”ہاں وہ خود سر ہے،ہاں وہ لاپرواہ ہے،ہاں وہ ضدی بھی ہے۔وہ مجھ پر گئی ہے مگر ایک بات ہے۔ وہ جو چھوٹی سی بات کہتے ہیں نا کہ دل کی بری نہیں ہے، میں کہتا ہوں وہ دل کی ہی نہیں سوچ کی بھی بری نہیں ہے۔”

”اب تم اس کی نہیں، اپنے نظریات کی حمایت کر رہے ہو۔ خود کو فیور دینا تمہارا پرانا مشغلہ ہے۔تم ہمیشہ اپنی صلاحیتوں کے خود معترف ہوئے ہو۔”

” مگر شیبا ایسی نہیں ہے۔”

”اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔” وہ سر جھٹک کر مسکرا نہ سکیں۔

”فرق پڑتا ہے۔ اس کا مطلب ہے وہ مزید ترقی کرے گی۔”

” مجھے اس کی ترقی نہیں،اس کی کامیاب زندگی چاہیے۔ ایک مکمل اور بھرپور زندگی، ترقی بھی زندگی کا ایک حصہ ہوتی ہے،مگر صرف ایک حصہ ہوتی ہے۔”

”یہ دیکھو کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ جو چاہتی ہے اسے کرنے دو۔ سب کچھ کررہی ہے وہ۔”

” مگرمیں تھک گئی ہوںتم دونوں کے ساتھ بحثیں کر کرکے۔ ملتا کچھ نہیں بحث کرنے سے کبھی کسی کو کچھ نہیں ملا۔شہاب میرا دل چاہتا ہے کہ…” وہ زچ ہوچکی تھیں،جملہ ادھورا چھوڑ کر چپ ہوگئیں۔

”تحمل رکھو۔” وہ پاس آ بیٹھے۔

”دنیا کا کوئی بھی مسئلہ مسلسل فکر سے حل نہیں ہوتا اس طرح بھی حل نہیں ہوتاجس طرح تم کررہی ہو۔ میں اسے زبردستی قائل نہیں کرسکتا۔ ہم اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔ سب اچھا ہوگا۔”

”دعا سے فرشتہ نہیں اُترے گا آسمان سے۔ ”

”آسمان کا نہ سہی، زمین کا فرشتہ اتر سکتاہے۔ ”

”جسے تمہاری بیٹی تو کوئی لفٹ نہیں دے گی۔ اسے آسمان جیسا فرشتہ چاہیے۔”

”نہیں فرح ،ایسا نہیں، ہم جتنا اصرار کریںگے وہ اتنا اس ایشو کو ٹالے گی۔ تم میری بات مانو کچھ وقت کے لیے چھوڑدو۔”

”ہم اسے یہ نہیں کہہ رہے شہاب کہ فوراً سے شادی کرلو۔وہ کسی کے ساتھ ٹائم گزارے، بات چیت کرے، گھلے ملے اور اپنا خود فیصلہ لے لے، مگر وہ تو دھڑادھڑ انکار کرتی جاتی ہے۔ کسی کے بارے میں کوئی سگنل دو تو وہ سو قدم پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ اسٹڈی، ڈیوٹی اور جاب۔ اس کے اوپر پریشر ہے۔ غلط لیا ہے، ضرورت سے زیادہ لے لیا۔”

”سب ہوجائے گا، سب ٹھیک ہوجائے گا۔”

وہ آنکھ دبا کر مسکرائے اور وہ سر جھٹک کر مسکرائیں۔ 

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!