تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

”میں سچ کہہ رہا ہوں امبر…! کم از کم اس بار جھوٹ نہیں بول رہا۔” طلحہ نے جلدی سے کہا۔
”بہتر ہے تم اس بار بھی جھوٹ ہی بولو اور دوبارہ کبھی مجھے اپنی شکل بھی نہ دکھاؤ۔” امبر نے ترشی اور تلخی سے کہا۔
”امبر! میں ایکسکیوز تو کر رہا ہوں۔” طلحہ کی جان پر بن آئی۔ امبر کا غصہ خاصا مشہور تھا۔
”میں تمہیں بتا چکی ہوں، تمہارے ایکسکیوزز کی ضرورت نہیں ہے مجھے۔ تم انہیں اپنے پاس رکھو۔” امبر نے غصے سے فون پٹخ دیا طلحہ نے کچھ مایوسی سے ریسیور کو دیکھا اور پھر اسے رکھ دیا۔
دور صوفہ پر بیٹھی ہوئی شبانہ اور منورہ اس کی امبر کے ساتھ ہونے والی گفتگو سنتی رہی تھیں۔ طلحہ کو اس طرح مایوسی کے عالم میں ریسیور رکھتے دیکھ کر شبانہ نے اس سے پوچھا۔
”کیا ہوا… امبر سے جھگڑا ہو گیا ہے؟” شبانہ کے سوال پر وہ منورہ کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ جھینپے ہوئے انداز میںمسکرایا۔
”تم آخر تھے کہاں… جب تم نے اس کو ڈنر کے لیے ساتھ لے جانے کا کہا تھا تو پھر وقت پر اس کے ہاں چلے جاتے۔” شبانہ نے اس سے کہا۔
”میں تو وقت پر ہی فیکٹری سے نکلا تھا پہلے رستے میں ایک دوست سے ملاقات ہو گئی۔ اس سے باتوں میں کچھ وقت ضائع ہوا اور جب وہاں سے آنے لگا تو ایک بزنس پارٹنر نے فون کرکے بلوا لیا۔ باہر سے کوئی پارٹی آئی تھی اور مجھے ایمرجنسی میں وہاں جانا پڑا۔ کیونکہ وہ آج کی فلائٹ سے جارہے تھے۔ امبر سے یہ سب کہتا تو وہ زیادہ ناراض ہوتی۔ مجھے خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ اتنی دیر ہو جائے گی۔ میرا اندازہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ لگے گا۔ اسی لیے میں نے امبر کو فون نہیں کیا۔ میٹنگ میں پتا ہی نہیں چلا۔” طلحہ نے ماں کو وضاحت دی۔




”تم کپڑے تبدیل کرکے اس کے ہاں چلے جاؤ۔ اسے بتا دینا یہ سب کچھ۔” شبانہ نے اس سے کہا۔
”ہاں، جاتو میں وہیں رہا ہو مگر وہ جس حد تک ناراض ہے مجھے تو مشکل ہی لگتا ہے آج اس کا ماننا۔” طلحہ نے لاؤنج سے نکلتے ہوئے کہا۔
”تم دونوں ماں بیٹے اسے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سر پر نہیں چڑھا رہے؟”
طلحہ کے لاؤنج سے نکلتے ہی منورہ نے شبانہ سے کہا۔ وہ بہت ناگواری سے پچھلے آدھ گھنٹہ سے فون پر امبر کی شبانہ اور طلحہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو سنتی رہی تھیں۔
”ابھی تو وہ اس گھر میں آئی بھی نہیں اور تم دونوں پر اس کے رعب کا یہ عالم ہے تو یہاں آجانے کے بعد کیا ہو گا؟” انہوں نے کچھ تمسخر آمیز انداز میں شبانہ سے کہا۔
”ہم لوگوں نے اسے کیا سر پر چڑھانا ہے۔ یہ سب تو منصور کا کمال ہے۔ اس نے اتنے لاڈ پیار میں اس کی پرورش کی ہے کہ وہ اب ہر ایک کو اپنی جاگیر سمجھنے لگی ہے۔” شبانہ نے منورہ کی بات کے جواب میں کہا۔
”منصور نے لاڈ پیار سے اس کی پرورش کی ہے تو اسے وہیں تک رہنے دو۔ تم لوگ بھی اس طرح گھٹنے ٹیکتے پھرو گے تو وہ تو یہاں آنے کے بعد بالکل ہی گھاس نہیں ڈالے گی تمہیں۔” منورہ نے جیسے شبانہ کو وارننگ دی۔
”گھاس تو خیر وہ اب بھی نہیں ڈالتی… مگر آخر کیا کیا جائے۔” شبانہ نے کہا۔
