تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

وہ استہزائیہ انداز میں مسکرایا۔ ”تمہیں ہی رشک آیا کرتا تھا ہمارے گھر کے ماحول پر، ہمارے طرز زندگی پر۔ ہماری آزادی پر پھر اگر تم نے اپنی ان ساری خواہشات کو پورا کرنے کے لیے مجھ سے شادی کی ہے اور اپنے ماں باپ کو ناراض کیا ہے تو اس کا احسان مجھ پر کیوں رکھ رہی ہو۔ ہر چیز کا ذمہ دار مجھے کیوں ٹھہرا رہی ہو۔ میرے لیے لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں تھی… ہزاروں تھیں۔” اس نے بیزاری سے ہاتھ جھٹکا۔ شائستہ دم سادھے اس کو دیکھ رہی تھی۔
”میرے لیے کوئی بھی لڑکی یہ سب کچھ کرنے کو تیار ہو جاتی جو تم نے کیا۔ اور وہ تمہاری طرح کبھی مجھ پر احسان بھی نہ جتاتی۔”
ہارون کی آواز اب پہلے سے بلند تھی۔
”میرے ماں باپ نے بھی مجھ سے کہا تھا کہ میں تمہارا خیال دل سے نکال دوں، کیونکہ تم میرے لیے موزوں نہیں تھیں۔ مگر میں نے ان کی بات نہیں مانی، میں نے ان کی ناراضی مول لی اور زبردستی انہیں تمہارے گھر بھیج کر ان کی بے عزتی بھی کرواتا رہا۔ مگر میں نے تو تم پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا نہ ہی یہ جتایا کہ تمہاری وجہ سے مجھے کیا کیا برداشت کرنا پڑا ہے۔ حالانکہ تمہاری طرح مجھے بھی یہی سب کچھ بہت پہلے کہہ دینا چاہیے تھا یا پھر مجھے بھی تمہاری طرح یہی کہنا چاہیے کہ میں نے اپنے ماں باپ کی بات نہ مان کر غلطی کی ہے۔” اس کے لہجے میں تضحیک تھی۔
”میں نے شادی سے پہلے ہی تمہیں واضح طور پر بتادیا تھا کہ مجھے کیسی بیوی چاہیے، میں ایک پروگریسو اور لبرل عورت چاہتا تھا۔ اور میں نے اس خواہش کو کبھی تم سے نہیں چھپایا۔”
وہ سگریٹ کے چھوٹے چھوٹے کش لے رہا تھا۔
”میں پاکستان، کسی مشرقی… پتی ورتا قسم کی عورت سے شادی کی خواہش لے کر نہیں آیا تھا… نہ ہی ایسی عورت مجھے سوٹ کرتی ہے اور تم بھی یہ بات اچھی طرح جانتی تھیں اور اب تم اس طرح تماشا کر رہی ہو جیسے میں نے تمہیں ہر چیز کے بارے میں دھوکا اور فریب دے کر شادی کی ہے۔” اس نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”تم یوں ظاہر کر رہی ہو جیسے میں نے ہر چیز تم سے چھپائی ہے۔ اس قسم کی تنگ نظر اور احمق عورت سے شادی کرنا ہوتی تو پھر میں اپنے ماں باپ سے کہتا کہ وہ میرے لیے ایک عدد لڑکی تلاش کریں۔ پھر میں تمہارے لیے اتنی بے عزتی برداشت نہ کرتا۔” وہ بیزاری اور اکتاہٹ سے سگریٹ کو ایش ٹرے میں پھینکتے ہوے بولا۔
”شادی سے پہلے تمہیں میری اس سوچ یا ذہنیت پر کوئی اعتراض نہیں تھا… تم تو بڑا سراہا کرتی تھیں مجھے اور میری لبرل سوچ کو، اب وہی تمہیں سب سے زیادہ قابل اعتراض لگ رہی ہے۔”




شائستہ نے ایک لمبے وقفے کے بعد اس سے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر ہارون نے ہاتھ اٹھا کر سرد لہجے میں اسے روک دیا۔
”ابھی میں بات کر رہا ہوں۔ ابھی تم صرف میری سنو پھر میں تمہاری بھی سن لوں گا۔”
وہ صرف منہ کھول کر رہ گئی۔
”یہ تمہاری اور میری زندگی کا آغاز ہے اور ہم دونوں کسی ارینج میرج کے فضول چکر میں گرفتار نہیں ہیں، جس سے نکل نہ سکیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہم دونوں کو زندگی ایک ساتھ گزارنی پڑے۔” وہ اب دو ٹوک انداز میں بات کر رہا تھا۔ ”میں ویسے بھی زندگی میں قربانیاں دینے اور کمپرومائز کرنے پر یقین نہیں رکھتا۔ مجھے زندگی صرف ایک دفعہ ملی ہے اور میں اسے رودھو کر نہیں گزار سکتا ہوں نہ دوسرے لوگوں کو اس میں مداخلت کی اجازت دے سکتا ہوں۔”
وہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہی تھی۔
”تمہیں اگر میرے لائف اسٹائل پر اعتراض ہے یا میرے فیصلے برے لگنے لگے ہیں تو ان سب چیزوں کے بارے میں ابھی سوچ لو، میں ایسا ہوں اور ایسا ہی رہوں گا چاہے تمہیں اچھا لگے یا نہ لگے۔ رو دھو کر اور لڑ جھگڑ کر زندگی ساتھ گزارنے کے بجائے بہتر ہے ہم ابھی الگ ہو جائیں، ابھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم دوبارہ نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کرسکتے ہیں کچھ سال کے بعد یہ ناممکن ہو جائے گا۔ تم واپس جاکر اپنے ماں باپ سے معافی مانگ لینا۔ وہ یقینا تمہیں معاف کر دیں گے، تم اس قدر خوبصورت ہو کہ دوسری شادی تمہارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوگی۔”
وہ بہت لاپروائی سے کہہ رہا تھا۔ ”دوسری صورت میں اگر تم میرے ساتھ رہنے پر اصرار کرو گی تو پھر تمہیں اسی راستے پر چلنا ہوگا جس پر میں چل رہا ہوں۔” وہ اس پر نظریں جمائے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر بول رہا تھا۔
”میں اس بچے کو کسی صورت نہیں اپناؤں گا، اگر میں اپنے ماں باپ کو اپنی کورٹ میرج کا بتا چکا ہوتا تو اور بات تھی مگر اس وقت بھی یہ تمہارا اصرار تھا کہ اس کورٹ میرج کے بارے میں کسی کو کچھ نہ بتایا جائے لیکن اب میں چاہوں بھی تو انہیں یہ نہیں بتا سکتا کہ میں تم سے کئی ماہ پہلے ہی کورٹ میرج کر چکا تھا۔ وہ کبھی اس پر یقین نہیں کریں گے اگر انہوں نے یقین کر بھی لیا تو خاندان کے باقی لوگ قطعاً نہیں مانیں گے۔ وہ اسے ہم دونوں کا ایک فریب ہی سمجھیں گے۔ تمہیں صورتحال کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔ مگر مجھے ہے… میری بہن کی منگنی ہو چکی ہے خاندان میں ایسے کسی اسیکنڈل سے میں اور میرے گھر والے کسی کے سامنے سر اٹھا کر بات نہیں کرسکیں گے۔”
وہ اس لبرل اور براڈ مائنڈڈ شخص کا پوائنٹ آف ویو بڑی دلچسپی سے سن رہی تھی۔
”تمہیں ابارشن کروانا ہی پڑے گا اور تمہارے لیے آخر پرابلم کیا ہے۔ تم اگر اتنے ماہ تک اپنے گھر والوں سے اپنی پریگننسی چھپا سکتی ہو تو اب اس ابارشن کو چھپانا بھی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ہم یہاں ہیں۔ ابارشن کے بعد بھی یہیں رہیں گے۔ ایک ڈیڑھ ماہ کے بعد اطمینان سے واپس چلے جائیں گے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
وہ بڑے اطمینان سے اسے سمجھا رہا تھا۔
”ہارون! تمہیں اپنی اولاد کو اس طرح مارتے ہوئے کوئی شرمندگی، کوئی خوف، کوئی پچھتاوا نہیں ہو رہا۔ تمہیں اپنے بچے کے لیے کسی قسم کی کوئی محبت محسوس نہیں ہو رہی۔”
اس نے بے یقینی سے ہارون سے کہا۔ وہ اس کی بات پر یک دم مشتعل ہو گیا۔
”مجھے ایموشنلی بلیک میل کرنے کی کوشش مت کرو، یہ تھرڈ کلاس فلمی ڈائیلاگز مجھے متاثر نہیں کرسکتے… خوف، پچھتاوا، شرمندگی۔ میں آخر کر کیا رہا ہوں کہ میں ایسا کچھ محسوس کروں اور کون سی محبت کی بات کر رہی ہو تم… کس اولاد کا ذکر کر رہی ہو… خون کا رشتہ اور یہ سب فضولیات۔ کس صدی میں رہ رہی ہو تم… اگر بے وقوفوں کے سر پر سینگ ہوتے تو تمہارا سر سینگوں سے بھرا ہوتا۔ شائستہ کمال! مجھ سے پریکٹیکل اپروچ کے ساتھ بات کرو۔ مخصوص عورتوں والے حربے استعمال مت کرو۔ مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے تو بس نہیں چاہیے۔”
