تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

بیس سالوں میں ان کے ہاں چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی۔ روشان کے بعد ان کے ہاں دو اور بیٹیوں کی پیدائش ہوئی اور ان دو بیٹیوں کی پیدائش نے روشان کی اہمیت کو اور زیادہ کر دیا، وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا اور اکلوتا بیٹا جتنا لاڈلا ہوسکتا تھا وہ بھی تھا اگرچہ منیزہ کو اس بات کا قلق تھا کہ ان کا صرف ایک بیٹا تھا اور روشان کے حوالے سے اکثر ان کے دل میں بہت سے خدشات بھی پیدا ہوتے رہتے مگر پھر وہ یہ سوچ کر خود کو تسلی دے لیتیں کہ کم از کم ان کا ایک بیٹا، تو ہے وہ اس عدم تحفظ کا شکار تو نہیں تھیں جن کا شکار وہ عورتیں ہوتی ہیں جن کا کوئی بیٹا نہیں ہوتا۔
وہ ان عورتوں میں سے نہیں تھیں جن کی ساری توجہ کا مرکز گھر ہوتا ہے یا پھر اولاد کی تعلیم و تربیت… یہ دونوں چیزیں ان کے لیے ترجیحات کی فہرست میں خاصی نیچے تھیں۔
وہ اگر کچھ زیادہ پڑھی لکھی ہوتیں تو پھر شاید ان کا زیادہ تر وقت کلبوں اور نام نہاد سوشل ورک یا پارٹیز میں گزرتا۔ کم تعلیم نے انہیں ان آسائشات سے محروم کر دیا۔ اب انکا زیادہ وقت شاپنگ میں گزرتا تھا یا پھر مختلف رشتہ داروں کے ہاں آنے جانے میں۔
جب وہ دوبئی میں تھیں تو اس وقت بھی ان کی روٹین ایسی ہی تھی وہاں رشتہ داروں کی بجائے وہ آس پاس کے گھروں اور منصور علی کے دوستوں کی بیویوں کے ساتھ مصروف رہتیں، پاکستان میں ان کی ان مصروفیات میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔
آج بھی وہ اسی قسم کی ایک بے مقصد شاپنگ کر رہی تھیں۔ اور پچھلے دو گھنٹوں سے مختلف دکانوں سے کچھ نہ کچھ خریدتی جارہی تھیں۔ ان کے ساتھ ان کی ایک ملازمہ بھی تھی جو ہر دکان سے اکٹھے کیے جانے والے شاپرز کے ڈھیر سنبھالنے میں مصروف تھی۔
سیلز مین بالآخر جوتا لے آیا تھا۔ منیزہ نے بڑے انداز سے اپنا پاؤں آگے کر دیا اور سیلز مین ان کے پاؤں میں جوتا پہنانے لگا۔ جوتا پہنانے کے بعد اس نے حسب عادت جوتے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیے منیزہ نے ناقدانہ نظروں سے پیر میں پہنے ہوئے جوتے کو دیکھا۔ ان کے پاؤں خوبصورت تھے مگر ان کے جسم کی طرح فربہ تھے اور وہ باریک بلیک اسٹیرپیس والا جوتا ان کے پاؤں میں پھنسا ہوا کچھ عجیب ہی لگ رہا تھا مگر انہوں نے اپنی قوتِ بصارت پر یقین کرنے کے بجائے اپنی ملازمہ سے رائے لینا ضروری سمجھا۔




”کیسا لگ رہا ہے نسرین؟” انہوں نے اپنے پاؤں کو تھوڑا سا نسرین کے آگے کرتے ہوئے کہا۔
”بہت اچھا لگ رہا ہے۔ بیگم صاحبہ!” نسرین نے سیلز مین کی ہاں میں ہاں ملائی۔ وہ جانتی تھی اس سے اسی رائے کی لیے رائے مانگی گئی ہے۔
”خرید لیتی ہوں پھر۔” منیزہ کو جیسے کچھ اور تسلی ہوئی۔
سیلز مین کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہو گئی۔ اس نے اس جوتے اور ان کے پاؤں کے لیے کچھ اور خوشامدی کلمات کہے۔ منیزہ کے رشک و غرور میںکچھ اور اضافہ ہوا۔
