تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

”منصور! مجھے شبانہ سے بات کر لینے دو… یقین کرو اگر اس نے واقعی یہ سب کہا ہے تو وہ خود تم لوگوں سے معذرت کرے گی۔” مسعود علی نے منصور علی کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی لیکن منصور علی پر کوئی اثر نہ ہوا۔
”آپ کی بیوی کی معذرت سے مجھے یا میری فیملی کو کیا فائدہ ہو گا۔”
”تم ایک بار مجھے اس سے بات تو کرنے دو… مجھے یقین ہے کہ اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی ہو گی… وہ تو امبر اور صبغہ کی ہر وقت تعریف کرتی رہتی ہے۔” مسعود علی نے کچھ مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہوئے کہا۔
”یقینا یہ بھی کچھ اسی طرح کی تعریف ہو گی۔” منصور علی نے طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔
”میں تمہاری اس سے بات کروا دوں گا… تم خود اس سے یہ سب کچھ پوچھ لینا۔”
”میں ان سے اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا… آپ سے بات کرنے کا مقصد یہی تھا کہ آپ خود شبانہ بھابھی سے ان سب باتوں کے بارے میں پوچھیں… اور میں آپ کو یہ بات صاف صاف بتا رہا ہوں کہ میری بیٹیوں کے لیے رشتوں کی کوئی کمی نہیں ہے، اگر آپ کو ان میں ابھی سے اتنے نقص نظر آرہے ہیں تو آپ صاف صاف بات ختم کریں… مگر جو بھی کہنا ہو… سامنے ہمارے منہ پر کہیں… چوری چھپے دوسرے لوگوں سے باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔” منصور علی نے اکھڑ انداز میں کہا۔
”منصور! تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”آپ سے کس نے کہا کہ میں پریشان ہوں… میں بالکل بھی پریشان نہیں ہوں… پریشان تو میں تب ہوں گا جب آپ کے گھر میری بیٹیاں چلی جائیں گی… ابھی تو وہ اپنے باپ کے گھر میں ہیں عیش کر رہی ہیں… ابھی مجھے کیا پریشانی۔” منصور نے ان کی بات کاٹ کر بہت تیز اور بلند آواز میں کہا۔ مسعود علی کچھ دیر کچھ بھی نہیں بول سکے پھر وہ یک دم اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔




”میں گھر جارہا ہوں… ابھی شبانہ سے بات کرتا ہوں… پوچھتا ہوں اس سے کہ اس نے ایسی بکواس کیوں کی ہے اور تم سے میں بہت معذرت چاہتا ہوں۔”
”بھائی جان! آپ کی معذرت سے کیا ہوگا… آپ نے کچھ کہا نہیں تو آپ معذرت کیوں کر رہے ہیں… اور میں ویسے بھی معذرتوں پر یقین رکھنے والا آدمی نہیں ہوں… یا تو بندہ غلط کام کرے ہی نا اور اگر کرے تو پھر اپنی غلطی تسلیم کرے اور معافیاں مانگنے کے بجائے آئندہ وہ غلطی کبھی نہ دہرائے مگر جو لوگ صرف معافیاں مانگتے رہتے ہیں… وہ اپنی غلطیاں دوبارہ بلکہ سہ بارہ بھی دہراتے ہیں، اس لیے آپ معافی وغیرہ نہ مانگیں صرف شبانہ بھابھی کو آئندہ کے لیے ایسی باتوں سے منع کر دیں… کیونکہ آئندہ میں نے ایک بھی ایسی بات کسی کے منہ سے سنی تو میں یہ تمام معاملہ ختم کرنے میں دیر نہیں لگاؤں گا… مجھے اپنی اولاد بہت پیاری ہے اور یہ بات آپ کو معلوم ہونی چاہیے۔”
اس بار منصور علی نے قدرے ٹھنڈے انداز میں بات کی مگر ان کے لہجے میں وہی سرد مہری تھی۔ مسعود علی نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا بلکہ کسی قدر برہمی کے عالم میں کمرے سے نکل گئے۔
