تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

”ہم بھی کسی خوف کا شکار نہیں ہیں مگر اس کے باوجود اگر کامران کسی دوسری عورت کی تعریف کرے گا تو مجھے برا لگے گا اور مجھے اپنا یہ ری ایکشن قطعاً غیر فطری محسوس نہیں ہو گا، انسان کسی حد تک ہی لبرل ہو سکتا ہے ہر چیز کے بارے میں نہیں۔” ماریہ نے قدرے تلخی سے کہا۔
”سوری… مجھے لگتا ہے تمہیں میری بات بری لگی۔”
”بری لگنے والی بات تھی اس لیے بری لگی… تمہیں پہلے ہی اس کا اندازہ ہونا چاہیے تھا۔” ماریہ نے اپنی البمز اپنے بیگ میں ڈالتے ہوئے کچھ سرد مہری سے کہا۔
”اور تمہارے لبرل ازم کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ تو میں تم سے تمہاری شادی کے چند سال بعد ہی پوچھوں گی کہ طلحہ کی تعریف اب تمہیں کس حد تک اچھی لگتی ہے…۔ اور یہ بھی تمہیں بتا دوں کہ طلحہ صاحب کو بھی تمہارے منہ سے کسی مرد کی تعریف اچھی نہیں لگے گی… چاہے اسے تم پر بہت اعتماد ہی کیوں نہ ہو۔” ماریہ نے کہا۔
”اچھے بھلے بیٹھے دونوں باتیں کر رہے تھے… بس تم لوگوں نے ہمیشہ کی طرح بکواس شروع کر دی… آخر یہ بحث کا سلسلہ ختم کیوں نہیں کر دیتے تم لوگ۔ سائیکالوجی کی ہر تھیوری کو یہیں پر ڈسکس کرنا ہوتاہے تمہیں۔” سونیا نے یک دم اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔
”بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں پر ختم ہو رہی ہے… امبر اور ماریہ کو تو پتا نہیں بحث کرنے میں کیا مزا آتا ہے دیکھ ہم منگنی کی تصویریں دیکھ رہے تھے اور بحث دیکھو ہم کس پر کر رہے ہیں۔” نمرہ نے بھی دونوں کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
”میں نے کب بات شروع کی تھی؟” امبر نے مدافعانہ انداز میں کہا۔
”ویسے بحث کرنے میں اتنی برائی نہیں ہے جتنی تم لوگوںکو نظر آرہی ہے… مزہ آرہا تھا ہم دونوں کو اس موضوع پر بات کرتے ہوئے، تم لوگوں نے خواہ مخواہ روک دیا۔” امبر نے کچھ شرارتی انداز میں کہا ماریہ بھی اس کی بات پر مسکرانے لگی۔




”مجھے پتا ہے جتنا مزہ آرہا تھا تم لوگوں کو اس گفتگو میں، ابھی اس نے اٹھ کر یہاں سے چلے جانا تھا… سامان تو وہ سمیٹ ہی رہی تھی۔” سمیعہ نے ماریہ کے البمز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”بالکل جھوٹ… میں تو یہاں سے بالکل نہیں جارہی تھی… آخر میں کیوں جاتی پہلے کبھی میں کوئی بحث اس طرح چھوڑ کر گئی ہوں۔” ماریہ نے فوراً سمیعہ کی بات کی تردید کرتے ہوئے کہا۔
”اگر تم نہیں جاتیں تو امبر چلی جاتی، ہمیشہ ایسا ہی تو ہوتا ہے۔” نمرہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”جھوٹ کی کوئی حد ہوتی ہے… آخر میں کتنی بار اس طرح بحث کو ادھورا چھوڑ کر گئی ہوں ،ایک بار بھی نہیں۔” امبر نے سمیعہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”اب ہم تم لوگوں کو مثالیں دے کر شرمندہ نہیں کریں گے اور نہ ہی مزید وقت ضائع کریں گے۔ ماریہ! تم یہ بتاؤ کہ لنچ کے لیے کب لے کر جارہی ہو ہمیں؟” سونیا نے ایک بار پھر موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”ابھی چلو۔” ماریہ نے فوراً آفر کی۔