بل بنوانے کے بعد بڑی لا پروائی کے ساتھ انہوں نے مطلوبہ رقم نکال کر کاؤنٹر پر رکھی اور دکان سے باہر نکل گئیں۔ ملازمہ شاپرز کے پہلے ڈھیر کے ساتھ ان نئے شاپرز کو بھی سنبھالے ہوئے تھی جب وہ دکان سے باہر نکلی تب تک منیزہ سیڑھیاں اتر چکی تھیں اور اب کچھ متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں۔ جب ملازمہ ان کے پاس پہنچی تو منیزہ نے کہا۔
”میرا خیال ہے اب چلنا چاہیے۔ میں آج شبانہ کی طرف جانے کا سوچ رہی ہوں۔ وہاں سے ہوتے ہوئے واپس چلیں گے۔”
انہوں نے ملازمہ کو اپنا آئندہ کا پروگرام بتاتے ہوئے قدم آگے بڑھا دئیے۔ ملازمہ نے دل میں ہی میں خدا کا شکر ادا کیا۔ وہ شاپرز کے مزید بوجھ سے بچ گئی تھیں۔
پارکنگ میں موجود گاڑی میں بیٹھ کر منیزہ نے ڈرائیور سے کہا۔
”سیدھا گھر نہیں جانا، پہلے مسعود بھائی کی طرف جانا ہے۔” ڈرائیور نے بڑے مؤدبانہ انداز میں ان کی ہدایات سنیں اور پھر گاڑی کو مطلوبہ راستے پر ڈال دیا۔
وہ جس وقت شبانہ کے ہاں پہنچیں اس وقت سہ پہر کے دو بج رہے تھے، شبانہ نے بڑی خوش دلی کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔
”میں شاپنگ کے لیے نکلی تھی راستے میں میرا دل چاہا آپ کی طرف آنے کو۔ اور میں ادھر نکل آئی۔” منیزہ نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے شبانہ کو بتایا۔
”اچھا کیا تم آگئیں۔ میں بھی کچھ دیر پہلے تمہیں ہی یاد کر رہی تھی۔ خانساماں سے آج میں نے کچھ نئی ڈشز بنوائی ہیں۔ میں سوچ رہی تھیں کہ تمہیں بھجواؤں مگر اب دیکھو۔ تم خود ہی آگئی ہو۔” شبانہ جانتی تھیں، منیزہ اچھے کھانے کی شوقین تھی۔
منیزہ ان کی بات پر حسب توقع خوش ہوئیں۔
”اس کا مطلب ہے، میں نے ادھر آکر واقعی اچھا کیا کھانے کا میرا موڈ تو نہیں مگر اب اگر آپ نے کوئی خاص ڈشز بنوائی ہیں تو میں کھائے بغیر تو نہیں رہ سکتی۔” منیزہ نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”آپ کا خانساماں تو ویسے بھی کمال کے کھانے پکاتا ہے۔ میں تومنصور سے کہہ رہی تھی کہ مسعود بھائی کو کہہ کر اسی خانساماں کو اپنے ہاں لے آئیں۔ ہمارا خانساماں تو بالکل بھی اچھا نہیں ہے۔” منیزہ نے فوراً کہا۔
”بھئی میں تو سو بار اسے تمہارے ہاں بھیجنے کو تیار ہوں مگر وہ پچھلے پندرہ سال سے ہمارے یہاں ہے یہاں سے جانے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ ابھی پچھلے ہفتے رضی بھائی آئے ہوئے تھے، اسے اپنے ساتھ کوریا چلنے کے لیے کہہ رہے تھے اس نے انکار کر دیا حالانکہ وہ اسے جس تنخواہ کا کہہ رہے تھے، وہ تو اس کی موجودہ تنخواہ سے تقریباً دوگنی تھی مگر وہ جانے پر تیار نہیں ہوا” شبانہ نے بڑے فخریہ انداز میں کہا۔
”بس بھابھی! آپ ہیں ہی خوش قسمت ورنہ آج کل اس طرح کے ملازم… اور خاص طور پر خانساماں کہاں ملتے ہیں۔” منیزہ نے کہا۔
”میں تو بس خانساماں کی حد تک ہی خوش قسمت ہوں۔ تم تو ہر لحاظ سے خوش قسمت ہو۔ یہ بتاؤ شاپنگ کیا کی ہے؟” شبانہ نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”کوئی خاص نہیں۔ بس کچھ کپڑے لیے ہیں کچھ جوتے لیے ہیں… بچوں کی کچھ چیزیں لی ہیں۔” منیزہ انہیں تفصیل بتانے لگیں۔ ”کچھ گھر کے لیے ڈیکوریشن پیسز لیے ہیں بس یہی کچھ ہے۔”