”کیا کیا جائے؟” منورہ نے حیرت سے شبانہ کو دیکھا۔ ”تم اس کی ساس ہو اور تم پوچھ رہی ہو کہ کیا کیا جائے…”
”میں اس کی ساس ضرور ہوں مگر ان معاملات میں مجھے کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔” شبانہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”کیوں اختیار حاصل نہیں ہے؟” منورہ نے کچھ حیرت سے کہا۔
”آپ کے بھائی نے کھلی ڈھیل دے رکھی ہے بیٹے اور بھتیجی کو… ان کا فرمان ہے کہ میں امبر سے کسی معاملے میں کوئی الٹی سیدھی بات نہ کروں۔ میں اگر اس کے بارے میں کچھ کہوں بھی تو طلحہ اور مسعود دونوں کو برا لگتا ہے، دونوں ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ پھر میں آخر کیا کہہ سکتی ہوں۔” شبانہ نے جیسے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
”بس مسعود کی ان ہی باتوں پر تو مجھے غصہ آتا ہے، منصور کے ساتھ بزنس کیا کر رہا ہے اس کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔ بڑے بھائیوں والا رکھ رکھاؤ اور ادب آداب تو اس نے بالکل رکھے ہی نہیں۔” منورہ نے بلند آواز میںمسعود کے لیے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
”بزنس کیا کر رہے ہیں۔ منصور کے طفیلی بن کر رہ گئے ہیں۔ منصور نے ہر چیز اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے۔ مسعود اور میرے بیٹوں کو تو صرف ملازم کے طور پر ہی رکھا ہے۔” شبانہ کو دل کی بھڑاس نکلانے کا موقع مل رہا تھا۔
”مسعود کو منصور کے ساتھ بزنس کرنا ہی نہیں چاہیے تھا اچھا بھلا اپنا کام کر رہا تھا۔ خوامخواہ کا شوق اٹھا منصور کے ساتھ کام کرنے کا۔ چھوڑ کیوں نہیں دیتا اس کی پارٹنر شپ۔ اب شروع کرلے اپنا بزنس۔” منورہ نے فوراً کہا۔
”یہ بات آپ مجھ سے کہہ رہی ہیں، کبھی ان سے کہہ کر دیکھیں۔ سو باتیں سنائیں گے آپ کو۔ ان کے دماغ پر تو منصور علی کی محبت کا بھوت سوار ہے۔ آپ سے پہلے ہزار دفعہ میں ان سے یہی سب کچھ کہہ چکی ہوں، مگر ان کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا ہے تم چاہتی ہو میں اپنے بھائی کو اکیلا چھوڑ دوں۔ اس کا سہارا نہ بنوں، احمق عورت! تم مجھے اپنے بھائی سے الگ کر دینا چاہتا ہو۔” شبانہ نے کچھ مبالغہ آمیزی کرتے ہوئے منورہ کی ہمدردیاں وصول کرنے کی کوشش کی۔
”لو اس میں حماقت والی کیا بات ہے منصور کو آخر کسی کے سہاروں کی کیا ضرورت ہے… بیٹا ہے اس کا، ابھی چھوٹا ہے تو کیا ہوا، کل کو بڑا ہو جائے گا۔ مسعود تو خوامخواہ اس کی ہمدردی اور محبت میں مر رہا ہے۔ جب منصور کا بیٹا بڑا ہو گا تو تم دیکھ لینا، وہ طلحہ اور اسامہ دونوںکو اپنے بزنس سے اٹھا کر باہر پھینک دے گا۔” منورہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔
”آپا! میں آخر کر کیا سکتی ہوں۔ یہ سارے مسعود کے فیصلے ہیں اور آپ کو تو پتا ہے، وہ فیصلہ کرتے ہوئے کسی سے کچھ پوچھتے ہیں، نہ کسی کی سنتے ہیں۔ ان باتوں کا احساس تو انہیں خود ہونا چاہیے۔” شبانہ نے ایک بار پھر سارا الزام مسعود کے کندھوں پر رکھتے ہوئے کہا۔
”اور اب تو ویسے بھی وہ کہتے رہتے ہیں کہ منصور کے ساتھ ان کا دوہرا اور تہرا رشتہ ہے۔ اب تو انہیں اور زیادہ فکر ہوتی رہتی ہے منصور کی۔” شبانہ نے کچھ بیزار انداز میں کہا۔
