تھی۔
وہ ایک پیور بلیک لمبی قمیص میں ملبوس تھی جس کے نیچے چوڑی دار پاجامہ تھا اور اس کے اوپر اس نے ہمیشہ کی طرح سیاہ اسکارف لیا ہو اتھا ۔
اُس کو پتا تھا کہ آج اسے خود اٹھ کر ویلکم کرنا پڑے گا ۔ورنہ اُس کو کیا پتا؟ ۔”میم کا بھانجا کون تھا ؟”سوچتے ہوئے اس کے لبوں پہ ایک محفوظ کن مسکراہٹ آ گئی ۔
وہ آہستہ سے آگے بڑھا تھا ۔ اُس کے ہاتھوں میں سُرخ گلاب تھے ۔محبت کی نشانی۔ اوراُن کاعکس اسکے چہرے پر بھی تھا ۔اُس کے چہرے پر ہلکی سی تمتماہٹ تھی ۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہ تھی ۔ وہ اپنے موبائل پر کچھ دیکھ رہی تھی ۔
”السلام علیکم”وہ ہلکی سی آواز کے ساتھ بولا ۔ وہ بُری طرح چونکی ۔ اس نے سر اٹھایا اور اُسے دیکھ کر بے ساختہ حیران ہو گئی ۔
”فیضان؟ آپ؟”
”جی ۔۔۔ میں میم کا بھانجا ۔۔۔ فیضان خان ”۔ وہ ہلکا سا مسکرایا اور پھول اُس کی طرف بڑھائے ۔
اور وہ نورالصباح تھی ۔بے حد کامیابی سے ایکٹنگ کرتی ہوئی حیران ہو ئی ۔اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔
”اور میں میم کی اسٹوڈنٹ نورالصباح کریم ” وہ حیرت پہ قابو پا کر اعتماد سے مسکرائی تھی ۔
اُس نے ہلکا سا سر کو خم دے کر پھول اُس کی طرف بڑھائے جوکہ اُس نے ایک تذبذب کے عالم میں تھام لئے ۔ جب وہ دونوں ٹیبل پر بیٹھ گئے تو ذرا دیر کے لیے ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی ۔جسے نورالصباح نے توڑا۔
”میم نے اماں کے آگے اپنے ”بھانجے ” کی بہت تعریفیں کی ہیں ۔”اُس کے انداز میں شرارت تھی ۔وہ بے ساختہ ہنسا ۔
”جن سے آپ کو اختلاف ہے ۔”
” ہرگز نہیں ”۔ وہ فوراً بولی ۔
”تو پھر؟؟؟”





” میں توقع نہیں کررہی تھی کہ وہ ”آپ” ہوں گے ۔”وہ صاف گوئی سے بولی ۔
فیضان نے بنا جواب دیے خاموشی سے اُسے دیکھا ۔
”میں نے خالہ کو سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر ۔۔۔ وہ آپ کو بہت پسند کرتی ہیں۔” اُس کا انداز صفائی دینے والا تھا ۔ نورکو اُس پر عجیب طرح سے ترس آیا تھا ۔
وہ سر پھرا، معصوم سا انسان خود کو چھپاتے نڈھال ہورہا تھا ۔ایک لمحے کو نور کا دل چاہا کہ اُس کا بھانڈا پھوڑ دے مگر پھر اس نے یہ خیال جھٹکا ۔
اُس نے یہ فیصلہ اُسی دن لے لیا تھا کہ وہ کبھی بھی اُسے یہ باور نہیں کروائے گی کہ وہ اس کے ”راز” سے آگاہ تھی ۔
اگر وہ خود کو چھپا کے رکھنا چاہتا تھا اور اگروہ چاہتا تھاکہ نورہمیشہ سر اٹھا کے اُس سے ملے ، تو وہ کیوں یہ راز آشکار کرکے اُس کے آگے جھکتی؟
” وہ آپ کو بہت پسند کرتی ہیں ۔” نور نے کہا ۔
