جزا — نایاب علی
گرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ چرند پرند اس گرم دوپہر سے چھپ کر اپنی پناہ گاہوں میں آرام فرما تھے۔ اس تپتی دوپہر نے آدم
گرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ چرند پرند اس گرم دوپہر سے چھپ کر اپنی پناہ گاہوں میں آرام فرما تھے۔ اس تپتی دوپہر نے آدم
پورے گاؤں کو سانپ سونگھ گیا۔ پنچایت کا فیصلہ تھا ہی ایسا… شاید ہی کوئی گھر ہو جس کا چولہا جلا ہو۔ ہر طرف سناٹا
وہ آج بھی ویسا ہی کھانا بناتیں ہیں جیسے دس سال پہلے بنایا کرتیں تھیں، یا اس سے بھی پہلے بیس سال پہلے…… اس سے
صبح اُٹھ کر اس نے مُندی مُندی آنکھوں سے موبائل اُٹھایا اور Inboxمیں آئے ہوئے بہت سے میسجز کو چھوڑ کر احسن کا میسج پڑھا…
’’رول نمبرچار! عمر صدیق ۔۔کہو آج کیا نیا بہانہ ہے ؟ ‘‘ ’’استاد جی! ابھی چوہدری صاحب نے کٹائی کی رقم نہیں دی۔جیسے ہی پیسے
اماں کے گھر آئے ہوئے عمیرہ کو دوسرا دن تھا اور وہ کچن میں عائزہ کی مدد کرکے نکل رہی تھی کہ دروازے پر بجتی
عام سے گھر کے عام سے کمرے میں دوپلنگ ساتھ ساتھ بچھے ہوئے تھے۔ ایک پر چھے سالہ گڈی اور پانچ سالہ ننھی لیٹی ہوئی
’’دیکھو تو ذرا اس کے کپڑے!‘‘ سمیرا نے خرد کی طرف اپنا موبائل بڑھایا۔ سکرین پر پاکستانی شوبز کا صفحہ کھلا تھا جس میں ملک
ماہا آج بہت خوش تھی کیوں کہ چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں اور اس بار تو عید بھی چھٹیوں میں آنی تھی۔ بڑی عید بھی
“بابا آج مجھے فائیو سٹار میں ڈنر کرنا ہے ۔” میرب آصف کے گلے میں جھولتے ہوئےفرمائش کر رہی تھی۔ “جہاں میری جان کہے گی
Alif Kitab Publications Dismiss