تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

کالج میں ہونے والے سالانہ ورائٹی پروگرام کی تیاری اپنے عروج پر تھی… مختلف آئٹم کے لیے آڈیشنز ہو رہے تھے۔
امبر بھی اس دن اپنی فرینڈز کے ساتھ اس فیشن شو کے لیے آڈیشن دینے آئی تھی جو ان آئٹمز میں سے ایک تھا۔
”یہ تو طے ہے کہ تمہیں رکھ لیا جائے گا۔” سونیا نے امبر کے ساتھ چلتے ہوئے تبصرہ کیا۔
”یہ تمہیں کیسے پتا؟” امبر نے کہا۔ ”تمہیں نہیں رکھیں گے تو اور کسے رکھیں گے… یہ تو اوپن سیکرٹ ہے۔” فلزہ نے سونیا کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
”ماڈلنگ Looks کے علاوہ اور ہے کیا اور بات اگر Looks کی آئے گی تو پھر کم از کم اس فیشن شو میں تمہارا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔”
اس بار اس کی کزن سعدیہ نے تبصرہ کیا۔ وہ سب بڑے اطمینان سے چہل قدمی کرتے ہوئے اپنے مطلوبہ کمرے کی طرف جارہی تھیں۔
”بات صرف Looks کی نہیں ہے۔ کیٹ واک کا مسئلہ ہے، سب کے سامنے کیٹ واک کرنا بہت مشکل ہے۔” امبر نے کہا۔
”بکواس مت کرو، کتنی منتوں سے تمہیں لے کر آئے ہیں اور اب تم یہاں آکر پھر حماقت کا مظاہرہ کر رہی ہو۔” منزہ نے اسے ڈانٹا۔
”میں تمہیں اتنا بزدل نہیں سمجھتی تھی امبر…! میرا خیال تھا تم میں اتنا اعتماد ہے کہ تم…”
امبر نے کچھ چڑتے ہوئے اس کی بات کاٹی۔ ”بار بار اعتماد پر کیوں آجاتے ہو تم لوگ… یا پھر بزدلی کا راگ الاپنے لگتے ہو، اب اعتماد ثابت کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ میں کیٹ واک کروں۔”
”ٹھیک ہے اعتماد کی بات نہیں کرتے… مگر اب تم سارا پروگرام خراب مت کرنا۔ جب طے کیا ہے کہ سارا گروپ اس فیشن شو کے لیے آڈیشن دے گا توپھر سارا گروپ ہی دے گا۔” حفصہ نے مداخلت کی۔
”اور آڈیشن میں جب دھڑا دھڑ فیل ہوں گے تو جتنی بے عزتی ہو گی اس کے بارے میں بھی کچھ سوچا ہے… پورے کالج کی لڑکیاں ہنسیں گی کہ بڑا گئی تھیں ماڈل بننے۔” امبر نے اپنے خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”فیل اگر کوئی ہو گا تو ہم میں سے ہوگا… تم دیکھ لینا تمہیں مسز علوی کتنے آرام سے سلیکٹ کر لیں گی۔” سونیا نے جیسے اسے تسلی دی۔
”میری کوئی رشتہ دار تو ہیں نہیں وہ کہ بڑے آرام سے رکھ لیں اور سوچو انہو ںنے رکھ بھی لیا تو فنکشن والے دن کتنی شرمندہ ہوں گی وہ جب میں رن وے پر بے ہوش ہو جاؤں گی۔” امبر نے کہا۔




”کچھ نہیں ہو گا اول تو تم بے ہوش ہوتی ہی نہیں اور فرض کرو تم بے ہوش ہو بھی گئیں تو ہم کس کے لیے ہیں۔” فلزہ نے کہا۔
”بے ہوش تم نہیں دیکھنے والے ہوں گے جن پر تم اپنے حسن کی بجلیاں گراؤ گی۔” حفصہ نے لہجہ کو حتی المقدور رومانٹک بنا کر کہا۔
امبر کو بے اختیار ہنسی آئی۔ ”سارے تھرڈ ریٹ ڈائیلاگز تم نے اسٹاک کیے ہوتے ہیں۔ حفصہ! ہر غلط موقع پر تم انہیں استعمال کرتی ہو۔”
”آخر ہم بھی تو آڈیشن کے لیے جارہے ہیں، ہم تو نروس نہیں ہیں آخر تم ہی کیوں نروس ہو۔” سونیا نے کہا۔
”میں پہلی دفعہ ایسے احمقانہ کام میں حصہ لینے جارہی ہوں اس لیے۔”