”یہ تو خاصی لمبی چوڑی شاپنگ ہو گی۔” شبانہ نے کہا۔
”کہاں بھابھی! لمبی چوڑی کہاں، بس دو گھنٹے ہی لگے ان سب چیزوں کو لیتے ہوئے لمبی چوڑی شاپنگ ہوتی تو کم از کم سات آٹھ گھنٹے لگتے۔” منیزہ نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”بس تمہاری اور ہماری شاپنگ میں یہی تو فرق ہوتا ہے تم جتنے وقت میں معمولی سی شاپنگ کرتی ہو ہم اتنی دیر میں تمام شاپنگ کر لیتے ہیں۔” شبانہ نے اس سے کہا ”تمہارے مسعود بھائی تو اتنی بری طرح چڑتے ہیں شاپنگ کے ذکر پر جس کی کوئی حد نہیں… یہ تو بس منصور ہی ہے جوماتھے پر ایک شکن لائے بغیر تم لوگوں کو پھراتا رہتا ہے۔” منیزہ ان کی بات پر ہنسیں۔
”بھابھی! یہ بات آپ ذرا منصور کے سامنے کہیں تو پھر آپ کو پتا چلے۔ وہ کتنی خوش دلی سے شاپنگ کرواتے ہیں۔ انہیں بھی دس دفعہ کہنا پڑتا ہے۔ تب کہیں جا کر وہ ساتھ چلنے پر تیار ہوتے ہیں۔” وہ بھی اس وعدہ پر کہ ایک آدھ گھنٹہ سے زیادہ نہیں لگے گا۔ آپ ہی بتائیں ایک آدھ گھنٹہ میں کیا شاپنگ ہو سکتی ہے میں تو ایک آدھ گھنٹہ ایک شاپ پر چیزیں نکلواتے ہوئے لگا دیتی ہوں اور منصور ہر بار ناراض ہو کر کہتے ہیں کہ وہ آئندہ مجھے شاپنگ کے لیے نہیں لے جائیں گے۔”
”چلو وقت کے بارے میں ہی ناراض ہوتا ہے، روپیہ خرچ کرنے پر تو نہیں نا۔ ایک مسعود ہیں وہ تو میرے شاپنگ کرنے پر ہی روک ٹوک کرتے رہتے ہیں۔ ”ابھی پچھلے ہفتے تو گئی تھیں تم، اب ایسی کیا ایمرجنسی آن پڑی” ان کی زبان پر ہر وقت بس یہی ایک جملہ ہوتا ہے۔”
شبانہ نے کچھ تلخی سے کہا۔ ”اب بندہ انہیں کیا بتائے کہ اب ایک ہفتہ اگر کوئی شاپنگ کے لیے چلا گیا ہے تو یہ کوئی حج پر جانے کے مترادف تو نہیں ہو گیا کہ اب بس اگلے سال ہی جایا جائے اگلے ہفتے نہیں۔ میں تو انہیں بھی منصور کی مثال دیتی رہتی ہوں کہ کچھ چھوٹے بھائی سے ہی سیکھ لیں۔ جو بیوی اور بچوں کو عیش کروا رہا ہے مسعود تو بس پابندیاں ہی لگاتے رہتے ہیں۔”
”نہیں بھابھی! مسعود بھائی بڑے اچھے ہیں۔ اتنے برے بھی نہیں ہیں۔” منیزہ نے مسعود علی کا دفاع کرنے کی کوشش کی شبانہ متاثر نہیں ہوئی۔
”مگر منصور جیسے نہیں ہیں۔ منصور تو خاندان میں اپنی مثال آپ ہے کوئی دوسرا آدمی نہ اس جیسا بیٹا ثابت ہوا، نہ شوہر، نہ باپ۔” شبانہ نے ایک بار پھر منصور کی تعریف کی۔
”اب تم دیکھو امبر کو، اس نے ایک بار کہنے پر گاڑی دلا دی۔ وہ بھی اتنی مہنگی۔ دوسری طرف میں نے مسعود سے طلحہ کے بات کی تو وہ کہنے لگے کہ طلحہ کو ابھی گاڑی بدلنے کی کیا ضرورت ہے، وہی پرانی گاڑی ہی ٹھیک ہے۔” شبانہ نے شکایتی اندازمیں کہا۔ ”اب دو سال پرانی گاڑی چلاتے ہوئے وہ کتنا برا محسوس کرتا ہے، یہ تو صرف میں ہی جانتی ہوں امبر کے سامنے بھی شرمندگی محسوس کرتا ہے مگر مسعود، ان کو بھلا کون سمجھائے؟ ان سے بات کرو تو وہ گھر میں موجود گاڑیاں گنوانے بیٹھ جاتے ہیں۔ میں نے تو اس بار فیصلہ کیا ہے کہ جو بھی ہو، میں بھی طلحہ کو نئی گاڑی دلواؤں گی چاہے مجھے اپنا زیور ہی کیو ںنہ بیچنا پڑے۔” شبانہ نے کہا۔
