”تمہاری ماں کو بھی یہی پریشانی ہے کہ ٹائم ضائع ہورہا ہے۔” اس کے پیچھے آواز دیتے ہوئے کہا۔ وہ سر جھٹک کر مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی اور وہ کاریڈور سے لائونج کی طرف آگئے جہاں بالکل ساتھ میں کچن اور ڈائننگ ہال تھا۔

”تمہارا دفاع کرکے آیا ہوں۔مانو یا نہ مانو۔”

”اچھی طرح معلوم ہے۔” وہ چولہے پر چائے کا پانی رکھتے ہوئے طنز سے بولیں۔ لہجے سے قدرے خفگی ظاہر تھی۔ 

”مجھے تم سے ایسی نیکی کی اُمید تھی۔” اشارہ چائے کی طرف تھا۔

”تھک گیا ہوں یار۔ کل صبح ایئرپورٹ سے ایک لڑکے کو لینا ہے۔ اور ہاں، میں بھول گیا تمہیں بتانا تھا کہ وہ کچھ دن یہیں رہے گا جب تک رہائش کا پرمٹ نہیں مل جاتا اُسے۔ویسے تو ریذیڈنسی پر آیا ہے مگر کچھ دن تو لگتے ہی ہیں۔”

”کون ہے؟”

”لڑکا ہے۔ پروفیسر عبدالحفیظ کا جاننے والاہے، خاصی سفارش کی ہے انہوں نے کہ خیال رکھیے گا۔”

”کیا ڈاکٹر ہے؟”

”ہاںڈاکٹر ہے۔”

”پاکستان سے آرہا ہے؟” چائے تیار تھی کپ میں ڈال کر ٹرے لے آئیں ان کے سامنے اور ساتھ بیٹھ گئیں، کرسی گھسیٹ کر۔ 

”ہاں پاکستان سے آرہا ہے۔”

”آپ پاکستان والوں کے لیے کچھ زیادہ ہمدردی نہیں رکھتے؟”

” بالکل رکھنی چاہیے۔ ملک ہے میرا۔”

”ہر کسی کا احساس ہے آپ کو، لیکن بس اپنی بیٹی کا نہیں ہے۔آپ نے اُسے ضرورت سے زیادہ حساس کر دیا ہے شہاب! وہ اپنے لیے بہت اونچی ڈیمانڈز رکھتی ہے۔ میں پریشان ہوں، اگر اسے اس کے معیار کا لڑکا نہ مل سکا تو مسئلہ ہوجائے گا۔”

”ملے گا، ضرور ملے گا۔اسے ذرا اور وقت دے دو۔اسے اپنا فیصلہ خود سے کرنے دو۔”

”بڑے مشکل فیصلے کرتی ہے تمہاری بیٹی۔”

” مگر نبھا بھی لیتی ہے میری بیٹی۔” لفظ میری پر زیادہ زور تھا۔

وہ سر جھٹک کر مسکراہٹ چھپانے کی کوشش میں ناکام ہو گئیں اور ساتھ ہی شہاب کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!