”ابا اس لیے پریشان ہیں کہ ان کے کندھے کے اوپر فیصلے کی ذمہ داری ہے، وہ تمہارے لیے سوچ رہے ہیں، ان کو تمہاری خوشیوں کی فکر ہے۔تم ایک بار ہاں، نہ کرکے ان کے لیے آسانی کردو سندھیا۔وہ تمہاری مرضی کے خلاف نہیں جائیںگے۔”

”ابا کہیںگے سندھو بے حیا ہوگئی ہے۔بغاوت کرنے لگی ہے۔” وہ منمنائی۔

”بغاوت بے حیائی نہیں ہوتی سندھیا۔” پھر اُکسایا گیا۔

”بغاوت بہادری بھی نہیں ہوتی ادا سارنگ۔” آواز دھیمی تھی۔

”بغاوت صرف ایک آواز ہے سندھیا۔اسے ہم چاہیں تو بہادری بنادیں، چاہیں تو بزدلی۔ بغاوت صرف ایک آوازہے۔میں نے تمہیں اپنے لیے آواز اٹھانے کی تجویز دی ہے۔ تمہاری زندگی کے تم پر جو حقوق ہیں ان کو پانے کی۔ تمہیں میری باتیں ایک وقت کے بعد سمجھ آئیںگی اور ایسا نہ ہو سندھیا کہ جب سمجھ آئیں تب وقت تمہار ے ہاتھوں میں نہ رہے۔”

وہ اپنا چائے کا کپ خالی کرکے جاچکا تھا۔

سندھیا کو سب سمجھ آرہا تھا۔ بس وہ عملی میدان کے ڈر سے بھاگتی تھی۔ وہ خاندان کی پہلی باغی لڑکی نہیں کہلوانا چاہتی تھی۔اس کے نام سے لے کر اس کا ہر عمل باپ کے نام اور عمل سے جڑا تھا۔ مولابخش کی بیٹی، اس کے بعد کچھ بھی سوچنا اس کے لیے بڑا مشکل ہوجاتا تھا۔وہ اسی مشکل سے گزررہی تھی۔

سبھاگی کو جیسے بچھو ڈنگ مارگیا تھا۔ پہلے دن کے شور کے بعد چپ لگ گئی تھی، اندر ہی اندر پک رہی تھی۔

”مولابخش! آج سے پہلے سوچتی تھی کہ ہمارے نصیب برے ہیں مگر سندھو کا نصیب اچھا ہوگا۔”

اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی مولابخش نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔

”بس کردے سندھو کی ماں، کتنا منع کیا ہے نصیبوں کو برا نہ کہا کر۔ قبولیت کی گھڑی کبھی سر پر ہوتی ہے اور اس گھڑی منہ سے جو نکلتا ہے وہ لکھا جاتا ہے اور جو لکھا جاتا ہے وہ ہو بھی جاتا ہے۔ ہونی کو بھلاکون ٹال سکا ہے، اس لیے روکتا ہوں تجھے۔برا بول نہ بولا کر، اللہ اچھا ہے۔ اللہ سوہناں بہت اچھا ہے، اس سے اچھے کی امید رکھا کر۔”

”اللہ اچھا ہے،پر اس نے زندگی کو برا کیوں بنایا ہے۔”

”اللہ نے ہر چیز کو اچھا بنایا ہے بھاگوں والی۔ برا تو انسان ہے، انسان کی انا بری ہوتی ہے۔تو نفس کے کہنے میں مت آیا کر ہر بار۔ آنکھیں کھول کر بھی اسی رب پر یقین رکھا کر اور آنکھیں بند کرکے بھی اسی رب پر بھروسہ کر۔”

”اور جو برا ہورہا ہے مولابخش۔ اسے کیا سمجھوں؟”

”جو برا ہورہا ہے اسے بھی اچھا سمجھا کر سبھاگی۔”

”میرا دل رورہا ہے مولابخش۔ دوسری بار دھی کا رشتہ ہوتے ہوتے رہ گیا ہے،دوسری بار چوٹ لگی ہے۔  بڑی زوروں کی چوٹ ہے،مٹھائی بٹ گئی اور۔” لفظ آنسوئوں کا گولہ بن کر اٹک گئے۔ ”دل کرتا ہے دھاڑیں مار کر روئوں مولابخش۔” وہ بلبلائی۔

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!