”ہم بھی پہلی دفعہ ہی بقول تمہارے اس احمقانہ کام میں حصہ لینے جارہے ہیں اور لگتا ہے پورا کالج اس احمقانہ کام کے لیے آیا ہوا ہے۔” سونیا نے دور سے ہی ہال کے باہر لڑکیوں کے ہجوم کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں یہ سب لوگ صرف اس فیشن شو کے لیے نہیں آئے اور بھی دو تین آئٹمز کا آڈیشن یہیں ہو رہا ہے۔” سعدیہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”میں تو یہ سوچ کر ڈر گئی تھی کہ اتنی تعداد کا مطلب ہے کہ آڈیشن کے لیے بھی لائن میں لگنا پڑے گا۔” امبر نے جیسے سکون کا سانس لیا۔
وہ سب ہال میں داخل ہو گرگئیں۔ مسز علوی نے ان کے تقریباً پورے گروپ کو ہی اوکے کر دیا تھا۔ ان سب کو اس کی توقع بھی تھی کیونکہ اپنی Looks کی وجہ سے ان کا گروپ کالج کے چند نمایاں ترین گروپس میں سے ایک تھا۔
خاصے پُرجوش انداز میں وہ سب ہال سے نکل رہی تھیں جب مسز علوی کی طرف سے امبر کو دوبارہ بلایا گیا۔ باقی سب بھی امبر کے ساتھ ہی دوبارہ واپس پلٹ گئیں۔
”امبر! آپ مسز عاکف سے مل کر جائیں۔” مسز علوی نے امبر کو دیکھتے ہی کہا۔
”وہ کس لیے؟” امبر نے کچھ حیرانی سے کہا۔ ”انہیں اپنے پلے کے ایک کردار کے لیے ایک لڑکی کی ضرورت تھی۔ میں نے انہیں آپ کا نام دیا ہے۔” مسز علوی نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
”ایکٹنگ؟” امبر نے بے ساختہ کہا۔ ”میم! یہ تو بالکل امپاسبل ہے۔”
”کیوں؟… امپاسبل والی کون سی بات ہے اس میں؟” مسز علوی نے کہا۔
”مجھے تو ایکٹنگ کے سر پیر کا پتا نہیں ہے، میں تو اس فیشن شو کے لیے بھی ان لوگوں کے گھسیٹنے پر آئی ہوں۔” امبر نے صاف صاف کہا۔
”کوئی بات نہیں۔ اب ایکٹنگ تم میرے کہنے پر کر لو۔” مسز علوی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”میم! مجھے ایکٹنگ کا بالکل کچھ پتا ہی نہیں ہے، میں کیسے کرلوں۔” وہ اب بھی ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔
”بھئی، خوبصورت چہروں کی بڑی ضرورت ہے ہمیں اور اگر آپ جیسی لڑکیوں کے کواپریشن کا بھی یہی حال رہا تو پھر تو فنکشن کتنا کامیاب ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ آپ لگا سکتی ہیں۔” مسز علوی نے بے تکلفی سے کہا۔
”ایکٹنگ کی آپ فکر نہ کریں۔ یہاں پروفیشنل کون بیٹھا ہے سب لوگ اسی طرح ہاتھ پیر ماریں گے جس طرح آپ ماریں گی۔ باقی مسز عاکف آپ کو سمجھا دیں گی۔”
مسز علوی نے کہا۔
اس سے پہلے کہ وہ ایک بار پھر انکار کرتی… سونیا نے برق رفتاری سے گفتگو میں مداخلت کی۔ ”میڈم ہم خود امبر کو مسز عاکف کے پاس لے کر جائیں گے، آپ فکر ہی نہ کریں۔”
”مگر میں۔” امبر نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر سونیا نے اس کی بات کاٹ دی۔
”مسز عاکف سے ملنے میں کیا ہرج ہے پلے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ تم بعد میں بھی کر سکتی ہو۔”
اس سے پہلے کہ امبر مزید کچھ کہتی حفصہ نے مسز علوی سے کہا۔ ”کیا اب ہم جاسکتے ہیں؟”
”ہاں بالکل۔” مسز علوی نے اس سے کہا۔
”امبر کچھ ناراضی کے عالم میں ان کے ساتھ ہال سے باہر نکل آئی۔
