ایک ہی دنیا میں رہتے ہوئے کروڑوں انسانوں کے رہن سہن، بول چال، لباس خوراک، اور سوچ میں کتنا واضح فرق ہوتاہے۔ یہ تب کھلتا ہے، جب دنیا کے ایک خطے سے دوسرے خطے میں سفر کیا جائے، جب دنیا کے ایک کونے سے اُٹھ کر دوسری جگہ پر آپہنچیں اور اسے واقعی لمحے بھر کو لگا تھا بلکہ وہ لمحہ تمام لمحوں پر محیط تھا، سارے لمحات اسی ایک ہی خیال پر ٹھہرے تھے کہ وہ واقعی کونے سے اُٹھ کر آیا ہے، اور اک عدالت میں کھڑا ہے۔

اسے اس ملک کے ہر فرد کی طرح اپنے حصے کی جنگ، جنگ سمجھ کر نہیں کھیل سمجھ کر کھیلنی ہے۔

سب سے زیادہ مشکل اپنا ٹاسک حاصل کرنااوروہ بھی بے فکری کے ساتھ، انجوائے کرتے ہوئے کھیلیں، بہت مشکل ہوتا ہے ایساکرنا۔اسے محسوس ہوا تھا یہاں ہر کوئی زندگی کے مختلف مراحل کو ایک کھیل سمجھ کر کھیلتا ہے اور خوب کھیلتا ہے،ہارے یا جیتے انجوائے کرتا ہے اس ملک کے لوگوں کے بے فکر اور ہشاش بشاش چہروں پر کھیلتی پُر اعتماد مسکراہٹ اور اعتماد کو دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا تھا۔رشک آنے لگتا تھا اُسے اس ملک پر اور یہاں کے رہائشیوں پر۔وہ سوچ رہا تھا وہ ایسے کیسے رہ پائے گا، جب چہرے پر فکر نہ ہو، تشویش نہ ہو۔ کم اعتمادی نہ ہو، اندر کا خوف نہ ہو۔

زندگی میں پہلی بار اس نے خود کو ان لوگوں کے درمیان اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے بات چیت کرتے، سروائیو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے خودکو کچھ کم اعتماد اور کنفیوزڈ سا محسوس کیا تھا۔ گائوں میں سب سے نمایاں حیثیت لے  کر، شہر میں ایک اچھا تعلیمی ریکارڈ اور امیدیں لے کر آنے کے باوجود بھی، وہ کہیں نہ کہیں یہاں آکر پریشان ضرور تھا۔سب سے بڑی بات اس کم اعتمادی کو اعتماد سے چھپانے کی بھرپور کوشش تھی، جس کے باوجود اسے لگا وہ پروفیسر شہاب سے کسی طو رچھپ نہیں سکتا۔ وہ بہ غور دیکھے بنا ہی جب مسکراتے تھے سامنے والا جل کر راکھ ہوجاتا تھا۔

ساتھ ہی ساری نفسیاتی کوششوں پر پانی پھرجاتا تھا۔

اگلے لمحے وہ اپنی پُر فتح مسکراہٹ کو دبالیتے تھے اور سامنے والا اگر سارنگ ہو تو مزید دب جاتا تھا حالاںکہ بعض اوقات وہ بہت اچھے دوست ہوتے ۔اس نے محسوس کیا، پہلے وہ مسکراتے ہوئے ہاتھ ملاتے،پھرپُرجوش سا خیر مقدم کرتے سامنے والے کو اپنا اسیر بناتے تھے۔ اس کے بعد اپنا نشانہ پھینکتے تھے اور ٹاسک دیتے تھے۔

میدان میں آنے والاہر نیا کھلاڑی جو ان کے چنگل میں آتا وہ کسی طور بچ نہ پاتا تھا۔وہ بچپن سے شیبا کو بھی ایسے ہی ٹاسک دیتے ہوئے آئے تھے۔وہ ہر ٹاسک میں جیت جاتی، یا پھر معمولی سمجھ کر کھیلتی ہی نہ تھی۔وہ ان کی بیٹی تھی ان سے ایک نہیں دو ہاتھ آگے تھی۔ اب اُن کے ہاتھ سا رنگ لگ گیا تھا۔ انہیں لگا ان کا ماضی ان کے سامنے کھڑا ہے۔ وہ اس کے لیے نشان کھینچ لیتے تھے کہ وہ پار کرے۔

وہ ان کے ساتھ جتنا خوش ہوتا تھا کبھی کبھار اس حد تک گھبرا بھی جاتا تھا۔فرح کا رویہ اب سارنگ کے ساتھ یک سر بدل چکا تھا۔ان دو ہفتوں میں دونوں کی پکی دوستی ہوگئی تھی۔

وہ اسے مختلف کھانے پکا پکا کر کھلارہی تھیں اور اسے گھر کا ذائقہ مل رہا تھا۔انہیں باتوں کے لیے ایک دوست مل گیا تھا۔ اس نے محسوس کیا تھا کہ فرح کو شیبا سے بہت شکایتیں ہیں کہ وہ انہیں اورگھر پر کم وقت دیتی ہے۔ وہ اپنی تنہائی کا بوجھل وقت سارنگ کے ساتھ شیئر کرلیا کرتی تھیں۔

ابھی اس کی کلاسز شروع نہیں ہوئیں تھیں۔ ابھی کام شروع ہونے میں ایک آدھ دن تھا۔ اس نے جیجی سے فون پر بات کی تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ گھر میں سب اسے کتنا یاد کررہے ہیں۔وہ خود افسردہ ہوگیا تھا۔ پہلے دو چار دن کی بے پروائی کی خانہ پُری کرنے کے لیے اب ہر روز فون کرنے لگا تھا۔

اس کا وقت پر لگا کر اُڑرہا تھااور بہت اچھا اُڑرہا تھا۔ دو ہفتے تو ہوا ہوگئے اور اب اس کی رہائش کا مسئلہ حل ہوگیا تھا۔اس کا سامان پیک تھا۔ وہ جانے لگا تھا۔

فرح کئی بار اسے دوبارہ چکر لگانے کی ہدایات کرچکی تھیں۔ پروفیسر اپنی مسکراہٹ دباکر کھڑے تھے۔

”تم نے اچھا نہیں کیا میری بیوی کو اپنا اسیر بناکر۔” وہ اُن کی بات پر ہنس دیا تھا۔

فرح کافی مایوس کھڑی تھیں۔” آتے جاتے رہنا۔ اب تم جارہے ہو تو مجھے شام کی کمپنی کون دے گا۔”

”میں آجایا کروںگا۔ آپ فکر نہ کریں۔ جب بھی وقت ملے گا آجائوںگا۔”

”اب تمہاری کلاسز بھی شروع ہورہی ہیں۔ اس لیے جھوٹے لارے نہ دے کر جائو۔” پروفیسر نے ٹوکا۔

”میں پوری کوشش کروںگا اگر روز نہیں تو کبھی کبھار ویک اینڈ پر ہی آجایا کروںگا۔ میں خود آپ کی کمپنی بہت مس کروںگا۔”

”’مجھے معلوم ہے۔ بس تم آتے جاتے رہنا۔”

”بہت خیال رکھنا اپنا۔” وہ چند دنوں میں کس قدر مانوس ہوگئیں تھیں۔

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!