تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

“Now don’t try to flatter me papa”
(مجھے بہلانے کی کوشش نہ کریں پاپا!) امبر نے اپنا سر جھٹکتے ہوئے ضدی انداز میں کہا۔ ”مجھے واقعی ایک گاڑی چاہیے۔”
”اچھا لے دوں گا۔” منصور علی نے اس بار جیسے اس کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
”لے دوں گا نہیں، ابھی لے کر دیں… ابھی لے کر جائیں مجھے کسی شوروم میں… ابھی گاڑی بک کروائیں۔” اس نے اسٹیرنگ پر موجود ان کے ہاتھ کو ہلاتے ہوئے کہا۔
”امبر… بیٹا! میں نے کہا ہے ناں میں تمہیں لے دوں گا۔ بلکہ میں تمہیں تمہاری برتھ ڈے پر گاڑی گفٹ کروں گا۔ ابھی تو ہم گھر جا رہے ہیں۔” انہوں نے اس سے کہا۔
”برتھ ڈے پر…؟ پاپا! آپ کو پتا ہے میری برتھ ڈے کتنی دور ہے۔ آپ بس مجھے ٹال رہے ہیں۔ آپ مجھے گاڑی لے کر دینا ہی نہیں چاہتے۔” اس نے یک دم منصور کے ہاتھ سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔ وہ اب بہت سنجیدہ نظر آرہی تھی۔
”امبر! میں…” منصور نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر امبر نے انہیں ٹوک دیا۔
”بس اب کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے گاڑی نہیں چاہیے۔” امبر نے قطعی انداز میں کہا۔
”یہ کیا بات ہوئی جب میں تم سے وعدہ کر رہا ہوں کہ میں تمہیں گاڑی لے دوں گا تو… پھر…”
”نہیں مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے گاڑی کی، اس طرح منتیں کرکے کوئی چیز لینے کا کیا فائدہ، آپ کو اگر مجھ سے واقعی محبت ہوتی تو آپ مجھے بس ایک بار کہنے پر ہی گاڑی لے دیتے۔ آپ چاہتے ہیں میں بار بار آپ سے کہوں… پاپا! آپ کو میرا کوئی احساس نہیں ہے۔” وہ اب واضح طور پر ناراض نظر آرہی تھی۔
”ٹھیک ہے… میں ابھی تمہارے لیے گاڑی بک کروا دیتا ہوں۔” منصور علی نے یک دم گاڑی کا رخ موڑتے ہوئے کہا۔ امبر کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔
”تم مجھے ایموشنلی بلیک میل نہ کیا کرو۔” منصور علی نے اس کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوتے دیکھ کر کہا۔




”کیوں نہ کروں…” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے بابا! جو چاہے کرو۔ مگر یہ گاڑی کا بھوت یک دم تمہارے سر پر کیسے سوار ہوگیا؟” انہوں نے پوچھا۔
”بس ایسے ہی میرا دل چاہا کہ میں کالج خود آیا جایا کروں۔” اس نے بڑی لاپروائی سے کہا۔
”دوبئی میں تو تمہارا کبھی دل نہیں چاہا یہ سب کرنے کو۔”
”وہاں کی بات اور تھی ایک تو وہاں ابھی میرا لائسنس نہیں بن سکتا تھا اور دوسرے میرا دل بھی نہیں چاہا۔ یہاں اب میرا لائسنس بن سکتا ہے اور میرا دل بھی چاہ رہا ہے۔ بس اتنی سی بات ہے۔ اس نے گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔
”کتنے دن تک کے لیے گاڑی کا بھوت سوار رہے گا۔ تمہارے سر پر؟” منصور علی نے بڑے پیار سے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ وہ اپنی بیٹی کی متلون مزاجی سے اچھی طرح واقف تھے۔