”نہیں ابھی تو نہیں… کل چلتے ہیں دو دن سے میں پہلے ہی بنک کر رہی ہوں، آج بھی ایسا کرنا نہیں چاہتی… بہت سا کام اکٹھا ہو جائے گا۔” سمیعہ نے سرہلاتے ہوئے کہا۔
”زیادہ پڑھاکو بننے کی ضرورت نہیں ہے کوئین بی! آرام سے ساتھ چلو ورنہ یہیں چھوڑ جائیں گے تمہیں، پھر تم اپنی کلاسز لیتی رہنا اور ہم آرام سے پی سی میں لنچ کریں گے۔” ماریہ نے اسے دھمکاتے ہوئے کہا۔
”بہت فضول ہو تم۔” سمیعہ نے اپنی کتابیں سمیٹتے ہوئے کہا۔ واضح طور پر اس نے ہتھیار پھینک دیے تھے۔
”مگر ابھی تو دس گیارہ بج رہے ہیں… نکلیں گے کیسے؟” نمرہ نے کہا۔
”یہ تم لوگوں کا پرابلم نہیں ہے میرا پرابلم ہے، تم لوگ بس اب اٹھ جاؤ اگر واقعی لنچ کرنا چاہتے ہو تو۔” ماریہ نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
”کالج کا گیٹ پھلانگ کر جائیں گے؟” امبر نے شرارتی انداز میں کہا۔
”نہیں۔ ہم دیوار پھلانگ کر جائیں گے۔” ماریہ نے بھی اسی اندازمیں جواب دیا۔
٭٭٭
”منیزہ کہاں ہے؟” منصور علی شام چھ بجے کے قریب گھر آتے تھے۔ صبغہ اس وقت باہر لان میں بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ گاڑی سے اترتے ہی سیدھے اس کی طرف گئے۔
”ممی تو گھر پر نہیں ہیں۔” صبغہ نے کہا۔
”کہاں گئی ہے وہ؟” منصور علی نے ایک کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”وہ امبر کے ساتھ کہیں گئی ہیں۔” صبغہ نے کہا۔
”بھئی، یہی تو پوچھ رہا ہوں، وہ کہاں گئی ہے؟” منصور علی نے کہا۔
”شاید ڈینٹسٹ کے پاس۔” صبغہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”شاید سے کیا مراد ہے، جانے سے پہلے بتایا نہیں؟” منصور علی نے کہا۔
”نہیں میں نے پوچھا نہیں، وہ دونوں آپس میں بات کر رہی تھیں۔ امبر کے دانت میں درد تھا مجھے لگتا ہے وہ ڈینٹسٹ کے پاس ہی گئی ہوں گی۔” صبغہ نے ایک بار پھر اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔
”کتنے بجے گئی تھیں وہ دونوں؟” منصور علی نے اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے کہا۔
”ڈھائی تین بجے، مجھے صحیح وقت کا پتا نہیں ہے آپ کے لیے چائے بناؤں۔” صبغہ کو اچانک خیال آیا۔
”نہیں، میں بس ایک فنکشن پر جارہا ہوں… امبر کو زیادہ تکلیف تھی؟” منصور علی نے کہا ان کے چہرے پر اب کچھ تشویش تھی۔
”ہاں کچھ زیادہ ہی درد تھا۔ کالج سے گھر آکر اس نے کھانا بھی نہیں کھایا۔ اس لیے تو ممی اسے فوراً لے گئیں۔”
”مجھے فون کر دیتی منیزہ۔ میں خود اسے لے جاتا۔” منصور علی بڑبڑائے۔ صبغہ امبر کے لیے ان کی محبت سے اچھی طرح واقف تھی۔
”میرا خیال ہے مجھے بھی ڈینٹسٹ کے پاس جانا چاہیے۔” منصور علی نے یک دم اٹھتے ہوئے کہا۔
”مگر پاپا! اب تو کافی وقت گزر چکا ہے، وہ دونوں وہاں سے نکل گئی ہوں گی۔” صبغہ نے کہا۔
منصور علی نے ایک لمحہ کے لیے گھڑی پر نظر دوڑائی اور پھر صبغہ سے کہا۔ ”منیزہ کا موبائل اس کے پاس ہے؟”
