”آج چوٹ لگی ہے۔ آج جھک جا سجدے میں۔لوگ خوشیوں میں شکرانے پڑھتے ہیں،تُو رب سے ضد باندھنی چھوڑدے اور اس کا شکر مان۔” سبھاگی کی آنکھیں لگتا تھا آج ہی سمندر برسائیں گی۔

مولابخش کا لہجہ سمندر ہوتا تھا اور بات سات سمندروں جتنی گہری ہوتی تھی۔ لوگ عقل کی زبان بولتے تھے۔ وہ دل کی زبان کا حامی تھا۔ بولتا بھی وہی تھا، جو دل کہتا تھا اور کرتا بھی وہی تھا، جس پر دل خوش ہوتا تھا۔

سندھو نے کھڑکی کے اس پار سے یہ سارا منظر دیکھا تھا اور پھر بستر پر آکر پڑگئی۔

”تو کیوں روتی ہے سندھو؟ کیا تجھے صادق سے محبت ہوگئی تھی۔” سوہائی اپنی عقل کے مطابق سوچتی تھی۔

”محبت کے لیے روتی ہوں سوہائی۔” لہجہ گلوگیر تھا۔” مگر صادق کی محبت کے لیے ہر گز نہیں۔ اماں آج بہت روئی ہے۔ ابا بھی روئے ہیں۔ سندھو نے اماں ابا کو رلادیا ہے۔ اسی بات کا رونا ہے سوہائی۔”

”تونے تو نہیں رُلایانہ سندھو۔ نصیب میں یہ سب لکھا تھا۔ ”

”نصیب بدل کیوں نہیں سکتا سوہائی؟” 

”نصیب نہیں بدل سکتا سندھو۔”

”دھی کا نصیب ماں پیو کو رُلاتا ہی رہتا ہے ہر وقت۔ وہاں کیوں دھی پیدا کی جاتی ہے جہاں اتنے سارے اصول ہوتے ہیں سوہائی۔”

”اتنے مشکل سوالوں کے جواب مجھے کہاں آتے ہیں۔” 

”تو ٹھیک کہتی ہے سوہائی،تجھے مشکل سوالوں کے جواب نہیں آتے اور اسی لیے میرے سوال ہمیشہ ادھورے ہی رہ جاتے ہیں۔”

”پر تو دل نہ کڑاکر سندھو۔ دیکھ ہم لاکھوں سے بھلے ہیں۔ گوٹھ میں بیچاری عورتیں سارا سارا دن دیواروں پر اُپلے تھا پتی ہیں، رات کو چولہا پھونکتے پھونکتے ہی آدھا دم چڑھ جاتا ہے، دمے کی مریض بن جاتی ہیں۔”سندھیا نے اکتاہٹ سے اسے دیکھا اور وہاں سے اُٹھ گئی۔

دھیان بٹ چکا تھا پوری طرح مگر دل افسردہ تھا۔ سوہائی کبھی کبھار ہی عقل کی بات کرتی تھی اور کوئی سراہے نہ سر اہے،بات کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلاتے اپنی تائید کروانا اس پر لازم تھا۔

”اب دیکھ ہم تو خالی جھاڑو پوچا کرکے اور ایک ہنڈیا چڑھاکے بیٹھی ہوتی ہیں۔”

سندھیا کھڑکی کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔وہ خود سے ہی بول بول کر تھک گئی تو چادر تان کر سوتی بنی۔سندھیا کے پاس آج کہنے کو کچھ نہ تھامگر سوچنے کو بہت کچھ تھا۔ اس کے باوجود بھی ذہن خالی کھوکھا محسوس ہورہا تھا۔

وہ اپنے ہاتھ کی لکیروں کو مدھم پڑتی روشنی میں انگلی کے پور سے کھینچ رہی تھی خاص طور پر وہ جو ہاتھ کی سب سے بڑی اور گہری لکیر ہوتی ہے۔ اسے یاد آیا جوگن نے ایک بار ہاتھ دیکھ کر اُس سے کہا تھا۔

”یہ لکیر بیچ سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب تو سمجھتی ہے نا۔” اس کا دل جیسے مٹھی میں آگیا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!