”یہ تو نہیں پتا… مگر آپ کو اس سے کیا۔ آپ مجھے بس گاڑی لے دیں۔” اس نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
”اتنے رش میں ڈرائیو کرلو گی؟”
”کرلوں گی۔ پاپا! آپ مجھے جانتے نہیں ہیں۔” اس نے فوراً کہا۔ ”ورنہ یہ سوال نہ پوچھتے۔”
”میں تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں، اسی لیے یہ سوال پوچھ رہا ہوں۔” منصور علی نے فوراً کہا۔
”میرے لیے ڈرائیونگ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔”
”تمہارا ٹمپرامنٹ ایسا ہے کہ تم کسی بھی چیز کو مسئلہ بنا سکتی ہو۔” منصور علی نے لقمہ دیا۔
”آپ کو کیسے پتا؟”
”مجھے پتا ہے۔”
”مگر پاپا! ڈرائیونگ کا ٹمپرامنٹ سے کیا تعلق ہے؟” اس نے بحث والے انداز میں کہا۔
”بہت گہرا تعلق ہے۔ تم بہت غیر محتاط طریقے سے ہر کام کرنے کی عادی ہو اور ڈرائیونگ بہت احتیاط طلب کام ہے۔ خاص طور پر یہاں کی سڑکوں پر۔”
”میں احتیاط کروں گی۔ ریش ڈرائیونگ نہیں کروں گی۔” اس نے فوراً باپ سے وعدہ کرلیا۔
”یہ خاصی ناقابل یقین بات ہے مگر خیر، اب میں اور کیا نصیحت کرسکتا ہوں تمہیں۔” منصور علی نے کچھ بے چارگی سے اپنے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
”آپ کو مجھ پر اعتبار کرنا چاہیے پاپا!” اس نے ان کے انداز کا نوٹس لیتے ہوئے کہا۔
”میں اعتبار کرتا ہوں، اس لیے اسی وقت ہم شوروم جا رہے ہیں مگر تمہیں نصیحت کرنا میرا فرض ہے۔” انہوں نے اس سے کہا۔
”اس کو کیا کہنا چاہیے پاپا؟ جنریشن گیپ؟” امبر نے اچانک شرارتی انداز میں باپ کو مخاطب کیا۔
”اب آپ کو بھی بالآخر نصیحتوں کا شوق ہوگیا ہے؟”
”تم پر میری نصیحتوں کا کیا اثر ہوتا ہے۔ تمہارے لیے تو سب کچھ بے کار ہی ہے۔ تم ہر بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دینے کی عادی ہو۔” منصور علی نے خوش دلی سے ہنستے ہوئے کہا۔
”پاپا! آپ پر نصیحتیں سوٹ نہیں کرتیں، میری آپ سے اسی لیے دوستی ہے کیونکہ آپ کو نصیحتوں کی عادت نہیں تھی مگر اب مجھے لگتا ہے، آہستہ آہستہ آپ بھی اس عادت کا شکار ہو جائیں گے۔ پھر میری اور آپ کی انڈر اسٹینڈنگ ختم ہو جائے گی۔” اس نے جیسے باپ کو ڈرانے کی کوشش کی۔
”فضول باتیں مت کرو امبر۔” منصور علی نے مصنوعی خفگی سے اسے جھڑکا۔
”دیکھیں، اب آپ مجھے پھر ڈانٹ رہے ہیں۔” امبر نے انہیں جتایا۔
”اچھا بابا! نہیں ڈانٹتا تمہیں۔ اب یہ بتاؤ گاڑی کون سی چاہیے؟” منصور علی نے بات کا موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”یہ تو میں شوروم میں جا کر ہی بتاؤں گی۔ یہاں بیٹھے بیٹھے کیسے بتا دوں۔ ہوسکتا ہے، میں آپ کو کسی گاڑی کا نام بتاؤں مگر شوروم میں جا کر مجھے کوئی اور پسند آجائے۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ میں ادھر جا کر ہی آپ کو گاڑی کے بارے میں بتاؤں۔ ہاں، ایک بات میں ضرور آپ کو بتا دیتی ہوں۔ میں شوروم میں موجود سب سے قیمتی گاڑی لوں گی۔” اس نے بڑے لاڈ سے منصور علی سے کہا۔
”میں گاڑی کی قیمت کی بات نہیں کر رہا… تم ایک کے بجائے دو لے لینا۔” منصور علی نے لاپروائی سے کہا۔