٭٭٭
”تم اپنی زبان پر آخر قابو کیوں نہیں رکھ سکتیں؟” مسعود علی دھاڑ رہے تھے… وہ کچھ دیر پہلے ہی آفس سے آئے تھے طلحہ ان کے ساتھ تھا اور وہ دونوں باپ بیٹے خاصے غصے میں تھے۔
”تمہاری وجہ سے چھوٹے بھائی کے ہاتھوں آج میری کتنی بے عزتی ہوئی ہے… تمہیں اس کا احساس ہے۔” شبانہ کے حواس مکمل طور پر مفلوج ہو رہے تھے… ان کا رنگ بھی اڑا ہوا تھا کیونکہ مسعود علی نے آکر انہیں جو باتیں بتائی تھیں ان میں سے کچھ باتیں وہ اگرچہ منصور علی کے گھر والوں اور امبر اور صبغہ کے بارے میں کہتی رہی تھیں مگر زیادہ باتیں ایسی تھیں جن کا انہیں کچھ پتا نہیں تھا جس نے بھی ان کی باتوں کو آگے پہنچایا تھا، اس نے ہر بات کو بڑھا چڑھا کر بتایا تھا اور اب شوہر اور بیٹے کے تیور انہیں پریشان کر رہے تھے تو ساتھ ساتھ یہ سوچ کر بھی ان کی سٹی گم ہو رہی تھی کہ یہ تمام باتیں منیزہ اور منصور تک پہنچ چکی ہیں۔
”مسعود! مجھے تو سرے سے پتا ہی نہیں کہ یہ باتیں منیزہ اور منصور تک کس نے پہنچائی ہیں، میں نے ایسا کبھی کچھ بھی نہیں کہا۔” وہ ہکلاتے ہوئے اپنی صفائیاں دینے کی کر رہی تھیں۔
”جھوٹ مت بولو، کئی بار تو تم نے میرے سامنے منیزہ اور امبر کے بارے میں ایسی باتیں کی ہیں اور میں نے تمہیں منع بھی کیا ہے۔” مسعود علی نے درشتی سے کہا۔
”جو بھی کہا ہے آپ سے کہا ہے مگر یقین کریں، میں نے کسی دوسرے سے آج تک کچھ نہیں کہا اور میں آخر ایسا کچھ کیوں کہوں گی، میں بے وقوف تو نہیں ہوں۔”
”بے وقوف ہو یا نہیں مگر تم نے میرے لیے خاصی مشکلات کھڑی کر دی ہیں… منصور تو اتنے غصے میں تھا کہ وہ رشتہ ختم کرنے پر تلا ہوا تھا۔” مسعود نے تلخی سے کہا۔
”پاپا! جو باتیں انہو ںنے ان لوگوں کے بارے میں کی ہیں، وہ کوئی بھی سنے گا تو انکل منصور کی طرح ہی ری ایکٹ کرے گا۔” اس بار طلحہ نے گفتگو میں مداخلت کی۔
”اب یہ کوئی بات ہے جو انہو ںنے کی ہے کہ امبر اور صبغہ مجھ سے اور اسامہ سے ملتی رہتی ہیں۔ انہیں کسی قسم کا کوئی لحاظ اور شرم نہیں ہے… نہ انہیں نہ ان کی ماں کو… ساتھ ان کے لباس پر بھی اعتراض کر رہی ہیں۔
”طلحہ! میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔” شبانہ نے کمزور سے لہجے میں اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
”اب یہ تو نہ کہیں کہ آپ نے سرے سے ایسا کچھ کہا ہی نہیں آپ نے کچھ نہ کچھ تو کیا ہو گا کہ اس پر یہ سارا ہنگامہ کھڑا ہو رہا ہے۔” طلحہ مکمل طور پر ماں سے بدگمان ہو رہا تھا۔
”آپ سوچیں ذرا اب میں امبر اور منیزہ چچی کا سامنا کیسے کروں گا… فون تو وہ لوگ پہلے ہی ریسیو نہیں کر رہیں اور منیزہ چچی نے صاف صاف مجھے فون پر کہا ہے کہ اب میں دوبارہ کبھی فون نہ کروں کیونکہ میری ماں کو یہ پسند نہیں ہے اور وہ یہ نہیں چاہتیں کہ پورے خاندان میں میری ماں انہیں اور ان کی بیٹیو ںکو میرے میل جول کے حوالے سے بدنام کرتی پھرے… میرے پاس ان کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا… کیونکہ وہ بالکل ٹھیک کہہ رہی تھیں… ان کی جگہ کوئی بھی ہوتا، وہ یہی کرتا۔”