”یہ فیشن شو کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر ایکٹنگ میرے بس کی بات نہیں ہے کوئی ٹیلنٹ کا ڈھیر نہیں چھپا ہوا میرے اندر جسے تم سب لوگ باہر نکالنے کی کوشش کر رہے ہو۔” وہ اب خاصی ناراض نظر آرہی تھی۔
”تم بہت ناشکری ہو۔” سونیا نے جیسے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”تمہیں کیسے کیسے گولڈن چانس مل رہے ہیں کالج میں مشہور ہونے کے اور تم احمقوں کی طرح انہیں ٹھوکر مار رہی ہو۔”
”مسز عاکف سے ملنے میں تو کوئی حرج نہیں، آخر دیکھنا تو چاہیے کہ رول ہے کیا۔”
”ٹھیک ہے چلتے ہیں، مسز عاکف کے پاس مگر میں تمہیں صاف صاف بتا دوں کہ مجھے ایکٹنگ نہیں کرنی بس ماڈلنگ تک ہی بات ٹھیک ہے۔”
کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد امبر نے ہامی بھرتے ہوئے کہا۔
وہ سب ہال سے نکل کر ایک قریبی کمرے میں چلی گئیں، جہاں مسز عاکف ایک ڈرامے کے لیے آڈیشن لینے میں مصروف تھیں۔
”میرا نام امبر منصور علی ہے۔ مسز علوی نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔” امبر نے مسز عاکف کے پاس جاکر اپنا تعارف کروایا۔
مسز عاکف کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری۔ ”مسز علوی کا انتخاب بالکل ٹھیک ہے، میں خوامخواہ پریشان ہو رہی تھی۔”
مسز عاکف بڑبڑائیں اور پھر انہو ںنے بڑے بے تکلفانہ انداز میں امبر سے کہا۔
”تم میرے ڈرامے کے وومین کیریکٹرز میں سے ایک کارول کر رہی ہو۔”
”مگر میڈم… میں، میں تو ویسے ہی آئی تھی۔” امبر یک دم کچھ نروس ہو گئی۔
”تم ویسے آئی ہو یا ایسے آئی ہو، جو بھی ہے اب بس تم میرے پلے میں یہ رول کر رہی ہو۔” انہوں نے ایک اسکرپٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”میڈم! مجھے ایکٹنگ…” امبر نے کچھ کہنا چاہا مگر حفصہ نے مسز عاکف سے وہ اسکرپٹ پکڑ لیا۔ ”ٹھیک ہے میڈم… تھینکس۔”
”کل پہلی ریہرسل ہے… تم دس بجے یہاں پہنچ جانا۔” مسز عاکف نے کہا۔
اس سے پہلے کہ امبر کچھ اور کہتی اس کی فرینڈز اسے تقریباً کھینچتے ہوئے وہاں سے لے آئیں۔ وہ سب کمرے کے دروازے کے قریب پہنچ گئی تھیں جب انہوں نے دو لڑکیوں کو کمرے کے اندر داخل ہوتے دیکھا۔
ان میں سے ایک لڑکی بہت دراز قد تھی… دراز قد ہونے کے علاوہ بہت خوبصورت بھی تھی۔ امبر اور اس کا گروپ چند لمحوں کے لیے ٹھٹھک گیا تھا ان دونوں لڑکیوں کی نظر بھی امبر پر تھی چند لمحوں تک ایک دوسرے کو دیکھتے رہنے کے بعد وہ دونوں لڑکیاں امبر کے دائیں طرف سے ہوتی ہوئی مسز عاکف کی طرف چلی گئیں۔ امبر اور اس کی تمام فرینڈز نے لاشعوری طور پر گردن موڑ کر ان دونو ںکا تعاقب کیا پھر وہ سب کمرے سے نکل گئیں۔
امبر کی آنکھوںمیں واضح طور پر اس لڑکی کے لیے پسندیدگی تھی۔ کمرے سے باہر نکلتے ہی اس نے سونیا سے کہا۔
”یہ کون تھی؟”
”مجھے نہیں پتا، میں تو خود پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔” سونیا کی آواز میں بھی ستائش تھی۔
”جو بھی تھی… بہت خوبصورت تھی، میں نے بہت عرصے کے بعد اس طرح کی خوبصورتی دیکھی ہے کیا رنگ تھا اس کے بالو ںکا۔” امبر نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کھلے دل سے اس کی تعریف کی۔
