یہ آسٹن میں اس کا پہلا دن تھا، گوروں کا شہر، ذہین لوگوں کا شہر، مطمئن اور من موجی لوگوں کا شہر۔ ہر کسی نے اپنے چہرے پر ایک طمانیت چپکائی ہوئی تھی اور وہ تھکن سے چور ایک بوری ایک تھیلا اٹھائے قدرے بے بسی محسوس کررہا تھا۔ اسی وقت پروفیسر شہاب اسے لینے آ پہنچے تھے۔

عمرشکل سے عیاں تھی، مگر جسامت میں وہ فٹ اور چست نظر آتے تھے۔مطمئن مسکراہٹ کے ساتھ وہ اسے لیے ہوئے گاڑی میں آ بیٹھے۔ سارنگ نے ایک دوبار چور نظروں سے اپنے بورے کو دیکھا تھا، اسے لگا تھا اسے شرمندہ ہونا پڑے گا۔ پروفیسر شہاب کے چہرے پر ایک دھیمی سی مسکراہٹ تھی۔ وہ سارے راستے اس سے باتیں کرتے رہے تھے۔ نیویارک کی باتیں، جگہوں اور دفتروں کی باتیں، تعلیمی اداروں کی باتیں، اسے لگا جیسے ان کو کئی عرصے بعد کوئی اپنی بات سننے والا م لا ہے۔ وہ بڑے جی سے بول رہے تھے۔

سارنگ کو ان کا دوستانہ انداز بہت اچھا لگا۔ پروفیسر کی بیگم صاحبہ بھی قدرے خوش مزاج خاتون تھیں۔ ان کے پاس گفتگو کے لیے زیادہ وقت ہوتا تھامگر باتوں کے درمیان اچانک ان کے لہجے میں ایک روکھا اور اجنبی پن آجاتا تھا۔ بولتے بولتے احتیاط برتنے لگتیں۔ ایک عجیب سی اجنبیت اور بے اعتباری کی سی کیفیت جھلکنے لگتی تھی۔ بعض اوقات وہ ضرورت سے زیادہ فارمل ہوجاتی تھیں، اسے شرمندگی سی ہونے لگتی تھی اندر ہی اندر۔ وہ گھبراہٹ کا شکار ہونے لگتا تھا مگر کسی اگلے لمحے پروفیسر کی غیر موجودگی میں وہ اسے کمپنی دینے کے لیے باتیں کرتیں تو ان کے بارے میں اپنے قائم خیالات بدلنے پڑجاتے تھے۔

بہرحال اسے یہ فیملی بہت اچھی لگی تھی۔ ایک بڑے ملک میں رہتے ہوئے نہایت مصروف زندگی گزارنے کے باوجودانہوں نے ایک اجنبی پر بھروسا کرکے اسے کچھ دن کے لیے اپنے گھر رکھا ہوا تھا، یہ کچھ کم نہ تھا۔

وہ ابھی تک شیبا کے لیے کوئی رائے قائم نہ کرسکا تھا۔ شیباجس کا ذکر اس گھر کے افراد کی زبان پر ہر دوسری بات کے درمیان موجود ہوتا اور پھر چڑھتا تو اترنے کا نام نہ لیتا تھا۔اس نے پہلے دن ہی محسوس کرلیا تھا کہ وہ لڑکی اس گھر کی شیبا ہے، ویسے ہی جیسے سارنگ اپنے گھر کا سارنگ تھا۔

لاڈلا، اہم، انوکھا، ہر اک چیز میں نمایاں حیثیت رکھ کر جینے والا، اپنے گھر کا آئیڈیل وہ اپنی طرح جینے والی شیبا حسین کو روبرو دیکھنا چاہتا تھا، اسے لاشعوری طور پر انتظار تھا۔

وہ کسی کانفرنس سے دو دن پہلے لوٹی تھی اور بڑے معمولی سے انداز میں اس سے ہائے ہیلو کرتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب چلی گئی تھیں۔چند لمحے رُک کر اس نے اپنے گھر میں پچھلے پورے ہفتے سے رہنے والے اجنبی کا جائزہ لینا ضروری نہ سمجھا۔ بات چیت کرنا تک ضروری نہ سمجھا تھا۔ہائے کہتی ہوئی وہ کمرے کی جانب چلی گئی تھی۔ فرح نے بے ساختہ وضاحت دی تھی، تھکی ہوئی ہے، وہ رسمی سا مسکرا کر رہ گیا۔ وہ اس کی توقع کے برعکس نہ تھی۔

وہ ویسی ہی تھی جیسی ہر بڑے ملک میں رہنے والی پڑھی لکھی، ایک آزاد اور خود مختار زندگی جینے والی اور ایک نمایاں حیثیت سے گھر میں یاد رکھی جانے والی، نخریلی، مغرور، اور خشک مزاج اکھڑی لڑکی سب حق رکھتی ہے۔

یہ شیبا کے بارے میں اس کی پہلی رائے تھی جو یقینا آگے جاکر یکسر بدل جانی تھی۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!