”دو کیا کروں گی میں… مجھے تو ایک ہی چاہیے۔ جب اس سے دل بھر جائے گا تب دوسری لے لوں گی۔ ٹھیک ہے پاپا؟” اس نے ایک بار پھر شرارتی انداز میں منصور علی سے کہا۔
”نہیں تب تک تو بہت دیر ہو جائے گی؟” منصور علی نے سنجیدگی سے کہا۔
”کیوں دیر ہو جائے گی؟” وہ چونکی۔
”بھئی، تب تک تو ہم تمہیں طلحہ کے گھر بھجوا چکے ہوں گے۔ وہاں تمہیں ڈرائیور سمیت گاڑی مل جائے گی۔” منصور علی نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔
”پاپا! آپ طلحہ کو ڈرائیور کہہ رہے ہیں؟” وہ فوراً ان کی بات سمجھ گئی۔ ”کتنی بری بات ہے۔ میں اسے بتاؤں گی جب وہ آج شام کو آئے گا۔” اس نے انہیں دھمکی دی۔
”بھئی بھتیجا ہے وہ میرا۔ میں جو چاہے اسے کہہ سکتا ہوں۔ تم دیکھ لینا، اسے بالکل بھی برا نہیں لگے گا۔” انہوں نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے شگفتگی سے کہا۔
”صرف بھتیجا تو نہیں ہے پاپا!” امبر نے فوراً انہیں یاد دلایا۔ ”آپ کا داماد بھی ہے۔ اگر برا مان گیا تو؟”
تمہارے ڈانٹنے پر برا نہیں مانتا تو میرے ڈرائیور کہنے پر کیسے برامان سکتا ہے۔”
”پاپا! آپ بالکل غلط کہہ رہے ہیں، میں نے اسے کبھی بھی نہیں ڈانٹا۔” وہ ناراض ہو گئی۔
”تم نے اگر اسے کبھی نہیں ڈانٹا تو پھر وہ مجھ سے شکایت کیوں کر رہا تھا؟” منصور نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”طلحہ نے آپ سے میری شکایت کی؟” امبر نے بے یقینی سے کہا۔
”ہاں…!”
”کیا کہا اس نے؟”
”بھئی، یہ تومیں نہیں بتا سکتا۔ اس نے مجھے منع کیا ہے۔” منصور علی نے انکار میں سرلاتے ہوئے کہا۔
”پاپا پلیز، مجھے بتائیں، اس نے آپ کو کیا کہا ہے؟” وہ ضد کرنے لگی۔
”بھئی میں نے اس سے وعدہ کیا ہے۔” منصور علی نے کہا۔
”مجھے نہیں پتا… آپ نے وعدہ کیا ہے یا نہیں، بس آپ مجھے بتائیں، اس نے میرے بارے میں آپ سے کیا کہا ہے؟” وہ ان کا بازو ہلانے لگی۔
منصور علی بے اختیار ہنسے۔ ”تمہیں بتا دیا تو تم کیا کرو گی؟”
”میں… آپ… دیکھئے گا میں اس کا کیا حشر کروں گی جھوٹ بولنے پر۔”
”میں مذاق کر رہا تھا۔ اس نے مجھ سے کچھ بھی نہیں کہا۔”
”آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔” امبر نے بے یقینی سے کہا۔
”نہیں بول رہا اب نیچے اترو اگر گاڑی چاہیے تو۔”
انہوں نے گاڑی روکتے ہوئے کہا، امبر کچھ ہچکچاتے ہوئے ان کے ساتھ اتر آئی۔
٭٭٭
”اچھا، مجھے ذرا وہ والا جوتا نکال کر دکھائیں۔” منیزہ نے شوکیس میں لگے ہوئے ایک اور جوتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیلز مین سے کہا۔ سیلز مین برق رفتاری کے ساتھ اس شوکیس کی طرف گیا اور شیشے پر ہاتھ رکھ کر ان سے پوچھنے لگا۔
”اس جوتے کے بارے میںکہہ رہی ہیں آپ؟”
”نہیں یہ نہیں، اگلے والا، وہ بلیک اسٹریپس والا” منیزہ نے اس کی رہنمائی کی۔
”ہاں یہی والا۔” سیلز مین نے ان کے مطلوبہ جوتے پر ہاتھ رکھا تو انہوں نے کہا۔ سیلز مین اپنے ساتھی سیلز مین کو جوتے کا نام اور نمبر اور سائز بتانے لگا تاکہ وہ اندر سے وہ جوتا لے آئے۔
”جتنی دیر میں وہ جوتا لاتا ہے، تم ذرا میرا بل بنوا دو” منیزہ نے سیلز مین سے کہا۔
