تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

”فائدہ؟” امبر نے اسی ترشی سے کہا۔
”فائدہ… کیا اکٹھے وقت گزارنا کوئی بڑا فائدہ نہیں ہے… میرے نزدیک تو ہے۔” طلحہ نے کہا۔
”جھوٹ کم بولا کرو طلحہ…! تمہارے نزدیک اگر میرے ساتھ وقت گزارنے کی کوئی اہمیت ہوتی تو ہم دونوں کے درمیان یہ جھگڑا کبھی نہ ہوتا… کیونکہ تم کبھی اس طرح مجھے انتظار نہ کرواتے… اور اب تم مجھے فائدے گنوا رہے ہو… دونوں کے ساتھ رہنے کے۔” اس نے ریموٹ سے ٹی وی آف کرتے ہوئے کہا۔
”میں اس شام کے لیے معذرت کر چکا ہوں… تم چاہو تو دوبارہ کرنے پر تیار ہوں… ایسا دوبارہ کبھی نہیں ہو گا۔” طلحہ نے کہا۔
امبر اسے گھورتی رہی۔ ”میں انتظار پر یقین نہیں رکھتی ہوں… میں انتظار کر ہی نہیں سکتی… اس سے زیادہ نفرت مجھے اور کسی چیز سے نہیں ہے اور تم یہ بہت اچھی طرح جانتے ہو۔”
”میں جانتا ہوں اور میں معذرت کر…” امبر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”معذرت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا احمقانہ کام ہوتا ہے یہ…”
”تو پھر تم بتاؤ میں کیا کروں؟” طلحہ نے کچھ بے بسی سے کہا۔
”میں صرف یہ چاہتی ہو ںطلحہ کہ اگر تم میرے لیے دنیا میں سب سے اہم آدمی ہو… تو تمہارے لیے بھی مجھے سب سے اہم ہونا چاہیے۔” امبر نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”تم میرے لیے بہت اہم ہوا امبر۔” طلحہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”بہت اہم نہیں… سب سے اہم…” امبر نے اس کے جملے میں تصحیح کی۔
”سب سے اہم۔” طلحہ نے اس کا تصحیح شدہ جملہ دہرایا۔
”میں تمہارے لیے کچھ بھی چھوڑ سکتی ہوں… کچھ بھی… کسی دوسری شے کو اہمیت نہیں دیتی میں تمہارے سامنے… تو تمہیں بھی تو یہی کرنا چاہیے۔”
”ٹھیک ہے… میں آئندہ محتاط رہوں گا… اب چلیں۔” طلحہ نے کہا۔
صبغہ نے آدھ گھنٹہ کے بعدطلحہ اور امبر کو باہر نکلتے دیکھا۔ امبر طلحہ کی کسی بات پر ہنس رہی تھی۔ بلیک جینز اور سلیولیس سفید شرٹ میں ملبوس اپنے کندھوں سے نیچے تک لٹکتے ہوئے خوبصورت چمکدار بالوں کو جھٹکتے… پانچ فٹ سات انچ کی ہائیٹ کے ساتھ اس نے پورچ اور لان میں موجود ہر خوبصورت شے کو دھندلا دیا تھا۔ اس کے گالو ںمیں پڑنے والے ڈمپلز اور اس کے کانوں میں موجود چھوٹے چھوٹے ایئر رنگز ایک دوسرے کو پوری طرح مات دینے کی کوشش میں مصروف تھے۔ دونوں کی چمک اور خوبصورت بے مثال تھی۔




صبغہ نے امبر کو رشک بھری نظروں سے دیکھا۔ وہ واقعی اس قابل تھی کہ اس طرح چاہا اور سراہا جاتا۔ اسے امبر کی بہن ہونے پر فخر محسوس ہوتا تھا… خاص طور پر تب جب وہ اس کے ساتھ کہیں جاتی اور لوگ اس کو نہ جاننے کے باوجود بھی اس پر نظریں مرکوز رکھتے… پھر جہاں جہاں وہ جاتی… وہ نظریں اس کا تعاقب کرتی رہتیں… سرگوشیاں کی جاتیں اور کئی بار صبغہ وہ سرگوشیاں سن بھی لیتی۔
