”تمہیں یہ احساس کب ہوگا کہ ڈگریاں ہی سب کچھ نہیں ہوتیں۔ زندگی میں کچھ اور چیزیں بھی معنی رکھتی ہیں۔”

پردے ہٹاکر دھوپ کو اندر آنے کی اجازت دی کہ وہ کمرے کا رخ کرے اور جیسے ہی اجازت ملی،دھوپ اپنی پوری حرارت کے ساتھ کمرے کے کونے کونے میں پھیل گئی۔

”جیسا کہ؟” اس نے ایک آنکھ بند کر کے پوچھا اور لمبی جمائی کے ساتھ کروٹ لی۔ اُسے شرارت سوجھی۔

”زندگی میں رشتے بہت اہمیت رکھتے ہیں،زندگی رشتوں کے دھاگوں سے بنی ہے۔”

”پاپا کی اسٹڈی سے پھر کوئی موٹی سی کتاب پڑھ لی ہوگی۔”وہ بے پروائی سے کمبل ہٹاکر اٹھی اور بال باندھتے ہوئے وارڈ روب کا رُخ کیا ۔

”تم کب میری باتوں کو سیریس لینا شروع کروگی۔” لہجے میں تھکن تھی۔

” پلیز! صبح صبح یہ لیکچر مت دیا کریں۔”

”ان لیکچرز کا تم پر کوئی اثر تو ہوتا نہیں ہے۔ کیا فائدہ؟”

” ہر اک چیز کا وقت ہوتا ہے۔” وہ وارڈ روب سے اپنے لیے کپڑے سلیکٹ کرتے ہوئے بولی۔

”اور تم اسی وقت کو ضائع کررہی ہو۔”

”میں ضائع نہیں کررہی۔جب کوئی ایسی سچویشن بنے گی تو ہوجائے گا سب کچھ۔” بے زاری تھی لہجے میں۔

”تمہیں وقاص کیسا لگا۔”

”ٹھیک لگا، اچھا ہے وہ ، مگر بہت اچھا نہیں ہے۔”

”اور بہت اچھا کہاں سے آئے گا؟”

” آئے گا۔ جب آنا ہوگا۔”

”دیکھو شیبا ہر کمٹمنٹ اپنے وقت پر ہی سوٹ کرتی ہے،شادی کی ایک عمر ہوتی ہے۔”

”عمر، آپ یہاں بیٹھ کر ایسی باتیں کیوں کررہی ہیں۔ ”

”دیکھوکیرئیرتو بن گیا ہے نا تمہارا۔”

”ابھی بہت کچھ رہتا ہے ماما۔”

”کچھ بھی نہیں رہتا سوائے تمہاری شادی کے۔”

”ہوجائے گی وہ بھی،ڈونٹ وری۔”

وہ کپڑے اٹھا کر واش روم کی طرف جانے لگی۔

”میں آج وقاص کی فیملی کو فون کرتی ہوں۔”

”اس کی اب ضرورت نہیں ہے۔” اس نے دروازے سے جھانکتے ہوئے کہا۔

”اس کی ضرورت ہے۔” وہ زور دے کر بولیں۔ 

”تب ہوتی جب میں اسے منع نہ کرتی۔ میں خود فون کرکے ڈاکٹر وقاص کو منع کرچکی ہوں۔”

دروازہ کھٹاک سے بند ہوگیا۔ہکا بکا سی حالت میں انہوں نے سر تھام لیا۔

”یا اللہ! یہ لڑکی۔” بے بسی اپنی انتہا پر تھی ہاتھ کی مٹھیاں بھچی ہوئی تھیں۔ 

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!