”یہ دہرے اور تہرے رشتے بھی تم لوگوں نے کسی سے پوچھے بغیر جوڑ لیے تھے قریب کے لوگ تم کو نظر آئے ہی نہیں اور تم نے منہ اٹھا کر اس کی بیٹیوں سے اپنے بیٹوں کے رشتے کر لیے۔…” منورہ نے کچھ چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”آپا! یہ بھی مسعود ہی کا فیصلہ تھا۔ مجھ سے کہا ںکسی نے کچھ پوچھا تھا۔ مجھے تو خود مسعود نے تب بتایا جب وہ منصور سے اس سلسلے میں بات کر چکے تھے۔” شبانہ نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا ”میں نے تو بہت اعتراض کیا تھا مگر ان دنوں تو مسعود کے سر پر منصور کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا بلکہ آج تک یہی حا ہے۔”
”منصور کا نہیں اس کے پیسے کا جادو بول رہا تھا۔ مسعود کو منصور کے ساتھ بزنس کرنے کا جو خبط سوار ہو گیا تھا۔ اسی لیے تو تم دونوں کو منصور اورمنیزہ کے علاوہ ان دنوں کوئی نظر ہی نہیں آتا تھا۔”
منصورہ کی صاف گوئی پر شبانہ کے ماتھے پر چند بل پڑ گئے۔
”آپا! ہمیں ان کے ساتھ بزنس کرنے کا شوق نہیں تھا، یہ شوق منصور کو تھا، اسی نے اصرار کیا کہ مسعود بھی اس کے ساتھ شامل ہو ںاور جب اس نے بہت اصرار کیا تو مسعود کو اس کی بات ماننا پڑی اور میں نے تو کسی موقع پر بھی اس چیز کو پسند نہیں کیا اپنا بزنس چھوڑ کر دوسرے کے ساتھ چند پرسنٹ کے شیئر کا پارٹنر بن جانا کیا معنی رکھتا ہے۔ میں تو آج تک مسعود کو سمجھاتی آرہی ہوں۔” شبانہ نے ایک بار پھر جھوٹ کا سہارا لیا۔
”خیر جو بھی ہوا مگر اب ان دونوں کو ان کی حد میں رکھو… منصور اور منیزہ نے اگر انہیں بگاڑا ہوا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم بھی انہیں آسمان پر بٹھا دو اور اپنے بیٹوں سے بھی کہا کرو کہ اتنی خوشامدیں مت کیا کریں ان کی۔ پیروں کے نیچے بس بچھے ہی چلے جاتے ہیں۔ کچھ تو سوچیں، شوہر ہیں وہ ان کے۔” منورہ نے بات کا موضوع پھر تبدیل کرتے ہوتے کہا۔
”کل کو دونوں یہاں آجائیں گی تو تمہارے بیٹے تو سلام دعا سے بھی جائیں گے۔ پھر کیا کرو گی۔ سر پر ہاتھ رکھ کر روؤ گی۔ مگر کیا فائدہ… بہتر ہے، آج ہی ان دونوں کو ان کی اوقات میں رکھو۔” منورہ نے بڑے ہمدردانہ انداز میں شبانہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا۔
”اور یہ ڈنر وغیرہ کا کیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے دونوں نے۔ منع کرو تم طلحہ کو، اس طرح ساتھ لیے کیوں پھرتا ہے، ابھی وہ کون سی رخصت ہو کر یہاں آگئی ہے؟” انہیں اب ڈنر پر اعتراض ہونے لگا۔
”آپا! دونوں نئے دور کے بچے ہیں۔ میری کہاں سنتے ہیں۔ میں طلحہ سے کہوں تو وہ برامان جاتا ہے کہتا ہے جب منصور چچا اور منیزہ چچی کو امبر کے ساتھ جانے پر اعتراض نہیں ہے تو مجھے کیوں ہے۔ اگر وہ لڑکی کے ماں باپ ہو کر اتنے لبرل ہو سکتے ہیں تو میں لڑکے کی ماں ہو کر اتنی تنگ نظر کیوں ہوں اب آپ خود ہی بتائیں میں کیا کہوں… آئے دن تو وہ خود بھی یہاں موجود ہوتی ہے اور نہ آئے تو مسعود خود فون کرکے بلواتے رہتے ہیں پھر میں کس کو سمجھاؤں اور کیسے۔” شبانہ نے بڑے بیزار انداز میں کہا۔