”بس… اب امبر اگلا آدھ گھنٹہ اس کی تعریف کرتے ہوئے گزارے گی۔” حفصہ نے امبر کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
”تم ایمانداری سے بتاؤ، کیا وہ واقعی اس قابل نہیں ہے کہ آدھ گھنٹہ اس کے بارے میں بات کی جائے۔” امبر نے حفصہ سے پوچھا۔
”نہیں یار…! یہ تو ماننے والی بات ہے۔ لڑکی واقعی بڑی خوبصورت تھی… میں تو خود اس سے نظریں نہیں ہٹا سکی۔” سونیا نے امبر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔
”میں تو بہت متاثر ہوئی ہیں…اس کی کمر دیکھی تھی، میرا خیال ہے میری کمر سے بھی ایک انچ پتلی ہو گی۔” امبر نے کہا۔
”اچھا اب ذرا اس اسکرپٹ کو بھی دیکھ لیں، جو اندر سے لے کر آئے ہیں۔” سعدیہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ وقتی طور پر سب جیسے اس اسکرپٹ کو بھول گئے تھے۔
”دفع کرو اسکرپٹ کو۔” امبر نے ایک بار پھر موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
”مائی گاڈ” حفصہ نے یکدم اسکرپٹ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیا ہوا؟” سونیا نے چونکتے ہوئے پوچھا۔ حفصہ اب مسکرا رہی تھی۔
”یہ ذرا اسکرپٹ دیکھو۔” حفصہ نے اسکرپٹ کو ان سب کے سامنے کر دیا۔ وہ سب اس پر جھک گئیں اور یک دم کھکھلا کر ہنسنے لگیں۔
”یہ تو صحیح معنوں میں اینٹی کلائمکس ہوا ہے بلکہ یہی کہنا چاہیے کہ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔” سونیا نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ ”خود سوچو ذرا… اس بچکانہ کہانی میں میں خود کو کہا ںفٹ کروں گی اور پتہ نہیں مسز عاکف کو یہ احمقانہ آئیڈیا کس نے دیا ہے کہ وہ اس Snowwhite کو اسٹیج پر پیش کریں۔” امبر نے کچھ ناپسندیدگی سے کہا۔
”ویسے مجھے آئیڈیا برا نہیں لگا… بے شک کچھ بچکانہ ضرور لگ رہا ہے مگر بعض دفعہ بچکانہ چیزیں کرنے میں جو مزہ آتا ہے وہ میچور چیزوں میں نہیں آتا… تم ذرا اسکرپٹ کھول کر تو دیکھو کہ امبر کو کیا رول دیا ہے؟” سعدیہ نے حفصہ سے کہا۔
”اس میں پوچھنے یا چیک کرنے والی کیا بات ہے… سنو وائٹ کاہی رول دیا ہوگا… بونوں میں سے کسی کا رول تو دیا نہیں جاسکتا اسے۔” سونیا نے کہا۔
حفصہ اب اسکرپٹ کے صفحے پلٹ رہی تھی، تیسرے صفحے پر کریکٹرز اور ان کے سامنے ایکٹرز کے نام تھے جنہیںپینسل سے لکھا گیا تھا۔ سنووائٹ کے رول کے سامنے واقعی امبر منصور علی کا نام لکھا ہوا تھا۔
”دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ سنو وائٹ کا رول ہی دیا ہو گا۔” سونیا نے صفحے پر نظر ڈالئے ہوئے کچھ فاتحانہ انداز میں کہا۔
”کالج میں سنووائٹ کا رول اور کر کون سکتا ہے۔”
”خیر یہ تو تم مت کہو۔” امبر نے سونیا کی بات کاٹی۔ ”ابھی جس لڑکی کو تم نے دیکھا ہے، کیا وہ سنو وائٹ کا رول نہیں کر سکتی، مجھے تو لگتا ہے وہ اس رول کے لیے مجھ سے زیادہ مناسب ہے۔” امبر کو ایک بار پھر وہ لڑکی یاد آئی۔
”ویسے مجھے لگتا ہے۔ وہ بھی مسز عاکف کے پاس کسی رول کے لیے ہی گئی تھی ہو سکتا ہے سنو وائٹ کے رول کے لیے ہی گئی ہو۔” حفصہ نے اپنا خیال بتایا۔




Loading

Read Previous

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!