”میں چاہتا ہوں تم سارنگ کے ساتھ اپنا ریسرچ پیپر شیئر کرو۔”

” کس لیے پاپا؟” وہ اپنے پیپرز پر اک نگاہ ڈالتے ہوئے چونکی ۔

”کچھ چیزیں بغیر کسی مطلب کے ہوتی ہیں، انسانیت کے بل بوتے پر۔ پیپر شیئر کرنے میں کیا جاتا ہے۔”

”وہ میرا دوست نہیں ہے۔” اس نے سر جھٹکا تھا۔ 

”بن سکتا ہے۔” ان کے لہجے میں کچھ مختلف طرح کا اعتماد تھا۔

”مجھے ضرورت نہیں ہے۔” وہ بلبلائی۔

”اسے ہے۔” لہجہ پرزور تھا۔

وہ ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگی۔

”وہ اتنی دور سے آیا ہے ایک گائوں سے اٹھ کر یہاں تک۔ یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے ۔”

تو اس میں ہمارا کیا ہے۔ وہ اپنے فیوچر کے لیے آیا ہے، کوئی بھی اپنے لیے محنت کرتا ہے۔”

”بڑی بات نہیں ہے مگر اس کی تعریف تو کرنا چاہیے نا۔”

”تو آپ کررہے ہیں نا۔ ماما کررہی ہیں، کافی ہے۔”

”مگر تم کروگی تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اسے مدد ملے گی۔”

”پاپا وہ گھبرایا ہوا لڑکا، جو اپنا ایک شاندار تعلیمی ریکارڈ لے کر آیا ہے، بچہ نہیں ہے۔ ریزیڈنسی پر آیا ہے، اسے معلوم ہوگا ہر چیز کا، اور اگر نہ بھی ہو تو ہوجائے گا۔” وہ بے پروائی سے بولی۔

”اگر تم تھوڑا ساتھ دے دو تو کیا حرج ہے؟”

”مگر کیوں؟”

”میں اس سے کہہ چکا ہوں۔” وہ تھوڑے جذباتی ہوئے۔”ضرورت سے زیادہ شو کراچکا ہوں تمہاری قابلیت اورفرماں برداری کو۔”

”قابلیت اور فرماں برداری دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مجھے شوق نہیں ہے فرماں بردار کہلوانے کا۔”

اسے برا لگا تھا۔وہ چپ ہوگئے تھے۔

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!