اس کے لہجے اور انداز میں قطعاً کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
”تم اچھی طرح اس مسئلے کے بارے میں سوچ لو۔ تمہارے اعتراضات پھر بھی برقرار رہیں تو پھر راستہ میں تمہیں بتا چکا ہوں۔” وہ مزید کچھ کہے بغیر اٹھ کر اندر بیڈ روم میں چلا گیا۔
شائستہ کمال تھکے تھکے انداز میں صوفہ پر بیٹھ گئی۔ اسے اپنے سر میں یک دم بہت تیز درد محسوس ہونے لگا… ہارون نے اس کے سامنے دو راستے رکھ دیئے تھے مگر اس نے اسے انتخاب کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ اس نے بہت عرصہ پہلے اپنی مرضی سے پیروں کے نیچے زمین کے بجائے ایک پتلی تنی ہوئی ڈور کا انتخاب کیا تھا اور اب اس ڈور پر قدم آگے بڑھا لینے کے بعد وہ مڑ کر پیچھے نہیں جا سکتی تھی۔ آگے جانے کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور رستہ نہیں تھا۔ وہ ہارون کی محبت میں اب بھی اسی طرح گرفتار تھی جس طرح پہلے تھی۔ کسی نادیدہ بچے کے لیے ہارون سے دستبرداری اس کے لیے ناممکنات میں سے تھی۔ وہ ممتا کے کسی جذبے سے اس حد تک مجبور بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس بچے کی محبت میں آنکھیں بند کرکے وہ کسی آگ میں کود جاتی۔ اس کی خواہشات ابھی بھی اپنی جگہ برقرار تھیں اسے ہارون کے ساتھ وہی زندگی گزارنی تھی جسے دیکھ کر وہ مقناطیس کی طرح کھنچی ہوئی اس کی طرف آئی تھی۔ اب بھی اسے نہ اپنے ماں باپ اور اپنا گھر چھوڑنے پر کوئی پچھتاوا ہوا تھا نہ چھوڑ کر آنے والی زندگی میں اسے کوئی دلچسپی پیدا ہوئی تھی۔ ہارون کو چھوڑنے کی صورت میں تکلیف اور پریشانی کے جس لمبے سلسلے کا آغاز ہوتا… وہ اس سے خوف زدہ بھی تھی، اس کے لیے دو راستوں سے ایک کے انتخاب کا سوال نہیں تھا… اسے ہر صورت میں وہی ایک راستہ چننا تھا جو ہارون چاہتا تھا، یہ اس کی بقا کا معاملہ تھا… وہ اس پر جوا نہیں کھیل سکتی تھی۔
شاک اور خوف اور شاید کسی حد تک مایوسی اسے صرف ہارون کے رویے پر ہوئی تھی۔ وہ کس حد تک اس پر حکومت چاہتا تھا، اس کے ہر فیصلے پر کس حد تک اثر انداز ہونا چاہتا تھا اور اس کے نزدیک اس کی اہمیت یا وقعت کتنی تھی، اپنے بہت اندر کہیں اس نے بے عزتی اور تذلیل بھی محسوس کی تھی اور وہ ہرٹ ہوئی تھی، ہارون کمال کی شخصیت کا ایک نیا رخ اس کے سامنے آیا تھا… وہ خود غرض تھا، یہ اس کے لیے حیران کن نہیں تھا۔ وہ بہت پہلے اس کا اندازہ لگا چکی تھی… مگر وہ جس سفاکی کی حد تک خود غرض تھا۔ یہ اس کے لیے ناقابل یقین تھا۔ شاید یہ سب اس کے لیے اتنا ناقابل یقین نہ ہوتا اگر ہارون کمال اس سے اپنی محبت کا اتنا والہانہ اور بے ساختہ اظہار نہ کرتا رہا ہوتا یا اس طرح کے دعوے نہ کرچکا ہوتا جس کا وہ عادی تھا۔ اب اس کی متلون مزاجی اسے پریشان کر رہی تھی۔
فیصلہ کرنے میں اسے کوئی تامل نہیں ہوا تھا۔ وہ ہارون کے علاوہ کسی بھی شے سے دستبردار ہو سکتی تھی اور اس نے ہارون کو اس بات سے آگاہ کرنے میں ذرا دیر نہیں کی۔ ہارون کے چہرے اور آنکھوں کی سرد مہری پلک جھپکتے میں غائب ہوگئی تھی۔ شائستہ کمال کو اس کے چہرے پر پھیلی پرانی گرم جوش مسکراہٹ دیکھ کر تسلی ہوئی۔ وہ اب بھی اس کا تھا۔ وہ اب بھی اس سے محبت کرتا تھا۔ شاید وہ ٹھیک کہتا تھا۔ میں ہی بعض چیزوں کے بارے میں زیادہ جذباتی ہونے لگتی ہوں۔ مجھے زیادہ حقیقت پسند ہو کر سوچنا چاہیے۔ اس نے ہارون کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