امبر پر واقعی سب کچھ سجتا تھا۔ غصہ، نخرہ… ہر چیز… اس پر کچھ بھی برا نہیں لگتا تھا… وہ اپنی خوبصورتی کو اتنا Casual لیتی تھی کہ بعض دفعہ صبغہ کو حیرت ہوتی… بہت سی دوسری خوبصورت لڑکیوں کی طرح وہ ہر وقت آئینے کے ارد گرد منڈلاتی نہیں رہتی تھی… اگرچہ وہ اپنی ہر شے پر ضرورت سے زیادہ دھیان دیتی تھی مگر اس کی وجہ اپنی خوبصورتی کا احساس ہونے سے زیادہ اس کا فطری طور پر، پرفیکشنسٹ ہونا تھا… وہ ہر چیز میں غیر معمولی تھی اور اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود وہ کسی خبط کا شکار نہیں ہوئی تھی۔
صبغہ نے دونوں کو گاڑی میں بیٹھ کر باہر جاتے دیکھا اور اس کے چہرے پر ایک اطمینان بھری مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ جانتی تھی واپسی پر امبر کا موڈ بہت اچھا ہوگا۔
٭٭٭
منورہ منیزہ کے پرزور اصرار کے باوجود کھانے تک کے لیے نہیں رکیں اور ایک گھنٹے وہاں گزارنے کے بعد وہاں سے چلی گئیں مگر ان کے جانے کے بعد منیزہ کا موڈ انتہائی خراب ہو چکا تھا۔ منصور علی کے آنے تک وہ بہانے بہانے سے نوکروں کو ڈانٹ کر اپنا غصہ اتارتی رہیں اور جیسے ہی منصور علی آئے۔ انہوں نے فوراً منورہ کا نام لیے بغیر ان کی بتائی ہوئی تمام باتیں ان کے گوش گزار ر دیں۔ منصور کو ان کی بات پر یقین نہیں آیا۔
”میں نہیں مانتا، شبانہ بھابھی ایسی باتیں کر سکتی ہیں۔ یہ ضرور کسی نے جھوٹ بولا ہے۔” انہوں نے منیزہ سے کہا۔
”اگر یہ سب کچھ جھوٹ ہوتا تومیں کبھی یہ سب کچھ آپ تک نہ پہنچاتی مگر یہ جھوٹ نہیں ہے۔” منیزہ نے کہا۔
”مگر یہ تو سوچو کہ شبانہ بھابھی ایسی کوئی بات کیوں کریں گی۔ وہ تو امبر اور صبغہ سے بہت محبت کرتی ہیں۔” منصور علی اب بھی اپنی بات پر قائم تھے ”اور خاص طور پر اب جب رخصتی ہونے والی ہے۔”
”یہ سب منہ دیکھے کی محبت ہے، آپ کو اتنے سالوں میں ان کے مزاج اور فطرت کا تو اندازہ ہو ہی گیا ہو گا۔”
”وہ لالچی ہیں۔ یہ میں جانتا ہوں مگر یہ ایسی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔” منصور علی نے کہا۔
”بات صرف لالچ کی نہیں ہے لحاظ کی بھی ہے سب کچھ لینے کے بعد بھی اگر کسی شخص کا منہ بند نہ ہو تو پھر…”
منصور علی نے منیزہ کی بات کاٹ دی۔ ”میں خود ان سے بات کروں گا۔”
”آپ کیا بات کریں گے وہ کبھی مانیں گی کہ انہوں نے ایسی کوئی بات کی ہے وہ تو صاف انکار کر دیں گی۔” منیزہ نے کہا۔
‘تو پھر بتاؤ تم کیا چاہتی ہو۔ میں کیا کروں؟” منصور نے کہا۔
”آپ مسعود بھائی سے بات کریں۔ انہیں یہ سب کچھ بتائیں جو شبانہ نے کیا کہا ہے۔” منیزہ نے کہا۔
”وہ بھی میری طرح ان باتوں پر یقین نہیں کریں گے اور پھر وہ بھی یہی پوچھیں گے کہ یہ سب کہا کس نے ہے اور تم یہ بتانے پر تیار نہیں ہو۔” منصور علی نے کہا۔
”یقین نہیں کرتے نہ کریں مگر آپ انہیں یہ سب کچھ بتا تو دیں۔” منیزہ نے کچھ تاؤ کھا کر کہا ”اور میں تو امبر اور صبغہ دونوں کو منع کر دوں گی کہ ان میں سے کوئی بھی طلحہ یا اسامہ سے نہ ملے، نہ ہی ان کے گھر جائے اور اب شبانہ لاکھ بار فون کرے گی تب بھی میں ان دونوں کو اس کے گھر نہیں بھیجوں گی۔” منیزہ بولتی رہیں۔
