عورت بہت حساس ہوتی ہے، ہر جگہ کی عورت اس کے اندر خیال رکھنے کی صلاحیت فطری طور پر زیادہ ہوتی ہے اسی لیے تو عورت ماں ہے۔ 

”آپ بھی اپنا بہت خیال رکھیے گا۔ میں چکر لگائوںگا۔” اس نے کوئی تیسری بار یہ بات کہی تھی۔ جب کسی بھی بات کی تکرار ہوجائے تو انسان دوسرے فرد سے زیادہ خود کو اس بات کا یقین دلانا چاہتا ہے۔ وہ انہیں خدا حافظ کہہ کر نکل آیا تھا۔

پروفیسر خود اسے چھوڑنے جارہے تھے۔

”تم اچھے لڑکے ہو سارنگ۔ تم بہت جلد ایڈجسٹ کرگئے ہو۔”

”آپ کو ایسا لگتا ہے؟” وہ بے یقینی سے پوچھنے لگا۔ 

”ہاں مجھے لگتا ہے۔ کچھ چیزیں تو ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتیں نا۔” وہ پروفیسر کھلاڑی سے پروفیسر دوست بن گئے تھے۔اسے ان کے دونوں روپ اچھے لگتے تھے۔ ”آپ سے جیتنا بہت مشکل ہے۔ اس طرح جیسے میرے چاچا سائیں سے باتوں میں جیتنا مشکل ہے۔”

”تم فطرت میں اپنے چچا پرگئے ہو؟”

”اگر ایسا ہوتا تو اس وقت میں آپ کی سیٹ پر بیٹھا ہوتا اور آپ اس طرف ہوتے۔” وہ اس کی بات پر مسکرادیے۔” مگر تم بہت سادہ ہو۔ سندھی ایسے ہی ہوتے ہیں سارنگ۔”

”آپ سندھیوں کو کتنا جانتے ہیں؟”

” سندھ میری ماں کا وطن ہے۔ اماں میری سندھی تھیں۔ ایسی ہی بہت سادہ، معصوم، بھولی سی، نیک دل، جان چھڑکنے والی۔ مہمان نوازی کی عادتیں انہوں نے مجھے ڈالی تھیں۔بڑی کوششیں کرلیںانہوں نے مجھے اپنا جیسا بنانے کی، مگر افسوس کہ باپ کا خون جیت گیا، اثر تو آنا تھا۔”

”مگر آپ کے اندر کہیں پر ایک سندھی کا خون ضرور جوش مارتا ہوگا۔”

وہ ڈرائیو کرتے ہوئے اس کی بات پر مسکرائے۔

”میں نے عرصہ ہوا، ان سے لڑنا چھوڑدیا ہے۔ مجھے غیر مانوس سا لگتا ہے اب سب کچھ۔بس ایک چیز ہے، میری ماں۔ اس کی قبر کی مٹی کو میں نے آخری بار اپنے ہاتھ میں لے کر دیکھا تھا، محسوس کیا تھا، جس دن اُن کو قبر میں اتارا تھا۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ مجھے سندھ میں دفنانا۔مجھے سندھ کی مٹی سے پیدا کیا ہے، میری مٹی وہاں سے اُٹھی ہے، میں اسی مٹی کی امانت ہوں۔ ہم پنجاب سے سندھ لے گئے تھے انہیں اور ان کا آخری وقت سندھ کے ایک گوٹھ میں شاہ بھٹائی کے بہت سے شعر پڑھتے ہوئے گزرا تھا۔”

سارنگ کو جیجی یاد آگئیں۔ آنکھوں میں پانی امڈ آیا۔ ”اس کے بعد آپ یہاں آگئے؟”

”ہاں، اس کے بعد ابا نے مجھے باہر بھجوادیا، میری خواہش پر۔ جب تک اماں تھیں میرا نکلنا بہت مشکل تھا۔ ایک سے دوسرے شہر جاتے ہوئے بھی گھبراتا تھا۔ جب تک لوٹ کر خیریت سے نہ پہنچ جاتا وہ تسبیح گھماتی رہتی تھیں۔ دیر ہوجاتی تو جائے نماز پر بیٹھ جاتیں اُٹھنے کا نام نہ لیتی تھیں۔”

پروفیسر ماضی کی کھڑکی میں جھانکتے ہوئے ایک رو میں بولتے جا رہے تھے۔”ابا ان کی عادتوں سے بہت بے زار تھے۔اردو کے استاد تھے، پکے اردو دان۔ کبھی جو گھر میں کسی نے اردو کے علاوہ کسی اور زبان میں بات کی تو شامت آجاتی تھی۔ سوائے اماں کے کوئی اور سندھی نہ بولتا تھا۔”

سارنگ نے محسوس کیا تھا پروفیسر شہاب کے گھر میں بھی اردو بولی جاتی تھی، خالص اردو۔باہر وہ لوگ خالص انگریزی بولتے تھے اور گھر میں اردو۔

آج کی گفت گو کے بعد سارنگ نے پروفیسر شہاب کو پہلی بار دریافت کیا۔ پہلی بار اسے لگا، دنیا میں سارنگ ایک نہیں ہے، اسے لگا وہ ماضی کے سارنگ سے مل رہا ہو۔ ماں، دھرتی، زمین اور محبت یہ ایک ایسا احساس تھا جو انسان کا آسمان بن جاتا تھااور جب یہ احساس آسمان بننے لگتا تھا تو میلوں دور ہونے کے باوجود، صدیوں کا فاصلہ رکھنے کے باوجود، کبھی نہ ملنے کے باجود، زمین سے بہت قریب لے آتا تھا۔ یہاں تک کہ زمین پر اپنا ذاتی گھر بنانے لگتا تھا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!