”کیسی بات کر رہی ہیں بھابھی؟” منیزہ نے فوراً انہیں ٹوکا۔ ”بھلا زیور بیچ کر آپ کو طلحہ کے لیے نئی گاڑی لینے کی کیا ضرورت ہے امبر نے جوگاڑی لی ہے، وہ طلحہ ہی کی تو ہے۔ آپ کا گھر مکمل ہو جائے تو بس امبر کی رخصتی کر دیں گے اور سات آٹھ ماہ ہی تو ہیں پھر وہ گاڑی طلحہ لے لے۔”
منیزہ کی بات پر شبانہ نے عجیب سی نظروں سے انہیں دیکھا۔
”طلحہ کو پرانی چیزیں استعمال کرنے کی عادت نہیں ہے۔ چیز وہی ہوتی ہے جو اپنی ہو اور ویسے بھی سات آٹھ ماہ وہ گاڑی استعمال ہو گی تو پھر اس میں رہ کیا جائے گا۔ تم وہ گاڑی رہنے ہی دینا۔ ہمارے گھر تین چار گاڑیاں ہیں۔ ضرورت ہی کیا ہے گاڑی دینے کی۔ بلکہ میں طلحہ سے کہوں گی کہ وہ شادی پر امبر کو گاڑی تحفے میں دے۔” شبانہ نے چبھتے ہوئے اندازمیں بظاہر ہنستے ہوئے کہا۔
”خاندان میں ایک نئی روایت قائم ہو گی بیٹی والے گاڑی دیتے ہیں ہم بیٹے والے ہو کر دیں گے۔ چلو اچھا ہے نا، خوب مزہ رہے گا۔”
منیزہ کو ان کی بات بری لگی۔
”نہیں۔ ایسی نئی روایتیں قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم امبر کو شادی پر نئی گاڑی لے دیں گے منصور ابھی اس کو گاڑی لے کر دے سکتے ہیں تو تب بھلا کیوں نہیں لے کر دیں گے۔”
منیزہ نے بھی بڑے کھردرے انداز میں جواب دیا شبانہ کا لہجہ اچانک ہی تبدیل ہو گیا۔
”ہم دونوں نے بھی کیا باتیں شروع کر دیں۔ آخر دونوں خاندان ایک ہی ہیں۔ ادھر کی چیز ادھر جائے یا ادھر کی ادھر آئے کیا فرق پڑتا ہے۔”
”میں نے تم سے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ تم کیا پیو گی۔” ان کے لہجے میں یک دم بڑی شگفتگی آگئی تھی مگر منیزہ کو اپنے لہجے کی تلخی چھپانے کے لیے خاصی محنت کرنی پڑی۔
”نہیں، کوئی ضرورت نہیں، مجھے خاصی دیر ہو رہی ہے۔ بہتر ہے میں گھر چلوں ویسے بھی بچے تو گھر آہی گئے ہوں گے۔” انہوں نے کلاک پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”لو، یہ کیا بات ہوئی، میں تمہیں کھانا کھلانے کا سوچ رہی ہوں اور تم جانے پر تلی ہوئی ہو۔” شبانہ نے خفگی سے کہا۔
”نہیں، کھانا پھر کبھی کھالوں گی۔” منیزہ نے انکار کیا ان کا موڈ اب خاصا آف ہو گیا تھا اور ان کے موڈ میں آنے والی یہ تبدیلی شبانہ سے پوشیدہ نہیں تھی۔
”پھر کبھی بھی کھا لینا مگر آج تو میں تمہیں کھانا کھلا کر ہی بھیجوں گی۔ بتایا تو ہے تمہیں تمہارے لیے ڈشز بھجوانے کا سوچے بیٹھی تھی میں اور تم ہو کہ اب آنے کے بعد ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو۔” شبانہ نے بڑی اپنائیت سے منیزہ سے کہا۔
اور پھر ان کا اصرار اتنا شدید ہو گیا کہ منیزہ کو رکنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ رہا۔
کھانا واقعی بہت لذیذ تھا اور شبانہ کے لہجے میں ان کے لیے اس قدر محبت اور اپنائیت تھی کہ ان کا بگڑا ہوا موڈ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوتا گیا۔ کھانا ختم ہونے تک دونوں ایک بار پھر بڑے خوشگوار انداز میںایک دوسرے کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھیں۔
منیزہ نے واپس گھر جانے سے پہلے شبانہ کو اپنی خریدی ہوئی تمام چیزیں بھی دکھائیں شبانہ تعریفیں کر رہی تھیں مگر چیزوں کی قیمت پر اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ منیزہ کو بہت لطف دے رہے تھے۔
