تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

”محترمہ آپ تو تھیں ”چیف گیسٹ” آپ سے ان کو لینی تھی پے منٹ، آپ کی تصویریں خراب کرکے اس نے خواہ مخواہ کی مصیبت مول لینی تھی اور امبر بی بی کی آج تک کبھی تصویر خراب نہیں آئی مگر اس کو ہم پر توجہ دینی چاہیے تھی مہمانوں پر۔” سمیعہ نے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے، میں اگلی بار آذر سے کہوں گی وہ کسی اور فوٹو گرافر کا بندوبست کردے اور اس سے یہ بھی کہوں گی کہ میری تصویریں اچھی آئیں یا نہ آئیں، میری فرینڈز کی تصویریں ضرور اچھی آنی چاہئیں۔ بس اب ناراضگی ختم۔” ماریہ نے چپس کا ایک نیا پیکٹ کھولتے ہوئے کہا۔
”مووی کب ملے گی۔” سمیعہ کو اچانک یاد آیا۔
”پتا نہیں۔ آذر کو میں نے کہا تو تھا کہ پتا کرے شاید اگلے ہفتے۔” ماریہ نے بتایا۔
”اس کی کچھ ایکسٹرا کاپیز لینی تھیں۔ ایک تو مجھے چاہیے۔” نمرہ نے کہا۔
”ہاں، میں نے آذر سے کہا تھا کہ وہ دس بارہ کاپیز بنوالے۔ تمہیں دے دوں گی ایک۔” ماریہ نے کہا۔
”تمہیں بھی چاہیے امبر؟” ماریہ نے امبر سے پوچھا۔
”نہیں، میں کیا کروں گی… تمہاری شادی کی ہوتیں تو پھر بھی اور بات تھی رہنے دو” امبر نے پیپسی کا سپ لیتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔
”تمہیں پتا ہے امبر! تمہارے لیے کتنے پرپوزل آئے ہیں میری ماما کے پاس؟” ماریہ نے اچانک شرارتی انداز میں کہا۔
”کچھ تو میرے سسرال کی طرف سے آئے ہیں۔ تمہیں فنکشن میں دیکھا۔ پھر یہ تصویریں گئیں ان کی طرف، تو ہر کوئی تمہارے بارے میں ہی پوچھتا رہا۔” امبر مسکراتے ہوئے پیپسی پیتی رہی۔
”میری ماما تو یہ کہہ کر تھک گئیں کہ تمہارا نکاح ہو چکا ہے۔ سب کا خیال تھا شاید ایسے ہی کہہ رہی ہیں۔ کامران کے ایک دوست کے گھر والوں کا تو یہ بھی اصرار تھا کہ کوئی بات نہیں آپ پھر بھی اس کے گھر والوں سے ملوا دیں ۔ میری ماما نے تو تنگ آکر کہہ دیا کہ اگر اس کا نکاح نہ ہوا ہوتا تو وہ کسی دوسرے کو اس کے گھر بھیجنے کے بجائے خود آذر کے ساتھ اس کی شادی نہ کردیتیں۔”
امبر نے اس کے گھٹنے پر مکا مارا ”تم بہت بدتمیز ہو ماریہ۔”




”یہ میں نے نہیں کہا، ماما نے کہا تھا۔” ماریہ نے اپنا گھٹنا سہلاتے ہوئے کہا۔
”طلحہ واقعی بڑا لکی بندہ ہے۔” سمیعہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ”اگر میں لڑکا ہوتا تو میں بھی تم سے ہی شادی کرتی چاہے مجھے اس کے لیے آگ کے دریا سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑتا۔”
سمیعہ نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا۔ ”بڑی متاثر کن گفتگو ہو رہی ہے مگر سمیعہ! آپ تو گرمیوں میں ائیر کنڈیشنڈ کمرے سے باہر آنے پر تیار نہیں ہوتیں، یہ آگ کا دریا کیسے پار کریں گی۔”
امبر نے اس کا مذاق اڑاتے ہوتے کہا۔
”یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے میرا مسئلہ ہے… جب میں نے کہا کہ میں تمہارے لیے آگ کا دریا بھی پار کر لیتی تو میں کر لیتی، فضول میں شک کر رہی ہو۔”