”نہیں۔ ابھی تو میں نے آپ کو اور بھی بہت سے جوتے دکھانے ہیں۔” سیلز مین نے خوشامدی انداز میں کہا۔
پاکستان مستقل طور پر واپس آجانے کے چند ماہ میں ہی لاہور کی بڑی بڑی مارکیٹوں میں لگنے والے ان کے چکروں اور بے تحاشا خریداری نے دکانداروں اور سیلز مینوں کو ان کے چہرے سے خاصا شناسا کر دیا تھا۔
منیزہ شاپنگ کرتے ہوئے حجت کی عادی نہیں تھیں۔ انہیں کبھی اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی۔ کیونکہ انہیں کبھی کوئی چیز مہنگی نہیں لگی تھی۔ خاص طور پر وہ چیز جو انہیں پسند آجاتی اور دکاندار کے لیے ایسا گاہک خدا کی خاص نعمت ہوتا ہے۔
دوکانوں پر انہیں خاص اہمیت دی جاتی، دکاندار ان کے سامنے بچھ بچھ جاتے اور منیزہ دھڑا دھڑ ان کی دکھائی ہوئی چیزیں منہ مانگے داموں خریدتی جاتیں۔
شاپنگ کے خبط کا شکار وہ منصور علی سے شادی کے بعد ہوئی تھیں اور یہ خبط دن بدن بڑھتا ہی گیا تھا۔ پچھلے کئی سالوں سے انہیں جتنا سکون اور خوشی بازاروں میں پھرتے ہوئے ملتی تھی اتنا سکھ اور کہیں نہیں ملتا تھا۔
ہر دوسرے تیسرے دن وہ کسی نہ کسی مارکیٹ میںموجود ہوتیں اور پھر بغیر کسی ضرورت کے دھڑا دھڑ چیزیں خریدے جاتیں۔
پاکستان آنے کے بعد بھی اس جنون میں کوئی کمی نہیں آتی تھی۔ بلکہ اضافہ ہو گیا تھا، انہیں دوبئی کی نسبت پاکستان سستا لگا تھا۔ یہاں انہیں ایک اور سہولت بھی حاصل تھی وہ اپنی کی گئی شاپنگ کو شو آف کے لیے بھی استعمال کر سکتی تھیں کیونکہ ان کے سارے رشتہ دار یہیں تھے جب کہ دوبئی میں جن گھروں میں ان کا آنا جانا تھا وہ سب ہی بہت ویل آف تھے اور ان کی عورتیں بھی ان کی طرح روپیہ اڑانے پر یقین رکھتی تھیں وہ وہاں کسی کومتاثر نہیں کر سکتی تھیں۔
پاکستان میں معاملہ دوسرا تھا۔ یہاں پر وہ خاندان کے چند امیر ترین گھرانوں میں سے ایک کا حصہ تھیں اور پیسے کو بے مقصد ضائع کرنے میں انہیں کمال حاصل تھا خاندان میں دوسری کوئی عورت ان کی طرح پیسہ خرچ نہیں کر تی تھی شاید کر ہی نہیں سکتی تھی۔
خاندان کی عورتوں کو منیزہ پر رشک آتا تھا۔ خاندان میں ہونے والی کسی بھی تقریب میں انہوں نے کبھی ایسا زیور نہیں پہنا تھا جو وہ اس سے پہلے پہن چکی ہوتیں جوتے اور کپڑے تو خیر بہت ہی معمولی چیزوں میں آتے تھے۔ پورے خاندان کو تجسس رہتا آخر ان کے پاس کتنا سونا اور زیورات تھے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آتے تھے ہر ایک کو یہ حیرت ہی تھی کہ کبھی وہ منیزہ کو کوئی ایسا زیور پہنے دیکھ لیں جو دوسری بار پہنا گیا ہو۔ منیزہ نے کسی کو ایسا موقع ہی نہیں دیا وہ اس معاملے میں ضرورت سے زیادہ محتاط تھیں۔
اگرچہ ان سے شادی سے پہلے بھی منصور علی کا بزنس بہت اچھا تھا مگر ان سے شادی کے بعد تو جیسے پیسہ برسنے لگا تھا۔ بیس سالوں میں ان کے بزنس نے انہیں کہیں کا کہیں پہنچا دیا تھا اور منصور علی اس سب کو منیزہ کی طرح اس کی خوش قسمتی کا اعجاز سمجھتے تھے نہ صرف وہ بلکہ پورا خاندان بھی۔




Loading

Read Previous

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!