شام چار بجے جب وہ شبانہ کے یہاں سے واپس آئیں تو خاصے خوشگوار موڈ میں تھیں۔
٭٭٭
صبغہ اس وقت لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں جب اسامہ لاؤنج میں داخل ہوا، صبغہ فوری طور پر اسے دیکھ نہیں پائی، ٹی وی کا والیم اونچا تھا اور وہ خاصے انہماک سے پروگرام دیکھنے میں مصروف تھی، اسامہ نے ایک بار اسے پکارا مگر اس کے متوجہ نہ ہونے پر وہ وہیں کھڑا ٹی وی اسکرین اور اس پر وقتاً فوقتاً نظریں دوڑاتا رہا۔
تقریباً آدھ گھنٹہ کے بعد پروگرام ختم ہوا تو صبغہ نے صوفہ پر پڑاہوا ریموٹ اٹھا کر چینل سرفنگ شروع کی اور اسی وقت اس کی نظر اسامہ پر پڑی جو بائیں طرف پڑے ہوئے ایک صوفہ پر بیٹھا ہوا تھا وہ یکدم گڑبڑا گئی۔
”آپ کب آئے؟” اس نے صوفہ کے سامنے رکھی ہوئی میز پر رکھے اپنے دونوں پاؤں برق رفتاری کے ساتھ نیچے رکھتے ہوئے کہا۔
اسامہ نے ایک نظر کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر دوڑائی اور کہا۔
”مجھے آدھا گھنٹہ ہو گیا ہے۔”
صبغہ نے کچھ بے یقینی سے اسے دیکھا۔ ”آپ آدھ گھنٹہ سے یہاں بیٹھے ہیں؟”
”اس میں اتنی ناقابلِ یقین بات کیا ہے؟” اسامہ اس کے تاثرات سے محظوظ ہوا۔ ”میں واقعی آدھ گھنٹہ سے یہاں بیٹھا ہوں۔”
صبغہ کی شرمندگی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ ”مجھے پتا ہی نہیں چلا۔” اس نے سرخ چہرے کے ساتھ ایک جھینپی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے۔ ٹی وی پر اس قدر جذباتی سین آرہا تھا اور اتنا رونا دھونا شامل تھا کہ خواتین کے لیے ٹی وی اسکرین سے نظریں ہٹانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی خواتین کے لیے اس سے زیادہ دلچسپ سین تو کوئی ہو ہی نہیں سکتے کہ شوہر دوسری شادی کر لے، یا بیوی کو طلاق دے دے۔” اسامہ بڑی دلچسپی سے کہہ رہا تھا۔
”یا پھر ساس بہو کا کوئی جھگڑا ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور تم بہر حال اپنی جنس کی ساری خصوصیات رکھتی ہو۔” اسامہ نے اسے چھیڑا حالانکہ وہ جانتا تھا وہ اس کی بات پر مشتعل ہو گی نہ ہی کسی بات پر اعتراض کرے گی۔
صبغہ کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔ ”آپ مجھے اپنی طرف متوجہ کر لیتے۔”
”میں نے تمہیں ایک بار آواز دی تھی…مگر پھر تمہارا انہماک دیکھ کر میں خاموشی سے بیٹھ گیا۔” اسامہ نے کہا۔
”آپ کیا لیں گے، چائے کافی، سافٹ ڈرنک” صبغہ نے موضوع بدل دیا۔
”کچھ بھی۔” اسامہ نے انتخاب اس پر چھوڑتے ہوئے کہا۔
”میں چند منٹوں میں آتی ہوں۔” وہ اٹھ کر لاؤنج سے باہر نکل گئی اسامہ سامنے میز پر پڑا ہوا ایک میگزین اٹھا کر دیکھنے لگا۔
وہ چند منٹوں کے بعد دوبارہ لاؤنج میں آگئی۔ اسامہ نے اسے آتا دیکھ کر اپنے ہاتھوں میں پکڑا ہوا میگزین ایک بار پھر ٹیبل پر رکھ دیا۔
”تمہاری اسٹڈیز کیسی جارہی ہے؟” اس کے صوفہ پر بیٹھتے ہی اسامہ نے پوچھا۔
”ٹھیک جارہی ہیں۔” صبغہ نے ہمیشہ کی طرح مختصر جواب دیا۔




Loading

Read Previous

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!