تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

”کالج میں ایڈجسٹ ہو گئی ہو تم؟”
”ہاں۔”
”میں پہلے ہی جانتا تھا، تم ایڈجسٹ ہو جاؤ گی…” اسامہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”یہ تو خیر ایک اچھا کالج ہے برا بھی ہوتا تب بھی تمہارا جواب اسی طرح کا ہوتا۔ تمہارے جیسے انسان کو کہیں بھی ایڈجسٹ منٹ پر برابلمز نہیں ہوتیں۔ تم بہت کمپرو مائزنگ ہو۔” اسامہ نے بڑے کھلے دل سے اس کی تعرف کرتے ہوئے کہا۔ ”مجھے تمہاری یہ کوالٹی بہت پسند ہے لڑکیوں میں یہ کوالٹی بہت نایاب ہوتی جارہی ہے۔” اس نے مزید کہا۔
”میں منیزہ چچی سے ملنے آیا تھا انہوں نے مجھے آنے کے لیے کہا تھا۔ کل فون کیا تھا کہہ رہی تھیں کوئی کام ہے۔” اسامہ نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔ ”مگر یہاں آیا ہوں تو پتا چلا ہے کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔ میں نے سوچا تم سے ملتا جاؤں… منیزہ چچی کہاں گئی ہیں؟”
”مجھے ٹھیک سے پتا نہیں ہے کیونکہ وہ جس وقت گئی تھیں، میں اس وقت سو رہی تھی۔ میرا خیال ہے وہ امبر کے ساتھ کہیں گئی ہیں شاید خالدہ پھوپھو کی طرف۔” صبغہ نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔
”خالدہ پھوپھو کی طرف تو نہیں گئیں۔ وہ تو ہماری طرف آئی ہیں۔ ابھی بھی وہیں تھیں جب میں گھر سے آیا ہوں۔” اسامہ نے سرہلاتے ہوئے کہا۔
پھر ہو سکتا ہے، وہ شاپنگ کے لیے گئی ہوں۔ امبر کل کہہ رہی تھیں۔” صبغہ نے بتایا تو اسامہ اس کی بات پر مسکرانے لگا۔
”ہاں یہ بات زیادہ قابل یقین ہے۔ وہ یقینا شاپنگ کے لیے ہی کہیں گئی ہوں گی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مجھے ان کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔” اسامہ نے ایک بار پھر اپنی گھڑی پر نظر دوڑاتے ہوئے شگفتگی سے کہا۔ صبغہ اس کی بات پر کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے صرف مسکرائی۔
ملازم چائے کی ٹرالی لے کر لاؤنج میں داخل ہو رہا تھا، صبغہ نے آگے بڑھ کر چائے کی ٹرالی لے لی اور چائے بنانے لگی۔
”تم ہماری طرف کب آؤ گی؟ امبر ہفتے میں دو تین بار آتی ہے اور تم دو تین ہفتوں سے نہیں آئیں کل امی بھی مجھ سے پوچھ رہی تھیں تمہارے بارے میں۔” اسامہ نے سنجیدگی سے کہا ”ان کا خیال ہے میرے ساتھ تمہارا کوئی جھگڑا ہو گیا ہے۔”
صبغہ اس کی بات پر مسکرانے لگی۔
”میں نے انہیں یقین دلایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔”
”آنٹی نے ایسا کیوں سوچا؟” صبغہ نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا۔




”امبر اور طلحہ کا خاصا جھگڑا ہوتا رہتا ہے آپس میں تو امی کا خیال ہے کہ ہم دونوں بھی ان ہی کے نقشِ قدم پر چلیں گے۔” اسامہ نے اس بار کچھ شگفتگی سے کہا۔
”میرے منتھلی ٹیسٹ ہو رہے ہیں میں اسی لیے نہیں آسکی اور امبر۔ آپ جانتے ہیں، وہ اپنے وقت کا استعمال بڑی خوبی سے کرتی ہے۔” صبغہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”تمہارے ٹیسٹ کب ختم ہوں گے؟” اسامہ نے پوچھا۔
”بس ایک رہ گیا ہے، پرسوں۔”
”اس کا مطلب ہے، پرسوں تم ہماری طرف آرہی ہو۔”
”پرسوں تو نہیں آسکوں گی۔” وہ کچھ ہچکچائی۔
”کیوں بھئی، پرسو ںکیو ںنہیں آسکوں گی؟” اسامہ نے پوچھا۔
”میری کچھ فرینڈز آئیں گی کالج سے میرے ساتھ، ایک چھوٹی سی گیٹ ٹو گیدر ہے ہماری۔” صبغہ نے بتایا۔