”منصور اور منیزہ نے تو انگریزوں کی طرح تربیت کی ہے اولاد کی۔ کسی قابل نہیں چھوڑا۔ اب جو لباس پہنے پھرتی ہیں اس کی بیٹیاں، خاندان میں کوئی دوسرا پہن لے تو ہنگامہ مچ جائے مگر اس کی بیٹیوں پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔” منورہ کو ایک اور موضوع مل گیا۔
”سعدیہ مجھے بتا رہی تھی کہ جب سے منصور نے اسے اپنی گاڑی لے دی ہے، وہ سارا دن اپنی دوستوں کے ساتھ غائب رہتی ہے۔ کئی بار تو محسن نے بھی اسے ہوٹلز میں دیکھا ہے۔”
”آپا! میں اس کے بارے میں کیا کہوں… میں تو پہلے ہی آپ کو بتا رہی ہوں کہ یہ سب منیزہ اور منصور کی غلطی ہے۔ انہوں نے اولاد کی اچھی تربیت نہیں کی، اب کل کلاں کو اگر میں اسے کسی بات پر روکوں گی تو سب کہیں گے کہ میں ساس ہوں، پتا نہیں میرے دل میں کیا ہے جو میں اس پر پابندیاں لگا رہی ہوں یہ سب کچھ تو خود منیزہ اور منصور کو ہی سوچنا ہو گا۔”
انہوں نے ایک دم پھر ذمہ داری کا پلندہ ان دونوں کے کندھوں پر منتقل کیا۔
”لو… تم خود انہیں کچھ نہیں کہہ سکتیں تو طلحہ اور اسامہ کو کہا کرو۔ وہی سمجھائیں انہیں کم از کم لباس تو ڈھنگ کا پہنیں۔ یہ جو ہر وقت جینز چڑھائے پھرتی ہے اس سے تو چھٹکارا ملے۔” منورہ نے کہا۔
”آپ کو کیا پتا، میں کئی بار طلحہ کو کہہ چکی ہوں مگر امبر اس کی کہاں سنتی ہے۔ اسے تو یہی خوف رہتا ہے کہ وہ کچھ کہے گا تو امبر ناراض ہو جائے گی اور منصور یا مسعود سے اس کی شکایت کرے گی۔”
”اتنا خوفزدہ ہے تمہارا بیٹا اس سے؟” منورہ نے کچھ طنزیہ انداز میں کہا۔
”بات خوفزدہ ہونے کی نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے، ا سکی شکایت پر منصور اور مسعود فوراً اسے ہی لعن طعن کرنے بیٹھ جائیں گے۔ آپ خود سوچیں، جب باپ اور تایا کو اس کے لباس پر اعتراض نہیں ہوتا تو پھر طلحہ کا اعتراض کیا معنی رکھتا ہے۔” شبانہ نے اپنے بیٹے کا دفاع کرتے ہوئے کہا۔
”یہ تو کہہ رہی ہوں میں کہ تم سب لوگوں نے مل کر اسے بہت چھوٹ دے رکھی ہے اچھے گھرانے کی لڑکیوں کے یہ طور طریقے تو نہیں ہوتے جس طرح منیزہ سارا دن بازارو ںمیں پھرتی رہتی ہے۔ اسی طرح اس کی بیٹیاں بھی پھرتی رہتی ہیں، نہ ان کی ماں کو گھر میں کوئی دلچسپی ہے نہ بیٹیوں کو، نوکروں کے سر پر گھر چھوڑا ہوا ہے اس عورت نے… مجھے تو منصور کی کم عقلی پر حیرت ہوتی ہے۔ مجال ہے، وہ کبھی ان کو اپنے قابو میں رکھنے کی کوشش کرے۔” منورہ کو اب بھائی پر بھی غصہ آرہا تھا۔
”یہ سب کچھ منصور کی حماقت کی وجہ سے ہی ہو رہا ہے۔ اگر اس نے گھر میں اپنا کوئی رعب رکھا ہوتا تو اس کی اولاد کی تربیت بھی صحیح ہوتی۔ منیزہ نے بیٹیوں کو ڈھنگ سے بات کرنے کی تمیز تک نہیں سکھائی۔ ہیلو ہائے کے علاوہ کبھی ان کی زبان سے کچھ نہیں نکلا او رمجال ہے کبھی انہوں نے میرا حال چال پوچھا ہو یا میرے پاس بیٹھنے کی کوشش کی ہو۔ امبر یہاں آتی ہے آتے ہی طلحہ کے پاس چلی جاتی ہے یا پھر دونوں باہر چلے جائیں گے ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ وہ میرے یا امینہ کے پاس بیٹھنے کی کوشش کرے۔ میں اور امینہ خود ہی ڈھیٹوں کی طرح اس کے پاس جا کر بیٹھتے ہیں اور اگر کبھی مسعود سے اس بات کی شکایت کرو۔ تو ان کی زبان پر ایک ہی بات ہوتی ہے۔ امبر ابھی بچی ہے، ویسے بھی اس نے اس گھر میں ہی آنا ہے۔ سارا دن تمہارے پاس ہی رہے گی۔ میرا تو منہ بند کر دیتے ہیں وہ۔ میں کیا کہہ سکتی ہوں۔”