وہ ذرا سا چونکا اور اس کو دیکھا ۔ سیاہ آنکھیں اُس کی آنکھوں سے ملیں، پھر جُھک گئیں۔ نورکو عجیب سے تحفظ کا احساس ہوا ۔ وہ ایک حیادار مرد تھا جس کی آنکھ لڑکیوں پہ جم نہیں جاتی تھی، گڑ نہیں جاتی تھی ۔وہ ایک مختلف انسان تھا ۔
”آپ ملنا چاہتی تھیں ۔” فیضان نے اُسے یاد دلایا ۔ وہ خیالات کے رُو سے باہر آئی۔
”آپ کی طرح میرے لیے بھی یہ پرپوزل ایک شاک ہے ۔ میں بھی ذہنی طور پر تیارنہیں تھی ۔اور مجھے اس چیز کا اندازہ بھی نہیں تھا کہ میری ملاقات ”آپ ” سے ہو گی ۔”مگر خیر یہ قسمت ہے ۔”وہ بولتی گئی ۔
”میں چند باتیں کرنا چاہتی ہوں آپ سے۔” وہ بات کرتے کرتے رُکی ۔ وہ ہمیشہ کی طرح سر جھکا کے اُس کی بات سن رہا تھا ۔
”میں سن رہا ہوں ”۔ وہ گلاب کی پنکھڑی پر ہاتھ پھیر رہا تھا ۔
وہ پھر سے بولنے لگی ۔
”آپ سے شادی کرنے کی صورت میں کچھ چیزیں جو آپ کو برداشت کرنا ہوں گی۔
میں جاب کرتی ہوں اور کرتی رہوں گی ۔میں ایک مختلف مزاج کی لڑکی ہوں کبھی کبھی ایک عجیب سا فیز جس میں خاموشی اور سکوت بھر ا ہوتا ہے ۔ مجھے اپنے حصار میںلے لیتا ہے ، جس سے نکلنے میں مجھے ہفتوں لگ جاتے ہیں ۔میرا ایک ماضی ہے جس کے بارے میں لوگ ہمیشہ بات کریں گے ۔ کیوں کہ باتیں دب جاتی ہیں لیکن بُھلائی نہیں جاتیں ۔اُس پر میں ٹارچر نہیں ہو سکتی ۔کیوں کہ وہ میرا ماضی تھا ۔ جب کہ شادی کی صورت میں آپ سے مستقبل کا وعدہ کروں گی جو کہ صرف اور صرف آپ کا حق ہو گا ۔”اُس کی بات جاری تھی اور وہ بڑی خاموشی اور توجہ سے سُن رہا تھا ۔
”میرے پیرنٹس ہیں اور ایک چھوٹا بھائی ہے جو کہ ابھی اسکول جاتا ہے ۔میں انہیں سپورٹ کرتی ہوں اور کرتی رہوں گی ۔” وہ اپنی بات مکمل کرکے رُ ک گئی ۔ فیضان نے پہلی بار سر اُٹھا کر اُسے دیکھا ۔ایک طویل سانس خارج کی اور ہلکا سا مسکرادیا۔
”مجھے کسی بھی بات پہ اعتراض نہیں ہے۔” اُس نے کہا ۔
نورالصباح کا منہ حیرت سے کُھل گیا ۔ اُسے یقین نہیں تھا کہ وہ اُس کی ہر بات سے ایگری کرے گا ۔
”کچھ باتیں میں بھی کرنا چاہتا ہوں ۔” وہ پھر سے گلاب کی پنکھڑی پہ اُنگلی پھیر رہا تھا۔
” میں اپنی ڈگری مکمل نہیں کر سکا ۔ میں ایک بی بی اے ڈگری ہولڈر ہوں ۔ کبھی کبھا ر بہت زودرنج ہو جاتا ہوں ۔غصہ بہت زیادہ کرتا ہوں، لاپرواہ ہوں ،چیزیں بھول جاتا ہوں۔
اور میں خود کو بدل نہیں سکتا ۔ یہ بھی نہیں کہوں گا کہ آپ کیلئے خود کو بدل دوں گا کیوں کہ یہ غلط بیانی ہو گی ۔مگر میں آپ کو اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ میں ایک بُرا اور بد باطن انسان نہیں ہوں ۔ میں آپ کا ساتھی بنوں گا۔ ہر طرح کے حالات میں ، ہر طرح کے دن رات میں ، خوشی اور غم میں آپ کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا ۔”