”اچھا پرسوں نہیں تو اس سے اگلے دن۔” اسامہ نے فوراً تجویز پیش کی۔
”میں ممی سے پوچھ لوں پھر آپ کو بتاؤں گی۔” صبغہ نے کہا۔
”تم فون پر مجھے بتا دینا… بلکہ اگر تم چاہو تو میں خود تمہیں لے جاؤں گا اور پھر واپس ڈراپ بھی کردوں گا۔” اسامہ نے آفر کرتے ہوئے کہا۔
”میں امبر کے ساتھ آجاؤں گی۔” صبغہ نے کچھ پس و پیش کرتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے، تم امبر کے ساتھ آجانا مگر طلحہ تو اسلام آباد گیا ہوا ہے۔ امبر تو ہماری طرف شاید نہ ہی آئے۔” اسامہ کو بات کرتے کرتے اچانک یاد آیا۔
”اگر وہ نہیں آئی تو پھر میں ممی کے ساتھ آجاؤں گی۔”
”چلو ایسا کر لینا، اور جب منیزہ چچی آئیں تو انہیںمیرے بارے میں بتا دینا، ان سے کہنا کہ مجھ سے فون پر بات کر لیں مگر رات نو بجے کے بعد۔ کیونکہ میں اس وقت تک گھر پر نہیں ہو ںگا۔”
اسامہ نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
”آپ جارہے ہیں؟’ صبغہ نے اسے اٹھتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
”ہاں مجھے ایک کام یاد آگیا ہے۔ چائے بہت اچھی تھی۔” وہ لاؤنج سے نکلتے ہوئے مسکرایا۔
٭٭٭
”اب اسامہ آگے کیا کرنا چاہتا ہے۔” منصور علی نے مسعود علی سے پوچھا وہ اس وقت ان کے آفس میں بیٹھے ہوئے تھے۔
”وہ ایم بی اے کرنا چاہتا ہے۔” سعود علی نے کہا۔
”بی بی اے کافی تھا۔ اسے کہیں کہ وہ بھی فیکٹری کو جوائن کر لے، بزنس کو سنبھالنا اب ہم تینوں کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔ وہ بھی آجائے گا تو کچھ آسانی ہو جائے گی۔” منصورعلی نے کہا۔
”یہ بات تو میں نے اس سے کہی ہے مگر وہ ابھی بزنس میں آنے پر تیار نہیں ہے۔” مسعود علی نے کہا۔ ”اب تم کہہ رہے ہو تو میں ایک بار پھر اس سے بات کروں گا بلکہ اصرار کروں گا۔”
”نہیں، آپ اسے مجبور نہ کریں، نہ ہی میں ایسا چاہتا ہوں، آپ بس اس سے ویسے ہی بات کریں اگر پھر بھی وہ اپنی ضد پر قائم رہے تو ٹھیک ہے۔ اسے ایم بی اے کر لینے دیں اس کا شوق بھی پورا ہو جائے گا اور ہمیں بھی چند سال بعد ایک اور قابل مینجر مل جائے گا۔” منصور علی نے شگفتگی سے کہا۔
”میں بھی اس کا شوق دیکھ کر ہی چپ ہو گیا تھا طلحہ کا تو تمہیں پتا ہے، اسے زیادہ دلچسپی نہیں تھی اسٹڈیز میں اس لیے بی بی اے کرنے کے بعد وہ خود ہی فیکٹری کی طرف آگیا مجھے کہنا ہی نہیں پڑا۔ مگر اسامہ کو کچھ زیادہ ہی شوق ہے ایم بی اے کا۔ حالانکہ میں نے اور شبانہ نے تو اس سے کہا بھی کہ آگے پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے دو سال بعد بھی اسے یہی فیکٹری سنبھالنی ہے تو ابھی کیوں نہیں، مگر تمہیں اسامہ کی ضد کا تو پتہ ہی ہے اگر ایک بار کوئی چیز ذہن میں آجائے تو بس پھر لاکھ سر پٹخیں، وہ اپنی کرکے چھوڑتا ہے میں نے بھی اس کا شوق دیکھ کر اسے ایڈمیشن لینے دیا ہے دو تین سال کی ہی تو بات ہے پھر وہ بھی ادھر ہی آجائے گا۔” مسعود علی نے تفصیل سے بتایا۔
”میں تو اکثر سوچتا ہوں اگر آپ اور طلحہ نہ ہوتے تو میں اتنے بڑے بزنس کو کیسے سنبھالتا روشان کو بڑا ہوتے تو ابھی کئی سال لگیں گے اور تب تک میں تو کام کے بوجھ سے ہی مارا جاتا۔” منصور علی نے بڑے تشکرانہ انداز میں کہا۔
”بھئی، ہم کون سے غیر ہیں تمہارے اپنے ہیں اور روشان بھی کون سا اکیلا ہے طلحہ اور اسامہ تو ہیں ہی…، تم یہی سمجھا کرو کہ تمہارے تین بیٹے ہیں۔” مسعود علی نے کہا۔
