تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

ہارون رات کو فیکٹری سے واپسی پر کچھ دیر کے لیے اپنے گھر آتا اور پھر کپڑے بدل کر ملازمین کو ہدایات دے کر وہ شائستہ کے پاس چلا جاتا اور رات وہیں گزارتا کئی بار وہ رات شائستہ کے ہاں گزارنے کے بجائے اپنے گھر گزارتا خاص طور پر تب، جب اس کے گھر والوں کو اس کے ہاں آنا ہوتا یا پھر اسے ان کی طرف جانا ہوتا یا فیکٹری سے اس کی واپسی بہت دیر سے ہوتی تو وہ شائستہ کی طرف جانے کے بجائے اپنے گھر چلا جاتا اور فون پر شائستہ کو اس کی اطلاع دے دیتا۔
آہستہ آہستہ ہارون کی مصروفیات میں اضافہ ہوتا گیا، وہ فیکٹری کے ایک حصے کی تعمیر کروا رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی کچھ دوسری سرگرمیاں بھی بڑھ گئی تھیں۔ شائستہ کے پاس جانے کی باقاعدگی ختم ہونا شروع ہو گئی۔ وہ اب زیادہ تر اپنے گھر ہی رہتا یا پھر رات گئے تک ان پارٹیز میں مصروف رہتا جن میں وہ شادی سے پہلے بھی بڑے شوق سے شرکت کیا کرتا تھا۔
شائستہ کے پاس جانے میں کمی کی ایک بنیادی وجہ شائستہ کا روّیہ بھی تھا۔ وہ مکمل طور پر گھر میں بند رہتی تھی اور وہ چند ماہ شائستہ کی زندگی کا بدترین عرصہ تھا۔ وہ ذہنی طور پر بری طرح ابتری کا شکار ہو چکی تھی۔ وہ گھر سے باہر اس لیے نہیں نکل سکتی تھی تاکہ کہیں کسی کی نظر میں نہ آجائے اور اس کے پاکستان میں ہونے کا راز افشا نہ ہو جائے۔ وہ کسی دوست یا رشتہ دار سے کسی اور طرح بھی رابطہ نہیں کرسکتی تھی، پھر شاید وہ ضمیر کی چبھن اور احساس جرم کا بھی شکار تھی جب وہ یہ سوچتی کہ اسے اس بچے کو چھوڑ دینا ہے۔
ہر بار ہارون کے آنے پر وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس سے الجھ پڑتی۔ اسے ہر بات پر اس سے شکایت ہونے لگی تھی اور وہ بری طرح اس پر شک بھی کرتی تھی اسے ہارون کی بے توجہی کا بھی گلہ تھا اور وہ ہارون کو اپنی اس حالت اور آئندہ کیے جانے والے جرم کی ذمہ دار بھی گردانتی تھی اور ہارون اس کے اس رویہ سے بری طرح جھنجھلا جاتا تھا دونوں میں جھگڑا ہوتا پھر ہارون غصے میں وہاں سے چلا آتا وہ بعد میں پچھتاتی مزید پریشان ہوتی۔ اسے یہ خوف ہوتا کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے وہ اگلی بار اپنی غلطی نہ دہرانے کا فیصلہ کرتی۔




وہ دوبارہ آتا، دونوں کے درمیان دوبارہ وہی منظر دہرایا جاتا۔ اس کے اس روّیے سے تنگ آکر ہارون اس کے پاس کم آنے لگا، شاید یہ اس کے نزدیک مسئلے کا حل تھا اور یہ حل شائستہ کے لیے ناقابل قبول تھا۔ وہ ان دنوں فیکٹری فون کرتی، وہ ٹال جاتا یا سیکرٹری سے کہلوا دیتا کہ وہ فیکٹری میں موجود نہیں ہے، شائستہ گھر پر فون کرتی وہاں سے بھی اسے یہی کہلوایا جاتا وہ مجبور تھی اپنا تعارف نہیں کروا سکتی تھی۔ مگر دونوں جگہوں پر ہارون کی عدم موجودگی کا سن کر اس کا شک مزید بڑھتا جاتا۔ خاص طور پر تب جب وہ رات کو بھی دونوں جگہوں پر موجود نہیں ہوتا تھا۔