٭٭٭
اگلے دن وہ ہارون کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس گئی تھی… ڈاکٹر کے ہر سوال کا اس نے مسکرا کر جواب دیا اور بڑے اطمینان کے ساتھ ڈاکٹر کے تمام شبہات کو ختم کر دیا… لیکن اس کی آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔
اگلے چند دن میں ہونے والے ٹیسٹوں کے بعد ڈاکٹر نے اسے اور ہارون کو ابارشن نہ کروانے کا مشورہ دیا تھا۔
”پریگیننسی ایڈوانسڈ اسٹیجز میں ہے۔ بہتر ہے آپ اب ابارشن نہ کروائیں، یہ آپ کی وائف کے لیے خاصا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔”
ڈاکٹر نے انہیں میڈیکل ٹرمز میں اس اسٹیج پر ہونے والے ابارشن کے نقصانات پر خاصا لمبا لیکچر دیا، وہ دونوں سوچ میں پڑ گئے۔
گھر واپس آنے کے بعد ان دونوں کے درمیان ایک بار پھر خاصی لمبی چوڑی بات ہوئی۔ ہارون نے ایک بار پھر اسے ابارشن کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنے کی کوشش کی۔
”میں اپنی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتی۔” اس نے انکار کر دیا۔
اس بار ہارون نے بھی زیادہ اصرار نہیں کیا۔ شاید اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب اس معاملے میں اس کے اصرار پر شائستہ اس سے بدظن ہو جائے گی یا پھر ڈاکٹر کی اس وارننگ نے اسے کچھ محتاط کر دیا تھا کہ عین ممکن ہے، کوئی پیچیدگی ہو جانے پر وہ دوبارہ ماں نہ بن سکے۔
”پھر اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ اس بچے کی پیدائش کے بعد ہم اسے کسی ادارے میں داخل کروا دیں۔”
ہارون نے کچھ دیر کی بحث کے بعد بالآخر کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں اس بچے کی پیدائش تک یہیں انگلینڈ میں رہنا پڑے گا۔ اس کی پیدائش کو چھپانے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔”
”لیکن ہم اتنا لمبا عرصہ یہاں انگلینڈ میں کیسے رہیں گے؟” شائستہ کو تامل ہوا۔
”میں نہیں صرف تم رہو گی، میں واپس پاکستان چلا جاؤں گا اور یہ کہہ دوں گا کہ تم کچھ عرصہ کے لیے یہاں رہنا چاہتی تھیں۔”
وہ کھلے منہ کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ ”میں تمہارے بغیر اکیلے یہاں کیسے رہ سکتی ہوں؟”
”تمہیں رہنا پڑے گا۔ مجبوری ہے، ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔” ہارون نے نرمی سے کہا۔
”ہارون! تم کس طرح کی بات کر رہے ہو، میں یہاں اکیلے کیسے رہ سکتی ہوں۔ تم پاکستان میں، میں انگلینڈ میں وہ بھی اکیلے۔ یہ ممکن نہیں ہے۔” اس نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔
”میں پاکستان سے تمہارے پاس آتا جاتا رہوں گا اور تم سے رابطہ رکھوں گا۔”
”پھر بھی میں اتنے ماہ اکیلے یہاں نہیں رہ سکتی، تم میرے ساتھ رہو۔”
”میں بزنس چھوڑ کر اتنے ماہ تک یہاں مستقل قیام کیسے کر سکتا ہوں۔”
”انکل ہیں وہاں، وہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں۔”