”لیکن منیزہ! مجھے اب بھی ان سب باتو ںپر یقین نہیں ہے شبانہ بھابھی ایسی نہیں ہیں۔ اس طرح کی باتیں وہ نہیں کر سکتیں۔ کسی نے جھوٹ بولا ہے۔” منصور علی نے کہا۔
”کیا منورہ آپا جھوٹ بول سکتی ہیں اور اس طرح کا جھوٹ؟” منیزہ نے کچھ تلملا کر منصور علی سے کہا وہ ہکا بکا رہ گئے۔
”یہ سب کچھ تمہیں منورہ آپا نے بتایا ہے؟”
”تو اور کون بتائے گا۔ وہ آج آئی ہوئی تھیں اور شبانہ کی ان باتو ںکیو جہ سے خاصی پریشان تھیں۔”
”شبانہ بھابھی نے یہ باتیں خود ان سے کہی ہیں؟” منصور علی کی حیرت ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی۔
”ہاں وہ دو تین دن پہلے مسعود بھائی کے گھر گئی تھیں تو وہیں پر شبانہ نے یہ ساری باتیں کیں اور یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا منورہ آپا مجھے بتا رہی تھیں کہ وہ اکثر خاندان کے لوگوں سے میرے اور امبر، صبغہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتی رہتی ہیں۔” منیزہ نے انہیں تفصیل بتائی۔
منصور علی کے چہرے پر اب غصہ جھلکنے لگا تھا۔ ”شبانہ بھابھی کو شرم آنی چاہیے ایسی باتیں کرتے ہوئے۔”
”انہیں ایسی باتیں کرتے ہوئے شرم کیوں آئے گی؟ امبر اور صبغہ ان کی بیٹیاں تو نہیں ہیں… ان کے نزدیک تو وہ ہماری بیٹیاں ہیں۔” منیزہ نے منصور کے غصے کو کچھ اور ہوا دی۔
”شبانہ بھابھی کی ان ہی باتوں کی وجہ سے مسعود بھائی پہلے ہی خاندان سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔” منصور نے لقمہ دیا۔
”یہ تو آپ کا خیال ہے کہ مسعود بھائی خاندان سے کٹ کر رہ گئے ہیں… شبانہ بھابھی کا خیال ہے کہ خاندان سے میں نے آپ کو کاٹ کر رکھ دیا ہے۔” منیزہ نے کہا تو منصور اور چڑ گئے۔
”فضول باتیں کرنے میں تو وہ ہمیشہ سے ماہر ہیں، میں سمجھتا تھا کہ اتنے سالوںمیں ان میں کچھ تبدیلیاں تو آہی گئی ہوں گی مگر یہاں ڈھاک کے وہی تین پات انہیں بات کرتے ہوئے یہ بھی خیال نہیں آیا کہ وہ کس کے بارے میں بات کر رہی ہیں۔”
منصور علی کا غصہ بڑھتا جارہا تھا۔
”میری بیٹیاں انہیں اتنی بری لگتی ہیں تو ختم کر دیں یہ رشتے… اس ڈھونگ کی کیا ضرورت ہے… میری بیٹیوں کے لیے رشتوں کی کمی نہیں ہے، اس گھر میں تو میں انہیں کبھی نہیں بھیجوں گا جہاں ان کے بارے میں پہلے ہی اس طرح کی باتیں ہوں گی۔” منصور علی یک دم ہی جیسے کسی فیصلے پر پہنچ گئے تھے۔
”میں نے آپ کو یہ سب اسی لیے بتایا ہے کہ آپ ان لوگوں سے بات کریں۔” منیزہ نے منصور علی سے کہا۔
”میں صبح ہی شبانہ بھابھی سے بات کرتا ہوں… دیکھتا ہوں، وہ کیا کہتی ہیں۔” منصور علی نے کہا مگر منیزہ نے ناپسندیدگی کے عالم میں سرہلایا۔