وہ ہارون سے اس بارے میں بات کرتی تو ہارون مشتعل ہو جاتا۔ اس کا خیال تھا وہ اس کی زندگی میں ضرورت سے زیادہ دخل اندازی کر رہی تھی دونوں میں پھر جھگڑا ہوتا۔ شائستہ کو یوں لگتا تھا جیسے ہارون اسے جان بوجھ کر نظر انداز کر رہا ہے۔ اسے یہ خوف بھی تھا کہ اس میں ہارون کی دلچسپی ختم ہوتی جا رہی تھی وہ ہر وقت اسی خدشے میں مبتلا رہتی کہ ہارون ضرور کہیں کسی دوسری عورت میں دلچسپی لے رہا ہے اور یہ خدشہ اس کی راتوں کی نیند اڑانے لگا تھا۔
وہ ہارون کو بہت اچھی طرح سے جان گئی تھی۔ خوب صورتی اس کی کمزوری تھی اور وہ بنیادی طور پر فلرٹ تھا… شائستہ کو شادی کے شروع میں اس کی اس عادت سے کوئی خوف محسوس نہیں ہوا… اسے لگتا تھا کہ ہارون پوری طرح اس کے عشق میں مبتلا ہے اور وہ کسی دوسری عورت کو اپنی زندگی میں نہیں لاسکتا… شاید اسے یہ گمان اور خوش فہمی بھی تھی کہ اس کی خوبصورتی کے آگے کوئی دوسری عورت کہاں ٹھہر سکتی ہے۔ مگر اب ہارون کے بدلے ہوئے تیور اسے خوفزدہ کرنے لگتے تھے… اسے اپنا آپ مکمل طور پر کسی مکڑی کے جال میں پھنسا ہوا محسوس ہوتا یا پھر وہ خود کو ہارون کے ہاتھوں میں ایک کٹھ پتلی محسوس کرتی جو کبھی بھی اسے کسی بھی طرح استعمال کرسکتا تھا اور اب جب اس نے اس کٹھ پتلی کو چلانے والی ڈوریاں اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے الگ کر دی تھیں تو وہ اپنی زندگی اور وجود کا کوئی مصرف ہی نہیں پا رہی تھی۔ وہ سارا دن اکیلے گھر بیٹھے اپنے اور ہارون کے مستقبل کے بارے میں سوچتی رہتی، ہر لمحہ اس کے ذہنی خلفشار میں اضافہ کرتا رہتا۔ اس کے ڈپریشن اور اور فرسٹریشن میں اضافہ ہوتا جاتا۔ اسے ہر ایک کے بارے میں سوچ کر غصہ آتا۔ اسے یوں ہی محسوس ہوتا جیسے کوئی بھی اس کے ساتھ مخلص نہیں رہا نہ ہارون، نہ اس کے اپنے گھر والے۔ وہ اپنی اس حالت کا ذمہ دار ہارون اور اپنے گھر والوں کو ٹھہراتی۔ اسے کبھی یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ شاید اس سے خود بھی چند غلطیاں ہوئی۔ ہیں وہ مکمل طور پر خود ترسی اور خود رحمی کا شکار ہو چکی تھی اور ایسی حالت میں غیر جانب دار ہو کر صورتحال کا تجزیہ کرنا اس کے بس کی بات نہیں رہی تھی۔
ایک پرائیویٹ کلینک میں اس کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی تھی جسے پیدائش کے چند گھنٹے بعد ہی اسی کلینک کے کسی آدمی کے ذریعے ایک ادارے میں پہنچا دیا گیا تھا۔ ہارون اس وقت وہیں تھا اور یہ کام اسی نے سر انجام دیا تھا۔ شائستہ نے اس بچے کو نہیں دیکھا تھا۔ ہارون کا رویہ اس کے ساتھ بہت عرصہ کے بعد بہت نرم اور گرم جوش تھا۔ وہ اس پر بہت توجہ دے رہا تھا اور شائستہ کے لیے اس وقت اتنا ہی کافی تھا… بار بار بچے کا خیال ذہن میں آنے پر وہ بری طرح اسے جھٹکتی رہتی۔
چند ہفتوں کے بعد وہ واپس ہارون کے ساتھ اس کے گھر چلی گئی۔ زندگی پھر معمول پر آگئی تھی۔ ہارون ایک بڑی سوشل زندگی گزار رہا تھا… شائستہ بھی اس ہلے گلے کا حصہ بنتی جا رہی تھی… مگر وہ بچہ اور اس کے حوالے سے ہونے والا احساس جرم اس کے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا۔
اس بچے کی پیدائش کے چھ ماہ بعد اس نے ہارون سے چوری چھپے اس کلینک سے رابطہ کرکے اس بچے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی… خاصی بڑی رقم خرچ کرنے کے بعد اسے اس بچے کے بارے میں پتا چل گیا تھا… ہارون نے اسے اسی شہر میں رکھنے کے بجائے راولپنڈی کے ایک ادارے میں بھجوایا تھا۔