”احمقانہ باتیں مت کرو۔ میرے اور ان کے کام کرنے کے طریق کار میں بہت فرق ہے اور پھر وہ اپنی فیکٹری سنبھالیں گے یا میری، ویسے بھی میں یہاں مستقل طور پر تمہارے ساتھ بے کار رہ کر وقت ضائع کرنے کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہوں۔ تمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے۔”
”پھر تم مجھے بھی پاکستان لے جاؤ۔”
”یہ ممکن نہیں ہے۔ میں نہیں چاہتا، یہ سب کچھ کسی کو پتا چلے۔”
”میں کسی سے نہیں ملوں گی۔ گھر کے اندر رہوں گی۔” شائستہ نے اسے یقین دلایا۔
”تم بچوں جیسی باتیں کرتی ہو۔ کبھی بھی کوئی بھی ہمارے گھر آسکتا ہے۔ تم کسی سے ملنے نہ بھی جاؤ تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تم وہاں سب سے کٹ کر نہیں رہ سکتیں اور پھر ملازم ہیں اگر ان میں سے کسی نے اس بارے میں کسی سے کچھ کہہ دیا تو ہم کیا کریں گے۔ میں کوئی رسک نہیں لے سکتا۔”
ہارون نے اس کی بات کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا۔
”تم مجھے اپنے گھر کے بجائے کہیں اور رکھو، کرائے پر کچھ عرصہ کے لیے گھر لے لیتے ہیں۔ تم سب سے یہی کہنا کہ میں انگلینڈ میں ہی ہوں۔”
شائستہ نے کچھ سوچنے کے بعد کہا۔ وہ اس کی تجویز پر سوچ میں پڑ گیا۔
٭٭٭
وہ ہارون کے ساتھ واپس پاکستان آگئی۔ ہارون کے گھر والوں میں سے کسی کو ان کی واپسی کی خبر نہیں تھی، ہارون واپس آنے سے پہلے ہی شہر کے ایک پوش علاقے میں ایک گھر کرائے پر لے چکا تھا۔ وہ دونوں سیدھے وہیں آئے تھے۔ ہارون نے اگلے کچھ دن میں گھر کے لیے چند ملازمین کا بندوبست کرلیا۔
پھر وہ خود اپنے گھر چلا گیا۔ گھر والوں کو اس نے یہی بتایا تھا کہ شائستہ کچھ بیمار تھی، اس لیے فوری طور پر واپس نہیں آسکی۔ وہ چونکہ پہلے ہی اپنے ماں باپ سے علیحدہ ایک گھر میں رہ رہا تھا، اس لیے اس کے ماں باپ یا بہن بھائیوں کو اس کی بیوی کا اس طرح انتظار نہیں تھا جس طرح کسی جوائنٹ فیملی میں ہوتا ہے۔ دوسری وجہ شاید شائستہ کا اکبر کی بیٹی ہونا اور دونوں خاندانوں کے درمیان شادی سے پہلے اتنے بہت سے اختلافات کا ہونا بھی تھا۔ جس نے ہارون کے گھر والوں کی نظر میں شائستہ کی اہمیت کو بڑی حد تک ختم کر دیا تھا، یہی وجہ تھی کہ رسمی سے استفسار کے بعد کسی نے بھی شائستہ کے بارے میں زیادہ فکر مندی کا اظہار نہیں کیا۔ خود شائستہ کے گھر والے بھی شادی کے بعد سے اس سے مکمل طور پر قطع تعلق کیے بیٹھے تھے۔
اگرچہ انہوں نے باقاعدہ طور پر شائستہ سے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ دوبارہ کبھی ان کے گھر آئے نہ ہی وہ اس کے گھر آئیں گے۔ مگر شادی پر ہارون اور اس کے ساتھ برتی جانے والی سرد مہری نے شائستہ کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ اب اس کے ماں باپ کے گھر میں اس کا خوش دلی سے استقبال نہیں کیا جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ شادی کے بعد شائستہ نے خود بھی ہارون کے ساتھ یا اس کے بغیر ایک بار بھی اپنے والدین کے گھر جانے کی کوشش نہیں کی۔
شاید وہ خود بھی انہیں یہ جتا دینا چاہتی تھی کہ اسے اب ان کی ضرورت نہیں رہی اور ان کے بغیر بھی وہ صرف ہارون اور اس کے گھر والوں کے سہارے بڑے اطمینان سے رہ سکتی ہے۔
اس کے انگلینڈ جانے سے پہلے اور بعد میں بھی اس کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا اور ہارون اور اس کے لیے یہ بھی اچھی بات ہی ثابت ہوئی۔




Loading

Read Previous

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!