”نہیں موبائل تو ان کے پاس نہیں ہے۔ وہ تو بیڈ روم میں ہی پڑا ہے… ڈینٹسٹ کو رنگ کرکے ان کے بارے میں پوچھ لیں۔” صبغہ نے انہیں مشورہ دیا۔
”ہاں بہتر یہی ہے کہ میں ڈینٹسٹ کو رنگ کر لوں، روشان کہاں ہے…؟” منصور علی نے اندر جانے کے لیے ایک قدم بڑھایا اور پھر رک گئے۔
”وہ ٹیوٹر سے پڑھ رہا ہے۔” منصور علی اس کی بات پر سرہلاتے چلے گئے۔ صبغہ جانتی تھی کہ اب وہ اپنی ہر مصروفیت تب تک بھول جائیں گے جب تک انہیں امبر کی خیریت کے بارے میں پتا نہیں چل جاتا۔
امبر کے ساتھ ان کا یہ خاص لگاؤ کسی کے لیے بھی حیرانی کا باعث نہیں تھا۔ سب لوگ اب اس کے عادی ہو چکے تھے… صبغہ بھی۔
٭٭٭
”ہیلو آنٹی! میں امبر ہوں ۔” شبانہ نے فون کا ریسیور اٹھاتے ہی دوسری طرف سے امبر کی آواز سنی۔
”طلحہ کہاں ہے۔ میری اس سے بات کروا دیں۔” کسی دعا سلام کے بغیر اس نے کہا۔
”طلحہ تو گھر پر نہیں ہے۔” شبانہ نے اسے بتایا۔
”مگر اس وقت تو وہ گھر پر ہی ہوتا ہے۔” امبر نے قدرے حیرت سے کہا۔
”ہاں، عام طور پر تو اس وقت گھر پر ہی ہوتا ہے مگرآج ابھی تک نہیں آیا۔” شبانہ نے سامنے وال کلاک پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”آپ کو اندازہ ہے، وہ اس وقت کہاں ہو گا؟” امبر نے پوچھا۔
”فیکٹری میں ہی ہو گا۔ اور کہاں ہو سکتا ہے۔” شبانہ نے لاپروائی سے کہا۔
”نہیں فیکٹری میں نہیں ہے۔ میں نے وہاں فون کیا تھا، وہاں سے وہ نکل چکا ہے۔” امبر نے انہیں اطلاع دی۔
”ہو سکتا ہے ابھی رستے میں ہی ہو تم موبائل پر کال کرو” شبانہ نے اسے مشورہ دیا۔
”میں نے موبائل پر رنگ کیا تھا مگر اس کا موبائل آف ہے، اسی لیے تو مجھے یہاں اور فیکٹری فون کرنا پڑا۔” امبر کے لہجے میں اب کچھ بے چینی تھی۔
”اچھا، پتا نہیں موبائل کیوں آف کر دیا اس نے، تمہیں کوئی ضروری کام ہے؟” شبانہ نے بات کرتے ہوئے پوچھا۔
”آنٹی! اس نے میرے ساتھ ڈنر کا پروگرام بنایا تھا۔ اب میں ایک گھنٹے سے اس کے انتظار میں بیٹھی ہوں اور اس کا کہیں اتا پتا نہیں ہے۔” امبر کے لہجے میں ناراضی تھی۔
”تمہارے ساتھ اگر اس نے ڈنر کا پروگرام بنایا ہے تو پھر تو یقینا تمہاری طرف ہی گیا ہو گا۔” شبانہ نے کہا۔
”آنٹی ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا ہے اسے فیکٹری سے نکلے، ابھی تک وہ یہاں نہیں پہنچا۔ اگر میرے گھر آرہا ہوتا تو اب تک پہنچ گیا ہوتا۔” امبر نے ان کی بات کے جواب میں کہا۔
”ہو سکتا ہے، کسی ضروری کام میں پھنس گیا ہو؟” شبانہ نے خیال ظاہر کیا۔
”ضروری کام میں پھنس گیا تھا، تب بھی اسے مجھے فون پر انفارم تو کرنا چاہیے تھا، میں احمقوں کی طرح اس کا انتظار کر رہی ہوں۔”
اس کے لہجے کی ترشی نے شبانہ کے ماتھے کو شکن آلود کر دیا۔ چند لمحوں کے لیے وہ کچھ نہیں بول سکیں۔
”اب میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ سوائے اس کے کہ جیسے ہی وہ آتا ہے میں اسے تمہاری طرف بھجواتی ہوں۔” انہوں نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اپنے لہجے کو حتی الامکان نارمل رکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں، اب اگر وہ آئے تو اسے میری طرف بھجوانے کی ضرورت نہیں ہے آپ بس اسے بتا دیں کہ دو گھنٹے کے اس طرح کے بے مقصد انتظار کے بعد میں اس کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔ غیر ذمہ داری کی حد ہوتی ہے۔” امبر واقعی ناراض تھی۔