سمیعہ نے مصنوعی ناراضی سے کہا۔
”نہیں خیر فضول میں تو تمہارے ارادوں پر شک نہیں کر رہی ہے، تم ہر ایک سے یہی کہتی ہو۔ اس دن تم ثوبیہ سے بھی یہی کہہ رہی تھیں۔” ماریہ نے ان کی گفتگو میںمداخلت کرتے ہوئے کہا۔
”کیا کہہ رہی تھی؟” سمیعہ نے کچھ انجان بنتے ہوئے کہا۔
”یہی کہ تم اگر لڑکا ہوتیں تو اس سے شادی کرتیں، چاہے تمہیں آگ کا دریا کیوں نہ پار کرنا پڑتا۔” ماریہ نے اسے یاد دلانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”وہ تو میں مذاق کر رہی تھی۔” سمیعہ نے کچھ مدافعانہ انداز میں جواب دیا۔
”اس کا کیا ثبوت ہے کہ اب بھی آپ مذاق نہیں کر رہیں؟” ماریہ نے دو بدو جواب دیتے ہوئے کہا۔
”تم خود موازنہ کر لو دونوں کا، کیا امبر کے مقابلے میں کسی اور سے شادی یا محبت کا سوچا جاسکتا ہے؟” سمیعہ نے اپنے پوائنٹ کو بڑے منطقی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔
”نہیں۔ امبرکے مقابلے میں تو کسی دوسرے سے محبت یا شادی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔” ماریہ نے اس بار جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
”تو پھر سمجھ لو کہ میں امبر کے علاوہ ہر ایک سے جھوٹ بولتی ہوں۔” سمیعہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”مجھے حیرت صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ آخر تم کو ہر خوبصورت لڑکی دیکھ کر خواہش کیوں پیدا ہونے لگتی ہے کہ اگر تم لڑکا ہوتی تو تم اسی سے شادی کرتیں؟” نمرہ نے پہلی بار اعتراض کیا۔
”خوبصورتی میری کمزوری ہے تم جانتی ہو بلکہ میری اور امبر کی مشترکہ کمزوری ہے۔” سمیعہ نے کہا۔ ”اگر ہمیں کوئی خوب صورت چیز نظر آئے گی تو ہم اس کی تعریف تو ضرور کریں گے اور شاید آؤٹ آف دا وے جا کر، اب کیا کیا جاسکتا ہے۔ کیوں امبر؟”
سمیعہ نے امبرکو مخاطب کرتے ہوئے کہا جو بڑے اطمینان سے مسکراتے ہوئے ان کی گفتگو سننے کے ساتھ چپس اور بوتل پینے میں مصروف تھی۔
”بلکہ خوبصورتی میری کمزوری ہے… سب کی ہی ہوتی ہے، کبھی کوئی ایسا آدمی بھی ہوسکتا ہے جسے خوبصورتی اچھی نہ لگے۔” اس نے چپس کا خالی پیکٹ پھینکتے ہوئے کہا۔
”بہر حال تم سمیعہ کی طرح کوئی خوب صورت چیز دیکھ کر اپنے ہوش گم نہیں کرتیں۔” نمرہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”یہ تو منحصر ہے کہ خوبصورتی سامنے کس شکل میں آئی ہے۔” امبر نے اس کی بات کی تائید یا تردید کیے بغیر سمیعہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں، میں پھر بھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ تم کبھی سمیعہ جیسا رویہ رکھ سکتی ہو۔” نمرہ ابھی بھی اپنی بات پر قائم تھی۔
”اب کل صبح آتے ہی اس نے کالج میںایک لڑکی کے لمبے کھلے ہوئے بال دیکھ لیے۔ بس پھر کیا تھا اگلے دو پیریڈ مس کرکے یہ زبردستی مجھے لیے اس لڑکی کے پیچھے پورے کالج کے گراؤنڈ میں پھرتی رہی۔ حتیٰ کہ اس لڑکی کو بھی اندازہ ہو گیا کہ ہم لوگ اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ اتنی شرمندگی ہو رہی تھی مجھے کہ بس… اب یہ ہمارا اسٹینڈرڈ تو نہیں ہے۔” نمرہ نے کہا۔
