
دوسراہٹ — لبنیٰ طاہر
دیوار پر جھولتی ، بہار دکھاتی پھولوں کی بیل دل موہ رہی تھی ۔ اس سے پرے کھڑکی کی آ ہنی جالی کے نقش و
![]()

دیوار پر جھولتی ، بہار دکھاتی پھولوں کی بیل دل موہ رہی تھی ۔ اس سے پرے کھڑکی کی آ ہنی جالی کے نقش و
![]()

جون کی گرمی۔۔۔ دوزخ کی گرمی۔۔۔لاہور شہر اور اُنتالیس نمبر بس۔یہ بس ائیر پورٹ سے شیرا کوٹ تک جاتی تھی، نہ جانے کتنی خاک، کتنے
![]()

ڈگریاں تو اخراجات کی رسیدیں ہوتی ہیں۔ مگر کبھی کبھی زندگی او ر حا لات بھی ایک خاص ڈگری پر چل پڑتے ہیں، نا جانے
![]()

درخت کے سائے میں بیٹھے بیٹھے ایک دن وہ اُکتا گیا، یہ دنیا اتنی بڑی ہے میں کب تک یہاں پڑا رہوں گامجھے ضرور یہاں
![]()

”لِکھ خالہ حبیبن مع اہل و عیال” اماں نے عینک درست کرتے ہوئے معمر کو کارڈز لکھوانے شروع کئے ”لکھ دیا اماں” اُس نے لکھا
![]()

اس کچے سے صحن میں شام اُتر رہی تھی۔ ہوا نے چلنے سے انکار کر دیا اور بڑھتی حبس نے سینوں کے اندر دھڑکتے دل
![]()

داستان محبت مقابلے میں شامل ”سوزِ دروں” ایک ایسی کہانی ہے جس کو لکھنے سے پہلے کئی بار میرا قلم دماغی اور ارادی طور پر
![]()

”اماں! کدھر ہو؟” ”اماں جلدی آئو”۔ شبانہ بلند آواز میں پکار رہی تھی۔ ایک تو صبح سویرے خالہ شیداں کا فون اس کی سپنوں بھری
![]()

بہت پرانی بات ہے ایک دیو کا ایک بستی پر سے گزر ہوا۔ اس کی نظر اک گھر کے باغ میں کھڑی خوب صورت لڑکی
![]()

اُف آمدنی، اخراجات، مہنگائی، بچت، سارا مہینہ یہ چکر چلتا رہتا ہے اور دماغ کی دہی بن جاتی ہے۔بے شک ہماری آمدنی اللہ کے فضل
![]()