جانے والا ہمیشہ خوش ہوتا ہے اور چھوڑنے والے کا انتظار اسی لمحے سے شروع ہوجاتاہے۔

سارنگ کا سامان پیک تھا۔ شام کی فلائٹ تھی، گھر میں گہماگہمی تھی۔ چاچی اور جیجی ایک ٹانگ پر کھڑی تھیں۔ کہیں کچھ رہ نہ جائے۔ یہاں تک کہ دماغی طاقت کے لیے بنائی جانے والی سوغات مٹھائی کا ڈبہ بھی رکھ دیا۔سارنگ کا سامان دیکھ کر لگ رہا ہے جیسے کسی لڑکی کو بیاہ کر بھیجا جاتا ہے اور ساتھ میں پوری بری کا سامان جارہا ہوتا ہے یہ سامان کم ، جہیز زیادہ لگ رہا ہے۔

حسن بخش صبح سے ہر اک چیز میں خوش گوار پہلو ڈھونڈرہے تھے۔سارنگ ان کی بات پر ہنس دیا۔ اسے خود اتنا سامان لے جاتے ہوئے عجیب لگ رہا تھا۔ وہ سامان کے ہر تھیلے سے غیر ضروری چیزیں نکال رہا تھا انہیں چھانٹ رہا تھااور جیجی ایک ایک چیز کو نہایت ضروری سمجھتے ہوئے اس کے تھیلے میں دوبارہ ڈال رہی تھیں۔

تھیلوں کی بھرمار دیکھ کر ایسا لگتا تھاجیسے پلیٹ فارم پر ٹرین کے انتظار میں مسافر کھاکھاکر اور بیٹھ بیٹھ کر اکتاگئے ہوں اور اب سستی کے مارے خود اپنا بوجھ اٹھانے سے ہی قاصر ہوں۔تھیلوں کی جیبیں تک بھری ہوئیں تھیں جنہیں کھنگال کھنگال کر وہ تھک گیا تھااور اب تیسری بار اس نے جیجی ماں سے اس وقت عرض کیاجب وہ سرخ رنگ کی بوری اٹھالائیں جس میں اناج بھر کر رکھا جاتا تھا۔

”جیجی ماں اسے تو رہنے دیں۔”

”اس میں بڑا سامان آجاتا ہے سارنگ پٹ، ایک طرف تیرے یہ تین تھیلے اور ایک طرف یہ ۔ اس میں بھر کے لے جا کندھے پر اُٹھاکر بڑے آرام سے۔” جیجی بڑی سنجیدگی سے کہہ رہی تھیں اور سندھیا کی ہنسی چھوٹ گئی۔

بہت اچھا لگوںگا یہ اٹھاتے ہوئے، اسے تصور سے ہی ہنسی آگئی جیجی تھیلوں سے سامان نکال کر بھرنے ہی لگی تھیں کہ حسن بخش نے روک دیا۔

”جیجی ماں وہ ہمارا وقت ہوتا تھا کہ یہ بوریاں لاد کر جاتے تھے۔ آج کل کے چھوکرے کہاں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔”

”او چھوڑ حسن بخش۔ سارنگ اور چھوکروں کی طرح نہیں ہے۔”

”میں یہ لے جائوںگا جیجی ماں۔ اس میں بھلا کیا بڑی بات ہے۔” سارنگ نے تھیلوں کا سامان اس بورے میں بھرلیا تھا۔

 ”دیکھا میں نے نہ کہا تھا، حیدرآباد جائے چاہے کراچی، چاہے سات سمندر پار، سارنگ نہیں بدلے گا۔” جیجی نے فخریہ کہا۔ انسان بے چارہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے سہارے اپنی ثقافتوں کی حفاظت کرتا ہے حالاںکہ وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں اور عادتیں بدلتی بھی ہیں کچھ اچھی اور کچھ بری، کچھ صحیح تو کچھ غلط۔ جہاں جہاں بس چلتا ہے، انسان وہاں اپنی چلالیتا ہے۔

سارنگ نے دیکھا ایک بوری میں سامان ڈالنے سے ان کے چہرے پر کتنے اطمینان بھرے تاثرات ابھر آتے تھے۔

جاتے ہوئے کسی بھی طرح گھر والوں کو یہی احساس دلانا چاہ رہا تھا کہ وہ کچھ نہیں بھولااور نہ بھول سکتا ہے۔ ان کے واہموں اور وسوسوں کو ختم کرکے ہی جانا چاہتا تھا سب کے دل میں تسلی بِٹھا کرجانا چاہتا تھا۔ اپنے ساتھ کوئی فکر کوئی وہم یا وسوسہ لے کر نہیں جانا چاہتا تھا، بس ہلکا پھلکا ہوکر جانا چاہتا تھا۔

دو دن سے ابا اور چاچا کے ساتھ اس نے بہت وقت گزارا تھا۔ اسے معلوم تھا وہ اسے بہت مس کریںگے، ابا مایوس تھے مگر چاچا پراُمید تھے دل ان کا بھی مٹھی میں تھا۔خود اس کا دل کون سا اطمینان میں تھا۔

لاکھ پڑھا لکھا ، لاکھ سمجھدار سہی، مگر ایک نئی جگہ، ایک نیا چیلنج، ایک نیا کام، ذمہ داری۔اپنے خوابوں کی ذمہ داری، کچھ اور لے جارہا ہو یا نہیں مگر خوابوں کی ذمہ داری بہت بڑی تھی۔ خود کو منوانا دنیا کا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔ ہر شعبے ہر مرحلے میں، مگر یہ ذمہ داری اس نے خود اٹھائی تھی، اس لیے وہ مطمئن بھی تھا کسی حد تک اور خوش بھی۔

ابھی تک اپنے بارے میں اس کے خیالات نہیں بدلے، سوچ نہیں بدلی۔ وہ اپنے لیے سوچنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!