شائستہ کی خواہش تھی وہ مالی طور پر اس بچے کو سپورٹ کرے اور پھر کسی ہاسٹل میں داخل کروا دے۔ مگر اس کی یہ کوشش کامیاب نہیں رہی۔ ہارون کو یہ پتا چل گیا تھا کہ وہ اس بچے کے بارے میں معلومات حاصل کر رہی ہے شاید اسے پہلے ہی یہ خدشہ تھا کہ شائستہ ایسا کچھ ضرور کرے گا اور وہ اس معاملے کے بارے میں پہلے سے ہی محتاط تھا۔ یہی وجہ تھی کہ شائستہ کی ایسی سرگرمیاں فوراً اس کی نظر میں آگئی تھیں۔
اس کے اور ہارون کے درمیان ایک بار پھر جھگڑا ہوا تھا… ہارون نے ایک بار پھر اسے طلاق کی دھمکی دی تھی۔ شائستہ نے ایک بار پھر ہار مانتے ہوئے اس بچے سے رابطے کی کوشش ختم کر دی۔
وہ ان دنوں شہر کی ایلیٹ کلاس کا ایک نمایاں اور ممتاز نام بن چکی تھی۔ ہارون کمال کی طرح اس کی خوش لباسی اور خوبصورتی بھی اس کا شناخت بن چکی تھی اور اس شناخت نے جہاں شہر کے سوشل سرکل میں اسے ایک نئی پہچان دی تھی، وہاں ہارون کے بزنس کو بھی ایک نیا Impetus دیا تھا۔ ایک خوبصورت اور سوشل بیوی ایک ایسی جادوئی چھڑی کی حیثیت رکھتی ہے جو پلک جھپکتے میں ناممکنات کو ممکنات میں تبدیل کر دیتی ہے۔ جس کی ایک مسکراہٹ کسی بھی شخص کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ چاہے وہ کوئی سیاست دان ہوتا کوئی بزنس مین یا پھر کوئی حکومتی اہلکار۔
ان دونوں کا کپل شہر میں مختلف مواقع پر منعقد کی جانے والی اپنی تقریبات کے لیے مشہور تھا۔ وہ ہر لحاظ سے ایک قابل رشک زندگی گزار رہی تھی۔ اس بچے کی پیدائش کے اگلے سال میں اسد کی صورت میں اس کے ہاں ایک اور بیٹا آچکا تھا… مگر اس سب کے باوجود وہ اس بچے کو اپنے ذہن سے محو نہیں کر پائی تھی۔ اسد کی پیدائش کے کچھ عرصہ کے بعد اس نے ایک بار پھر اس بچے کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی اور اس بار وہ بری طرح ناکام رہی تھی۔ اس بچے کو کسی نے ایڈاپٹ کرلیا تھا اور ایڈاپٹ کرنے والوں کو کوشش کے باوجود وہ ٹریس آؤٹ نہیں کرسکی۔
دوسری طرف اس کی ان کوششوں کے بارے میں ایک بار پھر ہارون کو پتہ چل گیا تھا جس کے نتیجے میں وہ اس وقت اس پلین پر موجود تھی۔
٭٭٭
باقر شیرازی نے ایک گہرا سانس لیا۔
”کیا تمہیں واقعی ہارون سے محبت ہے؟” ان دونوں کے درمیان اب اتنی بے تکلفی ہو چکی تھی کہ اسے اب مزید آپ جناب کے طرز تخاطب کی ضرورت نہیں رہی تھی۔
”ہاں!” شائستہ نے بلاتوقف کہا۔
وہ مسکرایا ”اس سب کے باوجود بھی؟”
”ہاں، اس سب کے باوجود بھی، میں اس کے بارے میں بہت پوزیسو ہوں۔” اس نے بلاتامل اعتراف کیا۔
”اور شاید وہ بھی؟” باقر شیرازی نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
”ہاں وہ بھی۔” شائستہ نے بڑے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔ اس نے شاید کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا۔
”آپ بتائیں، آپ میرے لیے کیا کرسکتے ہیں؟” اس نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”وہ سب کچھ جو تم چاہو گی۔”
”اس بچے کو تلاش کروا سکتے ہیں آپ؟”
”میں اپنی پوری کوشش کروں گا۔” باقر شیرازی نے سنجیدگی سے کہا۔
”اور اس کوشش میں کتنا وقت لگے گا؟”