”یہ تو میں پہلے ہی سمجھ چکا ہوں ورنہ اتنا مطمئن اور پر سکون نظر کیوں آتا اور طلحہ نے تو ویسے بھی پچھلے دو سال سے بڑے اچھے طریقے سے کام کو سنبھالا ہے او ریہ سب آپ کی تربیت کا نتیجہ ہے ورنہ اس عمر کے لڑکوں میں اتنا احساس ذمہ داری اور سوجھ بوجھ نہیں ہوتی۔” منصور علی نے اپنے بڑے بھائی کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں، اپنے چچا پر گیا ہے اس میں تمہاری عادات ہیں۔” مسعود علی نے ان کی تعریفی کلمات کو اپنے طریقے سے لوٹایا۔
منصور علی نے ان کی بات پر خوش دلی سے ایک قہقہہ لگایا۔
”یعنی آپ سارا کریڈٹ مجھے دے رہے ہیں۔”
”بھئی وہ متاثر ہی تم سے ہے۔ تو میں کیا کروں ہر بات میں وہ تمہاری نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے منصور چچا یہ کام اس طرح کرتے ہیں، اس لیے میں بھی اسی طرح کروں گا۔ ”منصور چچا اس کام کو پسند نہں کریں گے اس لیے اسے رہنے دیں۔ بلکہ کئی بار تو وہ مجھ سے کہتا ہے ”بابا پلیز” آپ بھی منصور چچا سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں وہ آپ سے عمر میں اتنے چھوٹے ہیں مگر دیکھیں بزنس کو کتنی مہارت سے ہینڈل کر رہے ہیں۔”
منصورعلی نے ان کے کلمات پرایک اور قہقہہ لگایا۔
”تو آپ کیا کہتے ہیں اس سے؟” منصور علی نے کچھ محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
”بھئی مجھے کیا کہنا ہے میں تو یہی کہتا ہوں کہ تم تعریف نہیں کرو گے منصور چچا کی تو اور کون کرے گا تمہارا تو دہرا رشتہ ہے اس سے۔ بھتیجے بھی ہواور داماد بھی۔ جب کہ باپ کے ساتھ تو صرف ایک ہی رشتہ ہے۔” مسعود علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”برجستگی میں آپ کا کوئی جواب نہیں بھائی جان۔ وہ بیچارہ ابھی شرمندہ ہوجاتا ہو گا آپ کی اس بات پر۔” منصور علی نے خوشگوار انداز میں کہا۔
”ارے نہیں… ایسا کہاں ہوتا ہے۔ وہ تو بڑے فخریہ انداز میں کہتا ہے۔ Yes, I’m proud to be his son in law (ہاں مجھے ان کاداماد ہونے پر فخر ہے) اور تم کہتے ہو وہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو جاتا ہو گا۔” مسعود علی نے خوشدلی سے کہا۔
”مجھے یہ بتائیں کہ آپ کا گھر مکمل ہونے میں اور کتنا وقت لگے گا؟” منصور علی نے یک دم کچھ سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
”ابھی توکچھ ماہ ہیں انیکس مکمل نہیں ہوئی اور بھی چھوٹا موٹا خاصا کام ہے کیوں تمہیں اچانک گھر کا خیال کیسے آگیا؟”
”مجھے تو ہمیشہ آپ کے گھر کا خیال رہتا ہے گھر مکمل ہو گا، آپ وہاں شفٹ ہوں گے تب ہی تو میں امبر کی رخصتی کر سکوں گا میں اور منیزہ کم از کم ایک ذمہ داری سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں پھر انشاء اللہ دو سال کے بعد صبغہ کی رخصتی بھی کر دیں گے۔” منصور علی نے انہیں اپنے پلان سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔
”تم سے زیادہ تو مجھے اور شبانہ کو جلدی ہے بہو گھر لانے کی ہم تو چاہتے تھے، اسے رخصت کرکے اسی گھرمیں لے آئیں مگر تمہاری خواہش تھی کہ ہم اپنا گھر بنانے کے بعد وہاں شفٹ ہو- اور پھر امبر کی رخصتی ہو۔” مسعود علی بھی سنجیدہ ہو گئے۔
