وہ مسکرائے۔ ”ہاں، حیدرآباد۔”

وہ اس کا دھیان بدلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

”حیدرآباد کہاں ابا کسی اور جگہ؟” سندھو کے اندر کی بچی بیدار ہوگئی۔

ابا تو سدا سے ایک جیسا تھا۔

”بہت سارا گھومیںگے۔تجھے تب لے گیا تھا جب ساڑھے چار سال کی تھی تو نمونیے کا بخار ہوا تھا تجھے۔” ابا کا دل مٹھی میں آگیا۔

”گوٹھ کے حکیم کی دوائی اثر نہ کرتی تھی، حیدرآباد لے گیا بڑے ڈاکٹر سے علاج کروایا۔ پورے چار ہفتے اور ہربار سارنگ کے ساتھ تجھے عیدگاہ اور رانی باغ لے جاتا تھا۔ تجھے تو یاد نہیں ہوگا۔” 

کئی یادوں پر پانی پھر گیا تھا۔ ”اماں بگڑیںگی؟”

”نہیں بگڑیںگی۔ وہ اپنی دھن میں ہے ہم اپنی دھن میں۔”

سندھیا کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔

”چل جوڑا نکال کر رکھ۔”

”سوہائی کو بھی لے چلیں گے۔ مزا آئے گا ابا۔”

”ضرور آئے گا۔” وہ مسکرایا۔ سندھو کے چہرے کی مسکراہٹ قیمتی تھی۔ 

سبھاگی بگڑی، دھی کو بگاڑ رہا ہے۔ کہنے لگا۔” تو اپنے طرز سے خوشیوں کو تلاشتی ہے میں اپنے طرز سے۔ دیکھ سبھاگی بڑی خوشیاں جب دیر کردیں اور انتظار صدی جتنا لگنے لگے، تو بڑی خوشیوں کی منتیں کرنے کے بہ جائے چھوٹی چھوٹی خوشیوں سمیٹنا شروع کردے۔ تیرا دل نہیں مرے گا۔ تھوڑا تھوڑا جی اٹھے گا۔”

اسے کوئی نہیں فرق پڑا۔ اسے بس بڑی خوشیوںکی پروا تھی۔ اسے ضد آگئی تھی اور وہ شرط میں بدل گئی جب معلوم ہوا چلا کہ صادق کے ہاں بیٹا ہوا ہے۔بھرائی بہو کو مناکر لائی ہے، بڑے ٹھاٹھ سے چھٹی کی تقریب ہوئی ہے۔مٹھائی گھر بھجوائی تھی۔ جیجی نے لے کر رکھ لی، پر کسی نے نہ چکھی۔سب کے دل کو لگی تھی۔

سبھاگی مزار پر چادر چڑھانے گئی۔اس کی دعا شدت میں بدل گئی۔تکرار بڑھتی جارہی تھی۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!