”یار! میں کیا کرتی اب اس لڑکی کے بال تھے ہی اتنے خوبصورت… سیاہ، لمبے، سلکی اور اتنی چمک تھی کہ بس۔ تمہیں پتا ہے لمبے سیاہ بال میری کمزوری ہیں۔”
سمیعہ نے بلا تامل اقرار کرتے ہوئے کہا۔
‘ہر چیز تمہاری کمزوری بن جاتی ہے… کبھی بال تمہیں اچھے لگتے ہیں… کبھی کسی کی آنکھوں کے پیچھے پاگل ہونے لگتی ہو کبھی کسی کا رنگ تمہیں رشک میں مبتلا کر دیتا ہے، کبھی کسی کا قد… تمہار کیا بنے گا سمیعہ؟” ماریہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔
”اس کا بھی کوئی قصور نہیں ہے… ایک تو یہ حسن پرست ہے، دوسرے اس نے فائن آرٹس رکھی ہوئی ہے۔ دونوں کا Combination خاصا Fatal (مہلک) ہے” سونیا نے سمیعہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا۔
”آخر سب میرے ہی پیچھے ہاتھ دھو کر کیوں پڑ گئے ہیں، کوئی امبر سے کچھ کیوں نہیں کہتا۔” سمیعہ کو اب ان کی باتوں پر اعتراض ہوا۔
”تمہیں بتایا تو ہے۔ امبر تمہاری طرح اپنے ہوش و حواس گم نہیں کر بیٹھتی۔” نمرہ نے اسے کچھ جھڑکتے ہوئے کہا۔
”تم لوگوں کا Aesthetic Sense (حس جمال) بہت خراب ہے اس لیے خوبصورتی تمہیں متاثر نہیں کرتی اور وہ لوگ بھی تمہیں برے لگتے ہیں جو خوبصورتی کو سراہتے ہیں۔” سمعیہ نے کہا۔
”جی نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے، خوبصورتی کو سراہنا آتا ہے ہمیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے امبر کی تعریف نہیں کر رہے تھے، ہم بلکہ اکثر کرتے ہیں اور کیا تمہاری تعریف نہیں کرتے یا دوسرے لوگوں کی نہیں کرتے مگر سب کچھ حد میں رہ کر کرتے ہیں… تمہاری طرح دماغ پر سوار نہیں کر لیتے…”
نمرہ نے ایک بار پھر اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہوںئے کہا۔
”ہر دوسرے دن تم ہمیں کوئی نہ کوئی لڑکی دکھانے چل پڑتی ہو، کبھی تمہیں کالج کے گیٹ پر کوئی لڑکا پسند آجاتا ہے۔ آخر حد ہوتی ہے حسن پرستی کی بھی۔” ماریہ نے نمرہ کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ میں آئندہ تم لوگوں کو کبھی کسی کو دکھانے بھی نہیں لے جاؤں گی، صرف امبر کو ہی لے جاؤں گی۔” سمیعہ نے ان کی بات کا برامانتے ہوئے کہا۔
”یہ خاص عنایت ہو گی ہم پر بلکہ احسان ہو گا۔” ماریہ نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا وہ اس کی ناراضی سے متاثر نہیں ہوئی تھی… کیونکہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ سمیعہ اپنے کسی وعدے اور اعلان پر عمل درآمد نہیں کر سکتی۔
”ویسے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم امبر کو بھی نہ لے جایا کرو۔” ماریہ نے کہا۔
”نہیں… میں تو ضرور جاؤں گی، سمیعہ بالکل ٹھیک کہتی ہے تم لوگوں کا Aesthetic sense (حس جمال) واقعی خراب ہو گیا ہے مگر کم از کم میرا ٹیسٹ ابھی تک بگڑا نہیں ہے۔” امبر نے فوراً ماریہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
