چھپر ہوٹل کی شام سجی تھی۔

لوگ باتوں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ بات ہو رہی تھی زمین سے لے کر کھیتوں کی، آبادی کے نقصان اور فائدے کی، بیج کی تبدیلیوں کی، اسپرے کے نقصانات اور فائدے کی، ٹریکٹر کی مرمت کی اور نئے ٹریکٹر لینے کی خواہش کی، مگر تب بات بدل گئی جب حسن بخش کو ادھر آئے ہوئے دیکھا گیا۔

”اور دے خبر حسن بھا، کیاحال ہے؟”

”ادا خوش باش۔ اللہ سائیں کا شکر ہے۔”

وہ چائے کے لیے بیٹھ گیا۔

”دے خبر ادا، بھائو سارنگ کی؟” چارپائی پر سامنے کی طرف بیٹھے ہوئے برادری والوں کی تمام تر توجہ ادھر ہوگئی جب گامے نے سوال کیا۔

”سارنگ چنگا بھلا ہے بھائو۔”

”ایک آسرا تھا ۔یہاں تو دواخانہ بھی لگا تھا مگر ایک دن دوا خانے کا نصیب کھلا چوتھے دن بھائو تھیلے سر پر رکھ کر آگے ہولیا۔” ایک بولا۔

”یہ ہے بھروسا باہر پڑھنے لکھنے والوں کا۔” دوسرے نے ساتھ دیا۔

”سارنگ پڑھنے کے لیے گیا ہے، پڑھ کر لوٹ آئے گا اور انشاء اللہ دواخانہ آباد کرے گا اپنا۔”

”او چھڈ حسن بھائو، چھڈ۔ بڑے رنگ ہیں بڑے ملکوں کے، بڑی رنگینیاں ہیں۔ کھوجائے گا وہ بھی ان رنگوں میں۔”

”وہ رنگوں کے لیے نہیں گیا ادا۔”

”او حسن بھائو! تو کتنا بھولا ہے نا۔ باتوں میں آجاتاہے۔ پہلے کہتا ہے یونیورسٹی پاس کرے گا تو گھر لوٹے گا،ڈسپنسری ہی سنبھالے گا۔وہ ادھر آیا، اُدھر گیا، تجھے اک نئی پٹی پڑھاکے اب تو سمجھتا ہے کہ لوٹے گا۔پر سمجھو چھوکرا ہاتھ سے گیا۔”

اس کا دل بیٹھ گیا۔ ایسا نہیں ہے۔چائے کی پیالی چھوڑ کر وہاں سے اٹھ گیا۔

”او حسن بھا، چائے تو پی لے۔”

وہ بغیر کچھ بولے ہوٹل سے نکل گیا۔دل کے خدشے جب لوگ منہ پر مارنے لگیں تو دل تو ہول ہی جاتا ہے۔ اب کہ فون کرے تو بول دوںگا۔ بس جلدی یہ شوشہ ختم کراور آنے کی کر۔ جاکر مولابخش کے سامنے بیٹھ گیا۔

”او تو لوگوں کی باتوں میں آگیا ہے۔ اتنا بے اعتبارا ہوگیا ہے تو۔ حسن بھائو مرد بن مرد، دل باندھ دل۔”کندھا تھپتھپایا۔

”چل کھیتوں کو دیکھ آئیں۔ کل صبح سندھو اور سوہائی کو حیدرآباد لے چلیںگے۔انہیں بہلائیںگے تو ہمارا بھی دل بہل جائے گا۔ زیادہ نہ سوچا کر تو،سارنگ ہمارا ہے۔ چاہے جہاں رہے۔”

”گائوں والے کہتے ہیں، وہ رنگینیوں میں کھوجائے گا۔”

”آنکھوں دیکھے رنگ بڑی جلدی اُترجاتے ہیں بھائو اور اگر چڑھیں بھی تو کیا۔ جوان ہے، دنیا دیکھے گا دیکھنے دے۔ جو ہم نے نہ دیکھا وہ دیکھ لے۔”

”مگر ادا…” دل اب بھی خدشوں کے اندر تھا۔

” او بھائو حسن، میرے یار۔ خون کا جو رنگ ہے نا، سب سے گاڑھا ہے، سب سے پکا۔ اتر کر نہیں دے گا۔ تو اس رنگ کا بھروسا رکھ۔ لاکھ رنگینیوں پر بھاری ہوتا ہے۔ جب جب جوش مارتا ہے تو آئو دیکھتا ہے نہ تائو۔ پلٹتا ہے۔ صدیوں کے فاصلے کو سال، سالوں کو مہینوںمیں بدل کر رکھ دیتا ہے اور دنوں سے لے کر بات لمحوں تک پہنچ جاتی ہے لمحہ منٹوں سے پہلے گزرتا ہے۔”

”’ایسے۔” چٹکی بجائی تو حسن ہنس دیا اور سر جھٹکا۔’ تو بھی مولابخش کیسے کیسے بہلاتا ہے۔’

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات – قسط ۲

Read Next

احمد فراز ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!