”یہ سارا فساد منیزہ کا پھیلایا ہوا ہے… وہی مجھے شوہر اور بیٹے کی نظروں میں اس طرح گرانا چاہتی ہے۔” شبانہ نے کہا۔
”منیزہ کو اگر ایسی حرکتیں کرنا ہوتیں تو وہ ہم سے اس طرح کا رشتہ ہی قائم نہ کرتی اور وہ بھی اب جب امبر اور طلحہ کی شادی میں چند ماہ رہ گئے ہیں۔” مسعود علی نے کہا۔
”تم نے ایسا کچھ کہا ہے یا نہیں تم میرے ساتھ منصور کے گھر چلو گی اور وہاں ان دونوں سے معذرت کرو گی۔”
”معافی مانگنے جاؤں… کس لیے معافی مانگنے جاؤں… جب میں نے کچھ کہا ہی نہیں۔” شبانہ نے انکار کرتے ہوئے کہا۔
”تم نے یہ باتیں نہیں کہیں تو کیا تمہارے فرشتوں نے یہ سب کچھ منیزہ تک پہنچایا ہے۔” مسعود علی نے اس کے انکار پر برہم ہوتے ہوئے کہا۔
”مجھے تو یہ سب کچھ منیزہ کی اپنی پلاننگ لگتی ہے۔” شبانہ نے ناپسندیدگی سے کہا۔
”ذکیہ نے بتایا ہے مجھے کہ امبر کی کچھ دوستوں کے بھائیوں کے رشتے گئے ہیں امبر کے گھر۔ ہو سکتا ہے…” اس بار مسعود علی نے تیز آواز میں شبانہ کی بات کاٹی۔
”کتنی احمق عورت ہو تم… کس طرح کی سوچ ہے تمہاری… کہ وہ اپنی بیٹیوں کے نکاح تمہارے بیٹوں کے ساتھ کرے گی اور جب رخصتی ہونے والی ہو گی تو وہ کہیں اور ان کے رشتے ڈھونڈنا شروع کر دے گی۔”
”مجھے کیا پتا، میںتو آپ کو وہی بتا رہی ہوں جو ذکیہ نے بتایا ہے۔”
”جس طرح تم احمق ہو، اسی طرح تمہاری بیٹیاں بھی عقل سے پیدل ہیں، اب اگر یہ بات بھی منیزہ اور منصور تک پہنچ جائے تو وہ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے۔ پہلے تو شاید انہو ںنے کوئی رشتہ نہ ڈھونڈا ہو… مگر اس طرح کی باتیں سننے کے بعد تو وہ یقینا اپنی بیٹیوں کے لیے رشتے ڈھونڈنا شروع کر دیں گے۔” مسعود علی نے کہا۔
”اور امبر کو ذکیہ کی باتوں کا پتہ چلے تو وہ اس کے بارے میں کیا سوچے گی…امی! یہ سب کچھ آپ کی وجہ سے ہو رہا ہے… آپ جس طرح کی باتیں خود کرتی ہیں… ویسی ہی باتیں آپ کی بیٹیاں کرتی ہیں… اب ذکیہ کو کیسے پتا چلا ہے کہ امبر کے ہاں اس کی کسی دوست کے بھائی کا پرپوزل گیا ہے۔” طلحہ نے غصے سے کہا۔
”اس کو سعدیہ نے بتایا ہے، سعدیہ آج کل کالج میں امبر کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔” شبانہ نے فوراً اپنی بیٹی کا دفاع کرتے ہوئے کہا۔
”سعدیہ نے اگر یہ بتایا ہے تو غلط بھی ہو سکتا ہے… کالج میں ساتھ رہنے کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ سعدیہ جو کچھ بھی کہے گی وہ سچ بھی ہو گا آپ نے ذکیہ کو ڈانٹا کیوں نہیں کہ اس نے اس طرح کی بات سعدیہ سے کیوں سنی اور پھر آپ تک کیوں پہنچائی… اسے ڈانٹنے کے بجائے آپ نے یہ بات ہم لوگوں تک پہنچا رہی ہیں۔” طلحہ نے کہا۔
‘تمہاری ماں کیسے ڈانٹتی اسے، جو تمہاری ماں کی فطرت وہی ذکیہ کی فطرت… اسے تو اس طرح کی بات سن کر ویسے ہی بڑی خوشی ہوئی ہوگی۔” مسعود علی نے اس بار کچھ طنزیہ انداز میں کہا۔
”آپ لوگ جتنی بے عزتی میری کرنا چاہتے ہیں کر لیں… پہلے میں آپ کو بری لگ رہی تھی اب میری بیٹی بھی بری لگنے لگی۔” شبانہ نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