شبانہ کو اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع مل رہا تھا۔
”مجھے تو ہر وقت یہی خیال رہتا ہے کہ کل کو ہم تمہارے گھر آئیں گے تو اس طرح کہ بہوئیں جو تمہیں نہیں پوچھتیں وہ ہمیں کیا پوچھیں گی۔ حالانکہ بھتیجیاں ہیں میری، مگر منیزہ نے تربیت ایسی کی ہے کہ ان کے گھر جاؤ تو دو منٹ کے لیے بھی پاس نہیں بیٹھیں گی۔ ہاتھ لہراتے ہوئے آئیں اور ہاتھ لہرائے ہوئے چلی جائیں گی۔ خاندان میں ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی موجود تھی، مگر تم نے اپنے بیٹوں کی قسمت پھوڑی بھی تو کہاں پھوڑی۔” منورہ نے اظہار افسوس کیا۔
”بس آپا! اب تو جو ہونا تھا ہو گیا۔ میں نے تو پہلے بھی آپ سے کہا ہے اس سب میں میرا کوئی قصور نہیں ہے آپ کے بھائی کے ہی فیصلے ہیں یہ سب… میرے اختیار میں ہوتا تو میں تو سعدیہ کو بیاہ کر لاتی۔”
انہوں نے جان بوجھ کر منورہ کی بیٹی کا نام لیا۔
”ارے چھوڑو، سعدیہ کی کیا بات کرتی ہو۔ اس کے لیے تو بہتیرے رشتے آتے رہتے ہیں۔ میری تو بڑی خواہش تھی کہ بھائی کے ہاں اس کی شادی ہو مگر تم لوگوں نے تو…”
وہ بڑبڑا کر چپ ہو گئیں شاید پہلی بار شبانہ نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
”آپا! آپ ساری باتیں چھوڑیں۔ چائے پئیں اور یہ کیک لیں۔ میں نے آپ کے لیے بنوایا تھا خانساماں کے سر پر کھڑے ہو کر۔”
شبانہ نے بات کا موضوع بدلتے ہوئے کیک کی پلیٹ اٹھا کر ان کے سامنے کی۔
٭٭٭
”السلام علیکم آنٹی۔” طلحہ نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہی کہا۔ منیزہ، روشان اور صبغہ ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھنے میں مصروف تھے۔
”وعلیکم السلام!” منیزہ نے مسکرا کر کہا۔
”آپ کیسے ہیں طلحہ بھائی؟” صبغہ نے ریموٹ سے ٹی وی کا والیم کم کرتے ہوئے پوچھا۔
”میں کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوں۔” طلحہ نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”تم کہاں تھے… امبر دو گھنٹے تمہارا انتظار کرتی رہی ہے۔” منیزہ نے اس سے پوچھا۔
”آنٹی! بس میں ایک جگہ پھنس گیا تھا۔” طلحہ نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا ”جیسے ہی وہاں سے فارغ ہوا ہوں سیدھا یہیں آیا ہوں… بلکہ اڑتا ہوا یہاں آیا ہوں۔”
”مگر اب کیا فائدہ… وہ تو ناراض ہو کر اپنے کمرے میں چلی گئی ہے۔” منیزہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”آنٹی! آپ اس سے جاکر کہیں… آپ یکھیں، میں آ تو گیا ہوں۔” طلحہ نے کچھ منت آمیز انداز میں کہا۔
”میرے کہنے سے کہاں آئے گی وہ…؟ تمہیں تو اندازہ ہے اس کے مزاج کا… ابھی وہ یہیں تھی… اپنے کمرے میں جاتے ہوئے وہ کہہ کر گئی ہے، ہم میں سے کوئی تمہارے آنے پر اسے بلانے کے لیے اس کے کمرے میں نہ آئے۔” منیزہ نے اسے بتایا۔
”طلحہ بھائی! میں اسے بلا کر لاتی ہوں۔” صبغہ نے منیزہ کی بات ختم ہوتے ہی اٹھتے ہوئے کہا۔
طلحہ کے چہرے پر پہلی بار کچھ اطمینان نظر آیا۔ ”تھینک یو صبغہ۔”
”کوئی بات نہیں۔”




Loading

Read Previous

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!