طلحہ کو بڑا مسئلہ ہو جائے گا تمہاری اس حسن پرستی سے بے چارہ! تم تو اس کے سامنے دوسرے مردوں کی تعریفیں کرکر کے اسے مار دو گی۔” ماریہ نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔ طلحہ کو کوئی پرابلم نہیں ہے وہ تو خود بھی تعریف کرتا ہے ہر خوبصورت لڑکی کی۔” امبر نے بڑی لاپروائی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”اور تم برداشت کر لیتی ہو؟” سمیعہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”برداشت کرنے والی کیا بات ہے اس میں… خوب صورت اور اچھی چیز ہر ایک کو اٹریکٹ کرتی ہے… اور اسے سراہنے میں کیا حرج ہے اس میں برا ماننے یا برداشت نہ کرنے والی کیا بات ہے۔” امبر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”جب تمہاری شادی ہو جائے گی اور تب وہ دوسری عورتوں کی تعریف کیا کرے گا… پھر میں تم سے پوچھوں گی کہ اس میں برا ماننے والی کوئی بات ہے یا نہیں۔” نمرہ نے گفتگو میںمداخلت کرتے ہوئے کہا۔
”مجھے تب بھی ایسی باتوں پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، میں بڑی خوش دلی سے یہ سب قبول کر لوں گی۔” امبر نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”ایسا کبھی نہیں ہو گا، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔” ماریہ نے اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔
”کیو ںممکن نہیں ہے، میں بہت میچیور سوچ کی مالک ہوں۔” امبر نے ماریہ کی بات کے جواب میں کہا۔
”بات میچورٹی کی نہیں ہے بات فیلنگز کی ہے، ہم لڑکیاں کبھی اتنی لبرل اور براڈمائنڈڈ نہیں ہو سکتیں کہ اپنے شوہر کے منہ سے دوسری لڑکیوں کی تعریفیں سنیں اور بڑی خوشدلی کے ساتھ سرہلاتے ہوئے ان کی تائید کریں ایسا تو مغرب کی عورت بھی نہیں کرتی ہم تو پھر مشرق سے تعلق رکھتی ہیں۔”
نمرہ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ امبر سے اختلاف کرتے ہوئے کہا۔
”تم لبرل ہو یا نہیں… میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی مگر میں لبرل ہوں۔ مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میرا شوہر سڑک پر سامنے گزرنے والی کسی عورت کی تعریف میرے سامنے کر رہا ہے، نہ ہی مجھے کسی ہتک کا احساس ہوتا ہے نہ ہی کوئی خوف محسوس ہوتا ہے۔” امبر نے ایک بار پھر پہلے کی طرح کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”تم کس خوف کی بات کر رہی ہو؟” نمرہ نے سر اٹھا کر اس سے پوچھا…
”لڑکیوں کو اپنے شوہروں یا منگیتروں کے منہ سے کسی دوسری خوبصورت لڑکی کی تعریف اس لیے بری لگتی ہے کیونکہ انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں ان کا شوہر اس دوسری لڑکی کی محبت میں گرفتار نہ ہو جائے۔” امبر نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا۔