”ہم کیا بے عزتی کریں گے تمہاری، بے عزتی تو وہ ہے جو منصور علی نے میری کی ہے۔ تم کر سکتی ہو منصور علی کا سامنا؟” مسعود علی نے کہا۔
”ہاں کر سکتی ہوں اس کا سامنا… جب میں نے کوئی بات ہی نہیں کی… تو مجھے کوئی خوف بھی نہیں ہے۔” شبانہ نے بڑے دھڑلے سے کہا۔
”تم جانتی ہو اگر منصور علی نے تمہاری وجہ سے یہ دونوں رشتے ختم کر دیے تو کیا ہو گا؟”
”کیا ہوگا؟”
”میں اور تمہارے بیٹے تینوں سڑک پر پڑے ہوں گے۔ وہ مکھن سے بال کی طرح نکال کر ہمیں فیکٹری سے باہر پھینک دے گا اور اس کے ساتھ ہی یہ سارے عیش بھی ختم ہو جائیں گے… پھر تم اپنی قینچی کی طرح چلنے والی زبان کا خمیازہ خود بھی بھگتو گی اور تمہارے ساتھ ساتھ ہم بھی بھگتیں گے۔” مسعود علی نے تلخی سے کہا اس بار شبانہ چپ رہیں۔
”امی کو اس بات کی کیا پرواہ… ہمارا گھر خراب ہو… ان کی بلا سے… ان کے لیے تو بس اتنا ہی کافی ہے کہ انہوں نے دوسروں کی بے عزتی کرنی تھی وہ کر لی۔” طلحہ نے باپ کی بات میں لقمہ دیا۔
”ماں کو اپنی بیوی کے گھر لے جا کر معافی منگواتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آئے گی؟”
”تو ماں کو بھی تو ایسی باتیں کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے کہ جس پر بعد میں معافی مانگنے کی نوبت آئے۔” طلحہ نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”تم پر پہلے ہی امبر اور اس کی ماں کا اتنا اثر ہے تو بعدمیں تم کیا کرو گے، مجھے تو دھکے دے کر گھر سے نکال دو گے۔” شبانہ نے بیٹے پر طنز کیا۔
”آپ نے سنا پاپا! یہ بالکل وہی بات ہے جو منصور انکل نے آپ کو امی کے حوالے سے بتائی تھی کہ امی کہتی ہیں کہ امبر اور منیزہ نے میرے بیٹوں کو اپنی مٹھی میں کر رکھا ہے وہ ماں کی بات سنتے ہی نہیں… اور پھر بھی امی بار بار یہ کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے ایسی کوئی بات کی ہی نہیں۔” طلحہ نے باپ کی طرف مڑتے ہوئے بڑے غصے سے ان سے کہا۔ ”پھر میں انہیں جھوٹا نہ سمجھوں تو اور کیا سمجھوں۔” شبانہ اس کی بات پر سٹپٹا کر رہ گئیں۔
”تم دونوں آخر اب مجھ سے چاہتے کیا ہو؟” انہوں نے کچھ بے بسی کے عالم میں ان سے کہا۔
”جو چاہتے ہیں وہ پہلے ہی بتا چکے ہیں… میرے ساتھ منصور کے گھر چلو اور اس سے معذرت کرو۔” مسعود علی نے بڑی بے رخی سے کہا۔ ”یا پھر میں یہ رشتے ختم کر دیتا ہوں… میں تو اب منصور کا سامنا نہیں کر سکتا۔”
”ہاں بہتر ہے پاپا! آپ یہ رشتہ ختم کر ہی دیں… امی کی اس طرح کی باتوں کے بعد باقی تو کچھ رہ بھی نہیں گیا۔” طلحہ نے بھی باپ کی ہاں میں ہاں ملائی۔
شبانہ کچھ اور سٹپٹا گئیں… یکدم ہی انہیں سب کچھ اپنے ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ پورے خاندان میں ان رشتوں کی وجہ سے ان کی ایک ساکھ بن گئی تھی، انہیں وہ ڈوبتی ہوئی نظر آنے لگی… اور مسئلہ صرف ساکھ کا ہی نہیں تھا۔ انہیں یک دم ہی اپنے ہاتھوں سے وہ روپیہ نکلتا ہوا نظر آنے لگا جو صبغہ اور امبر کے جہیز کی صورت میں ان کے گھر کی زینت بننے والا تھا۔