”نہیں شبانہ سے بات نہ کریں، آپ سیدھا مسعود بھائی سے بات کریں۔ آخر انہیں بھی تو پتہ چلے کہ ان کے گھر میں کیا ہو رہا ہے۔” منیزہ نے منصور سے کہا۔
”مسعود بھائی سے میں بعد میں بات کروں گا۔ پہلے تو شبانہ بھابھی سے ہی بات کرنی چاہیے۔”
”اور اگر شبانہ نے صاف انکار کر دیا کہ اس نے ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں اور ہمیں غلط فہمی ہوئی ہے تو؟” منیزہ نے کچھ طنزیہ انداز میں کہا۔
”اگر انہوں نے ان تمام باتوں سے انکار کر دیا تو میں انہیں آپا کا حوالہ دوں گا بلکہ آپا سے آمنا سامنا کروا دوں گا… پھر تو وہ بات نہیں کر سکیں گی۔” منصور علی نے قدرے جوش سے کہا۔
”اب خدا کے لیے آپا کا نام تو ان کے سامنے مت لیں۔ آپا نے مجھے خاص طور پر منع کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ اس طرح بات بڑھ جائے گی اور وہ بات بڑھانا نہیں چاہتیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ شبانہ کو پہلے ہی ہر وقت ان سے یہ شکایت رہتی ہے کہ وہ میری اور میری بیٹیوں کی حمایت کرتی ہیں اب اگر اسے یہ پتا چلا کہ میں نے کوئی بات تم لوگوں تک پہنچائی ہے تو شبانہ اور ناراض ہو گی۔” منیزہ نے تفصیل بتائی۔
”آپا کو خودفزدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے… شبانہ بھابھی ناراض ہوتی ہیں تو ہو جائیں۔” منصور علی نے لاپروائی سے کہا۔
”انہیں صرف یہ خدشہ ہے کہ ہم دونوں فیملیز کے درمیان ان کی وجہ سے اختلاف پیدا نہ ہو جائے، وہ نہیں چاہتیں کہ سارے خاندان میں ان کے بارے میں بھی شبانہ باتیں کرتی پھرے۔” منیزہ نے کہا تو منصور علی نے ان کی بات مانتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ میں آپا کا نام نہیں لیتا مگر بات تو میں شبانہ بھابھی سے ہی کروں گا۔”
”آپ آخر مسعود بھائی سے بات کرتے ہوئے اتنا ڈر کیوں رہے ہیں؟” منیزہ نے کچھ چڑ کر کہا۔ ”آپ مسعود بھائی سے بات کریں اگر آپ ان سے بات نہیں کریں گے تو میں خود کر لوں گی۔”
”ٹھیک ہے میں مسعود بھائی سے ہی بات کر لیتا ہوں۔” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد منصور علی نے منیزہ سے کہا۔
”اور تم صبغہ اور امبر دونوں کو منع کر دو وہ نہ تو طلحہ اور اسامہ سے ملیں، نہ ہی ان کے فون ریسیو کریں۔” منصور علی نے سخت لہجے میں منیزہ سے کہا۔ ”اور تم ان دونوں کو یہاں بھی مت آنے دو۔”
”آپ کے کہنے سے پہلے ہی میں صبغہ اور امبر سے اس سلسلے میں بات کر چکی ہوں… امبر تو خود بہت ناراض ہو رہی تھی۔” منیزہ نے منصور علی سے کہا۔ ”وہ تو خود شبانہ بھابھی سے بات کرنا چاہتی تھی مگر میں نے منع کر دیا کہ خوامخواہ کوئی اور ہنگامہ نہ کھڑا ہو جائے آپ شبانہ بھابھی کی لگائی بجھائی والی عادت کو تو اچھی طرح جانتے ہیں۔”
”پہلے تو شاید اچھی طرح نہیں جانتا تھا مگر اب بہت اچھی طرح جان گیا ہوں۔” منصور علی بڑبڑائے۔
٭٭٭
”تم یقین کرو منصور! مجھے ان تمام باتوں کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے۔”