”اس بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا، یہ بھوسے میں سے سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔”
باقر شیرازی نے کندھے اچکا کر کہا۔
شائستہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”میں توقع رکھتی ہوں کہ اس بارے میں ہونے والی تمام گفتگو صرف میرے اور آپ کے درمیان رہے گی… ہارون تک یہ بات نہیں پہنچے گی۔”
باقر شیرازی خوبصورت انداز میں ہنسا۔ ”ہارون تک کچھ بھی نہیں پہنچے گا… میں اپنی طرف سے اس کی گارنٹی دے سکتا ہوں مگر کیا وہ اپنی طرف سے آپ کو یہ گارنٹی دے سکتا ہے۔ خاصا باخبر رہنے کی کوشش کرتا ہے یہ شخص… میں باخبر کے بجائے ایک اور لفظ استعمال کرنا چاہتا ہوں مگر شاید اس پر تمہیں اعتراض ہو۔” شائستہ اس کے تبصرے پر مسکرائی۔
٭٭٭
”تو پھر…؟” صبیحہ نے سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے اس کا جملہ دہرایا۔ ”میں چاہتی ہوں، تم شائستہ کو طلاق دے دو۔”
ہارون نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میں اسے طلاق نہیں دے سکتا۔”
وہ رکا، اس نے صبیحہ کو غور سے دیکھا اور کہا۔
”حیرانی کی بات نہیں ہے۔ تمہیں مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے… مگر تمہیں اس بات میں دلچسپی ہے کہ میں شائستہ کو طلاق دے دوں۔ کیوں؟”
”مجھے دلچسپی نہیں ہے۔” صبیحہ نے مسکراتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔
”تو پھر… کسے دلچسپی ہے؟”
”باقر شیرازی کو۔”
وہ صبیحہ کا منہ دیکھنے لگا۔ وہ اب ایک نیا سگریٹ سلگا رہی تھی اور اس کے ساتھ اس نے میز پر ایک اور چیز بھی رکھ دی تھی۔
ہارون نے ایک نظر میز کو دیکھا پھر صبیحہ کو دیکھا۔ زندگی میں پہلی بار اسے اپنا آپ کسی جال میں پھنسا ہوا محسوس ہوا۔ پہلی بار اس نے اپنے آپ کو کسی کے ہاتھ میں پکڑے تاش کے باون پتوں میں سے ایک پتا پایا… اور پہلی بار اسے احساس ہوا کہ اس نے فلرٹ کرنے کے لیے اس بار ایک غلط عورت کا انتخاب کیا تھا۔
بہت دیر تک وہ سانس نہیں لے سکا۔ اس کے چہرے کا رنگ مکمل طور پر فق ہو چکا تھا۔ صبیحہ ٹیبل پر دونوں کہنیاں رکھے بڑے مزے سے مسکراتے ہوئے سگریٹ کے کش لگانے میں مصروف تھی۔
ویٹر ان کی میز کی طرف آرہا تھا۔ ہارون نے اپنے حواس بحال کرتے ہوئے میز پر پڑی ہوئی ان فوٹو گرافس کو پلٹ دیا۔ ”کچھ دیر بعد، ابھی نہیں۔” اس نے ویٹر کو واپس بھیجا۔
”ارے کیا ہوا… تصویریں پسند نہیں آئیں؟” صبیحہ نے مصنوعی حیرت کے ساتھ پوچھا۔ ”اور بھئی، ان کو پلٹ کیوں دیا؟”
اس نے ان تصویروں سے ہارون کا ہاتھ ہٹانے کی، کوشش کی جس میں وہ ناکام رہی ہارون نے وہ تصویریں اس کے سامنے سے اٹھالیں، صبیحہ نے اسے روکنے کی کوشش کی وہ اس بار بھی ناکام رہی۔
”چلو کوئی بات نہیں، یہ تم لے لو، میں اور بنوا لوں گی۔” اس نے ایک چڑانے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
ہارون نے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے تین ماہ پہلے اس کے ساتھ ہونے والی اپنی پہلی ملاقات کو یاد کیا۔ صبیحہ کادوانی کا نام اس کے لیے نیا نہیں تھا۔ اس کا شوہر جدون ایک سرکاری افسر تھا اور سوشل سرکل میں وہ خود اتنا مشہور نہیں تھا جتنا اس کی بیوی تھی۔
