”اللہ سوہنے سے شکوہ کروں، جو خود اچھا ہے۔ اگر وہ اچھا ہے تو اسے کہہ مولابخش میری سندھو کے نصیب اچھے کردے۔”وہ مولا بخش کا ہاتھ تھام کر رو دی۔

” اوتجھے اس کے اچھے ہونے پر شک ہے سبھاگی؟اگر تجھے مولاسائیں کے اچھے ہونے پر شک ہے تو تجھے ہر چیز پر شک ہوگا۔”

”مجھے میرے نصیب پر شک تھا۔ اب میری دھی کے نصیب پر شک ہے۔ مرگئی ہے اندر سے تیری سبھاگی۔” اس نے مولا بخش سینے پر سر ٹکادیا۔

”سندھو کی ماں!تجھے سندھو کس نے دی ہے؟اللہ سوہنے نے دی ہے نا۔” اس کا سر اپنے سینے پر رکھے وہ تھپک رہا تھا۔کتنا پیار آرہا تھا اس پراور کتنا رونا اس کی بے بسی پر۔تجھے جس نے سندھو دی ہے نا،وہی تجھے سندھو کے نصیب بھی لکھ دے گا۔ جلد بازی نہ کر، اس رب نے سندھو کے لیے اچھا لکھا ہوگا۔”

”دیکھ میری بات سن۔ کوئی بھی چوٹ حد سے زیادہ نہیں لگتی ہے سندھو کی ماں۔ پہلی بار رشتہ کمزور تھا۔ پہلی ملاقات میں ریت کی دیوار کی طرح ڈھے گیا۔ صادق اس کے کچھ قابل تھا، پر دیکھ سندھو کی ماں کسی اور کی دھی کے نصیب کا سکہ میں اپنی سندھو کی جھولی میں کیسے ڈال دیتا۔” سر سینے سے الگ کیا، ہاتھوں میں سر لے کر، پیشانی سے بال ہٹائے تھے۔

”دیکھ وہ کسی کی دھی کو بیاہ  کر لایا تھا۔ میں کیسے کہتا ہے کہ پرائی دھی کو چھوڑ، میری دھی کو اپنالے۔ارے چری جو پرائی دھی کا بھلا نہیں کرتا، نصیب اس کی دھیوں کے ساتھ بھلا نہیں کرتا۔ دیکھ ہم نے اچھا کیا، سندھو کو بچالیا اس کڑی آزمائش سے۔اب دیکھ تیسری بار نہ ایسا ہوگا۔لکھ لے اگر تیسری بار بھی ایسا ہوا نا تو چوتھی بار نصیب خود چل کر ہمارے دروازے پر آئے گا۔اللہ سوہناں بندے کو جتنا آزماتا ہے، اس کے بعد نوازتا بھی خوب ہے۔تو سکھ میں تو شکر کرتی ہوگی۔سندھو کی ماں جب رونا آئے، تازہ تازہ چوٹ لگی ہو۔سب جگہ اندھیرا دکھتا ہو۔ کچھ بھی سمجھائی نہ دے، تب اس گھڑی میں جب تیرے شکوے کا حق بھی بنتا ہو رب سوہنے پر۔ بس اس ایک لمحے کے لیے ہار مان جا۔ شکایت چھوڑدے، رب سے مقابلہ نہ کراور اسے کہہ اللہ تیرا شکر ہے۔” سبھاگی رودی۔

مولابخش پہلے ہی یہ سب کہتے ہوئے رو پڑا تھا۔

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!