اس سے پہلے کہ شبانہ اس کی بات کے جواب میں کچھ کہتیں انہیں باہر طلحہ کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا۔
”لو طلحہ آگیا ہے، تم خود ہی اس سے بات کرو اور پوچھ لو کہ ابھی تک وہ تمہاری طرف کیو ںنہیں آیا۔” شبانہ نے امبر کو اطلاع دی۔
”ٹھیک ہے۔ آپ اس سے بات کروا دیں۔” امبر نے اسی ناراضی کے ساتھ کہا۔
شبانہ نے ریسیور ایک طرف رکھ دیا اور ملازم کو طلحہ کو بلانے کے لیے کہا۔
”اس سے کہو امبر کا فون ہے، وہ جلدی آئے۔”
شبانہ نے کہا اور دوبارہ فون اٹھانے کے بجائے لاؤنج کے ایک صوفہ پر بیٹھی اپنی نند کی طرف بڑھ گئیں جو خاموشی سے ان کی، امبر کیے ساتھ ہونے والی گفتگو سن رہی تھیں۔
”امبر کا فون تھا؟” ان کی نند منورہ نے جانتے ہوئے بھی جیسے تصدیق چاہی۔
”ہاں امبر کا ہی فون تھا۔ طلحہ نے اسے ڈنر پر لے جانا تھا اور ابھی تک ان کی طرف نہیں گیا وہ اسی کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔” وہ کہتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئیں۔
اسی وقت طلحہ تیز قدموں کے ساتھ لاؤنج میں داخل ہوا۔
”السلام علیکم۔” اس نے ماں اور پھوپھو دونوں کو سلام کیا، مگر سلام کرتے ہوئے بھی رکا نہیں سیدھا فون کی طرف گیا۔
”ہیلو…!” اس کے ہیلو کہتے ہی دوسری طرف سے امبر دھاڑی۔
”تمہیں شرم آنی چاہیے طلحہ۔”
”کیا ہوا… تم اتنے غصے میں کیوں ہو…” اس نے بڑے نارمل انداز میں پوچھا۔
”یہ تم اپنے آپ سے پوچھو کہ میں اتنے غصے میں کیوں ہوں؟” اس نے تیز آواز میں کہا۔
”آئی ایم ویری سوری۔” طلحہ نے کچھ کہنا چاہا مگر امبر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تم اپنی ایکسکیوز اپنے پاس رکھو۔ میں اب دوبارہ کبھی تمہارے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی۔ یہ بات تو طے ہے۔”
”اتنا غصہ۔” طلحہ نے اسے جیسے بہلانے کی کوشش کی۔ ”پہلے تم مجھے وضاحت کا موقع تو دو۔”
”مجھے تمہارے Lame Execuses(عذر لنگ) میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔” امبر نے اسی طرح دو ٹوک انداز میں کہا۔
”تم انتہائی جھوٹے اور غیر ذمہ دار انسان ہو دوبارہ کبھی مجھے کہیں ڈنر کے لیے چلنے کے لیے مت کہنا۔ ”امبر کا غصہ اس کی معذرت پر کچھ اور زیادہ ہو گیا تھا۔
”بلیو می امبر… میرے ساتھ واقعی ایک ایمرجنسی ہو گئی تھی، اسی لیے مجھے دیر ہو گئی۔ میں بس کپڑے بدل کر پانچ منٹ میں تمہارے یہاں پہنچتا ہوں۔” طلحہ کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔
”تمہارے ساتھ ہمیشہ ایمرجنسیز ہوتی رہتی ہیں۔ یہ زندگی میں پہلی بار تو نہیں ہوا جب بھی تم نے جھوٹ بولنا ہو تم ہمیشہ کسی ایمرجنسی ہی کی بات کرتے ہو۔”




Loading

Read Previous

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!