ایک پارٹی میں صبیحہ خود اس کی طرف آئی تھی۔ ہارون اس سے مل کر واقعی سحر زدہ ہوگیا تھا۔ وہ خوبصورت تو جو تھی، سو تھی مگر اس میں خوبصورتی سے بڑھ کر بھی کچھ تھا۔ ہارون چند لمحوں میں اس کا اسیر ہوگیا تھا۔ ہر خوبصورت عورت اس کے ہوش حواس کو یونہی مفلوج کر دیا کرتی تھی۔
اس بار بھی ہارون کو یہ غلط فہمی ہوئی تھی کہ صبیحہ بھی دوسری بہت سی عورتوں کی طرح اس کی وجاہت کا شکار ہو کر اس کی طرف آئی ہے۔ ان دونوں کے درمیان میل جول کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، شائستہ ان دنوں امریکہ میں تھی۔ ہارون کمال صبیحہ کے ساتھ پھرنے کے لیے مکمل آزاد تھا۔
اگر شائستہ پاکستان میں بھی ہوتی تب بھی ہارون کو اس قسم کی راہ و رسم بڑھانے پر کوئی خوف محسوس نہ ہوتا۔ دونوں ایک دوسرے کے ذاتی معاملات میں کم سے کم مداخلت کرتے تھے اور ذاتی معاملات میں ان دونوں کی ایسی دوستیاں بھی آجاتی تھیں… نہ ہارون نے کبھی شائستہ کے دوسرے مردوں کے ساتھ تعلقات پر اعتراض کیا تھا نہ ہی شائستہ نے کبھی ہارون کے ان افیئرز کو ناپسند کیا تھا۔
مگر ہارون صبیحہ کے ساتھ ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ہوتا جا رہا تھا، شائستہ کی موجودگی یقینا اس کی اس سنجیدگی میں کچھ کمی لے آتی اور وہ کسی صورت صبیحہ کو شادی کا پرپوزل دینے کی حماقت نہ کرتا۔
اور اب صبیحہ کادوانی اس کے سامنے میز پر اپنے ساتھ گزارے ہوئے ایسے ہی کچھ رنگین اور سنگین لمحات کی تصویریں رکھے ہوئے تھی… وہ زندگی میں کبھی بھی رنگے ہاتھوں نہیں پکڑا گیا تھا اور اسے اس بات پر فخر بھی تھا۔ لیکن اس وقت صبیحہ کے ساتھ اپنی وہ تصویریں دیکھ کر وہ اسی احساس کا شکار ہو رہا تھا… نہ صرف صبیحہ کے عشق کا بھوت اس کے سر سے اتر گیا تھا، بلکہ وہ بہت سے خدشات کا بھی شکار تھا صبیحہ کے منہ سے نکلنے والے جملوں اور ان تصویروں نے ایک بات تو اس پر واضح کر دی تھی۔ صبیحہ اس کا شکار ہو کر اس کی طرف نہیں آئی تھی۔ وہ یقینا باقاعدہ منصوبے کے تحت اس کی طرف آئی تھی۔
”تمہارا اگر یہ خیال ہے کہ میں ان تصویروں سے خوفزدہ ہو جاؤں گا تو یہ تمہاری بھول ہے۔” ہارون نے ایک لمبی خاموشی کے بعد اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے سخت لہجے میں اس سے کہا۔
”ارے کیا بات کر رہے ہو تم؟ خوفزدہ کون کرنا چاہتا ہے تمہیں؟ صبیحہ نے حیرت کی بھرپور ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔ ”میں تو صرف اس لیے یہ تصویریں لے کر آئی ہوں تاکہ تمہیں یہ دکھا کر پوچھوں کہ یہ کیسی آئی ہیں؟” وہ اس بار مضحکہ خیز انداز میں بولی۔
”بکواس مت کرو… جو بات کہنا چاہتی ہو، وہ کہو۔” ہارون نے درشتی سے اسے ٹوکا۔
”جو مجھے کہنا ہے اور جو میں چاہتی ہوں وہ تو میں تمہیں پہلے ہی بتا چکی ہوں۔ اب تمہیں صرف یہ فیصلہ کرنا ہے کہ تم شائستہ کو طلاق کب دو گے؟” صبیحہ یک دم سنجیدہ ہوگئی۔
”باقر شیرازی یہ کیوں چاہتا ہے کہ میں اسے طلاق دے دوں۔”
”وہ خود شادی کرنا چاہتا ہے تمہاری بیوی سے، یہ تو بڑی سیدھی سی بات ہے کوئی سائنسی فارمولا تو نہیں ہے جسے تم سمجھ نہ سکو۔”
”اور کیا شائستہ بھی یہی چاہتی ہے؟”




Loading

Read Previous

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!