”اوہ کم آن… تم کس طرح کی لوجک پیش کر رہی ہو، ایسا نہیں ہوتا۔” ماریہ نے کچھ برہمی کے ساتھ اپنا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا۔ نمرہ اور سمعیہ کے چہرے سے صاف عیاں تھا کہ وہ امبر کی بات سے متفق نہیں تھیں۔
”تم اس سے اتفاق کرو یا نہ کرو مگر بہر حال سچ یہی ہے… اگر ہم میں یہ خوف نہ ہو تو ہمیں کسی دوسرے کی تعریف کبھی بری نہیں لگے… یہ شاید ہمارے اندر کی Insecurity (عدم تحفظ) اور Inferiority Complex (احساس کمتری) ہوتا ہے جو ہماری ساری اعلیٰ ظرفی ختم کر دیتا ہے… ہم یہ تسلیم کرنے پر تیار ہی نہیں ہوتے کہ کوئی دوسرا واقعی کسی ایسی خوبی یا خصوصیت کا حامل ہو سکتا ہے جو تعریف کے قابل ہو۔” امبر نے اس بار پہلے سے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ کہا۔
”ہر غیر فطری ری ایکشن کے پیچھے کوئی نہ کوئی خوف یا کمپلیکس ہوتا ہے۔”
”مگر سوال یہ ہے کہ آپ فطری اور غیر فطری ری ایکشن کا فیصلہ کیسے کریں گے… یہ کون طے کرے گا کہ کسی دوسری عورت کی تعریف پر بیوی کا ردِّ عمل فطری ہے یا غیر فطری ہے… اب تم کو یہ غیر فطری لگ رہا ہے جبکہ مجھے فطری لگ رہا ہے کیونکہ بات Possesion کی ہے، کسی حد تک Loyalty (وفاداری) کی بھی۔” ماریہ کی سنجیدگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔
”اب کسی دوسری عورت یا مرد کی تعریف کر دینے سے ایک پارٹنر کی دوسری کے ساتھ Loyalty (وفاداری) پر سوال نہیں اٹھنا چاہئے۔ ورنہ پھر تو کسی دوسری عورت یا مرد کو دیکھنے پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔” امبر نے ماریہ سے کہا۔
”سوالیہ نشان لگ جائے گا سے تمہارا کیا مطلب ہے سوالیہ نشان لگ چکا ہے… ہم میں سے کتنے مرد اور عورتیں یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کا لائف پارٹنر کسی دوسری عورت یا مرد کو دیکھتا رہے اور وہ بھی ستائشی نظروں سے۔” نمرہ نے امبر کی بات کے جواب میں کہا۔
”اپنا اپنا پوائنٹ آف ویو ہے، میں نے تمہیں بتایا نا کہ اگر کوئی خوف نہ ہو تو بندے کو یہ باتیں پریشان نہیں کرتیں کہ شوہر کسی عورت کو دیکھ رہا ہے یا کسی کی تعریف کر رہا ہے۔”
امبر نے ایک بار پھر کندھے اچکاتے ہوئے کہا وہ اپنی بوتل ختم کر چکی تھی۔
”مجھے طلحہ اور خود پر اعتماد ہے… میں جانتی ہوں طلحہ کسی دوسری عورت کی محبت میں گرفتار نہں ہو سکتا اس لیے مجھے کوئی تعریف پریشان نہیں کرتی۔” اس کے تبصرے پر وہ چاروں کچھ جھنجھلا سی گئیں۔
”تمہارا مطلب ہے کہ ہمیں اپنے منگیتر وغیرہ پر اعتماد نہیں ہے اور ہم خوف کا شکار ہیں، اس لیے ہمیں دوسری لڑکیوں کی تعریف بری لگتی ہے؟” ماریہ نے کچھ چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”میں نے تم لوگوں کا نام نہیں لیا… میں ایک جنرل سی بات کر رہی ہوں۔” امبر نے بات کو قدرے گول کرتے ہوئے کہا۔ اسے اچانک احساس ہوا تھا کہ وہ چاروں اس کے تبصرے سے کچھ ہرٹ ہوئی تھیں۔




Loading

Read Previous

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!