”ٹھیک ہے اگر تم لوگ یہی چاہتے ہو تو میں منصور علی کے گھر جانے کو تیار ہوں۔” شبانہ نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
”صرف وہاں جانا ہی نہیں، تمہیں معذرت بھی کرنی ہے۔” مسعود علی نے انہیں یاد دلایا۔
”جب جارہی ہوں تو معذرت بھی کر لوں گی… حالانکہ میں نے…” طلحہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”امی! اب آپ پھر وہی راگ الاپنا شروع مت کریں، بس اتنا ہی کافی ہے کہ آپ وہاں جاکر ان سے اپنے رویے اور باتوں کے لیے معذرت کریں اور آئندہ کسی شکایت کا موقع نہ دینے کے بارے میں یقین دہانی کروا دیں۔” طلحہ نے ماں کی بات کاٹتے ہوئے بے رخی سے کہا۔
”اور میری آپ سے درخواست ہے کہ آئندہ آپ ایسی کوئی بات نہ ہی کریں تو بہتر ہے… اگر مجھے اپنی بیوی کی کسی بات یا لباس پر اعتراض نہیں ہے تو آپ اعتراض کرنے والی کون ہوتی ہیں وہ جینز پہنے یا شلوار قمیص یہ میرا اس کا مسئلہ ہے… آپ اس میں دخل اندازی کیو ںکر رہی ہیں اور اگر ہم دونوں مل رہے ہیں تو بھی یہ ہمارا مسئلہ ہے آپ کو اس کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔”
طلحہ ترشی سے کہتے ہوئے لاؤنج سے نکل گیا۔
”بس یہی سننا تھا تمہیں بیٹے کی زبان سے… سن لیا؟ تسلی ہو گئی یا ابھی کچھ اور سننا چاہتی ہو، ابھی تو اسامہ کو پتا چلے گا تو وہ بھی آئے گا تمہارے پاس اسی طرح دندناتا ہوا، تم واقعی ایک احمق عورت ہو۔” مسعود علی نے اس سے کہا۔
”یہ ساری بے عزتی آپ کی وجہ سے ہوئی ہے… اگر آپ بیٹے کو لے کر اس طرح مجھ پر نہ چڑھ دوڑتے تو اس کی ہمت نہ ہوتی ایسی باتیں کرنے کی۔” طلحہ کے وہاں سے جاتے ہی شبانہ نے بلند آواز میں مسعود علی سے کہا۔
”وہ کوئی چار پانچ سال کا بچہ نہیں ہے کہ جو میں کروں گا وہی کرے گا۔ یا جو میرے کہنے پر سب کچھ کرے گا۔ اب تم ان کے بارے میں سرے سے کچھ کہنا ہی مت… کم از کم تب تک جب تک امبر اور صبغہ بیاہ کر اس گھر میں نہیں آجائیں، منصور نے مجھ سے صاف صاف کہا ہے کہ اگر اس نے اب ایسی کوئی بات اپنی بیٹیوں کے بارے میں سنی تو وہ یہ رشتے ختم کرنے میں دیر نہیں کرے گا۔” مسعود علی نے شبانہ کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا۔
”اور وہ جس مزاج کا آدمی ہے… میں جانتا ہوں، وہ واقعی ایسا کر گزرے گا۔ اس لیے اب تم اپنی زبان بند ہی رکھنا۔”
”آپ نے منصور سے یہ کیوں نہیں کہا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔” شبانہ نے مسعود علی سے شکوہ کرتے ہوئے کہا۔
”وہ تو بری طرح آگ بگولہ ہو رہا تھا۔ میری کوئی بات سننے پر تیار ہی نہیں تھا۔”
”آپ اس سے کہیے کہ وہ اس آدمی کا نام بتائے جس نے ان تک یہ سارا جھوٹ پہنچایا ہے۔”
”وہ اس پر تیار ہی نہیں تھا او راس کا فائدہ بھی کیا ہوتا اگر وہ شخص تمہارے منہ پر کہہ دیتا کہ تم نے یہ سب کچھ کہا ہے تو پھر؟… باتیں تو تم ایسی کرتی رہتی ہو، یہ تو میں جانتا ہوں۔” مسعودعلی نے کچھ بے زاری سے کہا۔
”مگر میں…” مسعود نے شبانہ کی بات کاٹ دی۔
”اب ان ساری باتوں کو چھوڑو، میں دوبارہ فیکٹری جارہا ہوں۔” مسعود علی بھی لاؤنج سے نکل گئے۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!