میں چاہوں گاکہ ہمارے درمیان ایک بہترین مطابقت ہو اور اگر آپ میرا ساتھ دیں گی تو کچھ بھی مشکل نہیں اور آخری بات ۔۔۔۔”وہ رُکا ، آنکھیں اُٹھا کر اُسے دیکھا جو عجیب سے ٹرانس میں اُسے دیکھ رہی تھی ۔
”میں آپ کو بہت پسند کرتا ہوں ۔۔۔بلکہ ۔۔۔۔” وہ رُکا ۔شاید وہ ہمت مجتمع کررہا تھا ۔
”میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں ۔” اور اتنا بڑا اقرار کرتے ہوئے اُس کے ہونٹ ہلکے سے لرزے تھے ۔وہ اب اضطراب سے ہونٹ کچل رہا تھا ۔
اور نورالصباح کو لگا کسی نے سُرخ پھولوں کی بوچھاڑ کردی ہو اُس پر ۔
یہ گفتگو اُس کی زندگی کی سب سے قیمتی گفتگو تھی ۔ یہ الفاظ سب سے گراں قدر تھے ۔ وہ مسکرادی اور اُس کی آنکھوں میں ایک گہری، بہت گہری چمک آگئی ۔
”تھینک یو ”۔ وہ شدت جذبات سے بس اتنا ہی بول پائی ۔
محبوب بنائے جانے کا احساس بہت خوش کُن تھا ۔
اُس کے قدم جیسے کہکشاں پر آگئے ۔آخر کار وہ ” معتبر” تھی ۔
فیضان اب مسکرا کر اُسے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب اس پر ایک بھاری ذمہ داری تھی ۔ اس پیاری لڑکی کی دل داری کرنا ۔۔۔۔! اُس کے ہونٹوں پر ایک گہری مسکراہٹ آگئی ۔
اُس نے نظر چراتے ہوئے سوچا اب جلد ہی وہ اُسے اپنے پاس لے جائے ۔ اُسے دل بھر کے دیکھ لے ۔ اُسے محسوس کر لے۔
کیوں کہ پھر اُس کے پا س حق ہو گا ۔
اپنے شریر دل کو جھڑکتے ہوئے وہ مینیو کارڈ اٹھانے لگا۔۔۔”بس ذرا صبر کے ، جبر کے دن تھوڑے ہی ہیں ۔”وہ خود کو تسلی دینے لگا ۔
اور دوسری طرف وہ سوچ رہی تھی کہ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ جو اتنے سالوں سے اس شہر میں رہ کر بھی اجنبی ہے، کہیں مل جائے اور وہ اُسے بتائے کہ کوئی بھی لڑکی بُری نہیں ہوتی، بس وہ اپنا اختیار جب کسی مر د اور خصوصاً انجان مر د کے ہاتھ دے دیتی ہے، تو وہ بے جان پُتلی کی طرح اُسے توڑ موڑ دیتا ہے ۔
اب وہ غلطیوں سے سیکھ چُکی تھی ۔
اور زندگی میں بہت دیر سے ہی سہی، مگر اس نے یہ بات جان لی تھی کہ وہ لوگ جو غلطی پہ ڈٹ جاتے ہیں، وہی ناکام ہوتے ہیں ۔ آگے بڑھنے والوں کے وصف میں تسلیم کرنے کا عنصر ہو تا ہے ۔ اور اُس نے سمجھ لیاتھا کہ اس معاشرے میں جس رشتے کو سماجی قبولیت نہیں ملتی بالآخروہ ایک گالی ہی بنتا ہے کیوںکہ جو لوگ خدا کے بتائے گئے راستوں سے انحراف کرتے ہیں، رسوا ہوتے ہیں ۔
محبت بہت خوبصورت ہے اگر اس سوزِ دروں میں پاکیزگی کا ساز ہو۔۔۔۔!!!
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

کھانا پکانا — ارم سرفراز

Read Next

انہیں ہم یاد کرتے ہیں — اشتیاق احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!