منصور علی نے اگلے دن صبح آفس جاتے ہی مسعود علی سے اس سلسلے میں بات کی تھی اور شبانہ کی کہی ہوئی باتیں ان کے گوش گزار کر دی تھیں۔ مسعود علی ان تمام باتوں کو سن کر ہکا بکا رہ گئے تھے شبانہ کی عادت سے وہ اچھی طرح واقف تھے کہ وہ جلی کٹی سنانے اور طنز کرنے میں ماہر تھیں مگر انہیں حیرت اس پر ہورہی تھی کہ تمام باتیں منصور علی تک کس نے پہنچائی تھیں۔
”تم سے یہ سب کس نے کہا ہے؟” انہوں نے منصور علی سے پوچھا۔
”مجھے یہ سب منیزہ نے بتایا ہے اور اب مجھ سے یہ مت پوچھیے گا کہ منیزہ کو یہ سب کس نے بتایا ہے۔” انہو ںنے اسی طرح درشتی سے بات کرتے ہوئے کہا۔
”ہو سکتا ہے، منیزہ کو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو۔” مسعود علی نے کہنے کی کوشش کی۔
”بھائی جان! میری بیوی کو کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی… صرف غلط فہمی کی بنا پر کوئی اس طرح کی باتیں نہیں کرتا… شبانہ بھابھی نے واقعی میری بیٹیوں کے بارے میں اس طرح کی باتیں کی ہیں۔” منصور علی نے ترشی سے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”مگر منصور! آخر شبانہ ایسی باتیں کیوں کرے گی… تم جانتے ہو، وہ امبر اور صبغہ سے کتنی محبت کرتی ہے اور ان دونوں کو اپنے گھر لانے کا کتنا انتظار کر رہی ہے۔”
”میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ میری بیٹیوں سے کتنی محبت کرتی ہیں… میری بیٹیوں کے لیے رشتوں کی کمی نہیں ہے… میں ایک ڈھونڈوں گا، مجھے ہزار ملیں گے مگر میں نے آپ کے خاندان کو ترجیح صرف اس لیے دی کیونکہ آپ میرے بھائی تھے اور میرا خیال تھا آپ کے گھر میری بیٹیاں بہت خوش رہیں گی… انہیں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا مگر اب مجھے لگ رہا ہے۔ میرا فیصلہ غلط تھا۔” منصور علی جذباتی انداز میں بولتے جارہے تھے۔ ”شاید میں نے خاندان سے باہر اپنی بیٹیوں کے رشتے کرنے کی کوشش کی ہوتی تو میری بیٹیوں کے بارے میں اس طرح کے تبصرے نہ کیے جاتے جیسے شبانہ بھابھی نے کئے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب میری بیٹیاں ابھی آپ کے گھر گئی تک نہیں۔” منصور علی نے تیز لہجے میں کہا۔
”جب وہ آپ کے گھر چلی جائیں گی تو آپ ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔”
”خدا گواہ ہے منصور! میں نے تمہاری بیٹیوں کو ہمیشہ اپنی بیٹیاں سمجھا ہے اور…” مسعود علی نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”میں نے اپنی بیٹیوں کو کتنی آسائشوں اور نازوں سے پالا ہے۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں، آج تک کبھی اونچی آواز میں ان سے بات تک نہیں کی اور اب آپ کی بیوی ان کے بارے میں اس طرح کی بے ہودہ گفتگو کرتی پھر رہی ہے۔”
منصور علی نے ان کی بات کاٹ کر کہا۔




Loading

Read Previous

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!