”آپ تو جانتے ہی ہیں، امبر سے مجھے کتنی محبت ہے وہ اتنی سہولتوں میں رہی ہے کہ آپ کا یہ گھر اسے بہت چھوٹا لگتا ہے۔” منصور علی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ”حالانکہ اس نے تو مجھ سے ایسی کوئی فرمائش نہیں کی تھی۔ مگر پھر بھی میں چاہتا تھا کہ آپ لوگ نئے گھر میں شفٹ ہو جائیں وہ ہے بھی بڑا، اور کچھ ہمارے گھر کے پاس بھی ہے امبر آسانی سے ہماری طرف آتی جاتی رہے گی۔
”یہی سوچ کر تو میں نے اور شبانہ نے بھی تمہارے کہنے پر فوراً اپنے نئے گھر کی تعمیر شروع کروا دی حالانکہ بچے تو کہہ رہے تھے کہ ابھی اس کی ضرورت نہیں ہے مگر مجھے اور شبانہ کو اندازہ تھا کہ تم نے امبر اور صبغہ کو کتنی آسائشوں میں پالا ہے۔ انہیں واقعی ہمارا گھر چھوٹا لگتا۔ بس اب چند ماہ ہی رہ گئے ہیں، اس کے بعد ہم لوگ رخصتی کروا لیں گے۔ تم لوگ تیاری کرتے رہو۔”
”ہماری تیاری تو پہلے ہی مکمل ہو چکی ہے نہ صرف امبر کی بلکہ صبغہ کی بھی۔ آپ تو منیزہ کو جانتے ہیں۔ وہ تو پتا نہیں کب سے ان دونوں کے لیے سامان اکٹھا کرنے میںمصروف رہی ہے دوبئی سے واپس آتے ہوئے ہم جو سامان لائے ہیں، ان میں آدھے سے زیادہ وہی کراکری اور ڈیکوریشن پیسز ہیں جو وہ امبر کے لیے خریدتی رہی ہے۔ ہم لوگ تو بالکل تیار بیٹھے ہیں۔” منصور نے لاپروائی سے کہا۔
٭٭٭
وہ کالج کے گراؤنڈ میں اپنی کچھ فرینڈ کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ ماریہ اپنی حال میں ہی ہونے والی منگنی کی تصویریں لائی تھی اور وہ چاروں بڑی دلچسپی سے تصویریں دیکھتے ہوئے ان پر تبصرے کرنے میں مصروف تھیں۔ چونکہ وہ خود بھی منگنی کی اس تقریب میں شرکت کر چکی تھی اس لیے ہر تصویر پر زیادہ ہی غور کیا جارہا تھا ایک دوسرے کی تصویروں کا مذاق بھی اڑایا جارہا تھا۔
”یہ بات تو کسی شبہے کے بغیر کہی جاسکتی ہے کہ سب سے اچھی تصویریں امبر کی آئی ہیں۔”
سمیعہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑا البم بند کرتے ہوئے کہا امبر نے اس کے تبصرے کے جواب میں ہاتھ میں پکڑی پیپسی کا ایک گھونٹ لیا ایسی تعریفیں اور تبصرے اس کے لیے نئے نہیں تھے، وہ بچپن سے اس طرح کی باتیں سنتی آئی تھی۔
”اور سب سے بری تصویریں یقیناً میری آئی ہیں۔” نمرہ نے بہت افسردگی کے عالم میں اپنی ایک تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا ”آخر فوٹوگرافر مجھے ہمیشہ اتنے برے طریقے سے ہی کیوں Capture کرتا ہے۔” اس کے شکوے شروع ہو گئے تھے۔
”دکھاؤ، ایسی کون سی بری تصویر آگئی ہے جو تم سے برداشت نہیں ہو رہی۔” امبر نے ہاتھ بڑھا کر اس سے البم لے لیا۔
”ٹھیک تو ہے ،اب ایسی بری بھی نہیں۔ بس تمہاری آنکھیں چار نظر آرہی ہیں۔” امبر نے بڑی سنجیدگی سے اسے دلاسا دیا۔
”حالانکہ تین آنی چاہئیں۔” ماریہ نے بھی اسی سنجیدگی کے ساتھ اضافہ کیا۔
”اور تمہارے منگیتر کی یقینا ڈھائی آنی چاہئیں۔ بلکہ ڈیڑھ۔” نمرہ اس کے تبصرے پر بری طرح مشتعل ہو گئی۔
”بھئی، کامران کی بات کیوں کرتی ہو، تم میری بات کرو۔” ماریہ نے ہنس کر اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
”میرے تو یہی سمجھ میں نہیں آرہا کہ تمہارے فوٹو گرافر نے میرے کپڑوں کے کیمل کلر کو گولڈن کیسے کر دیا۔ حد ہوتی ہے ہر بات کی۔” سونیا اپنی تصویر لیے بیٹھی تھی۔
”تم فوٹو گرافر بدل لو ماریہ! تمہاری برتھ ڈے پر بھی اسی شخص نے تصویروں کا بیڑا غرق کیا تھا اب پھر اس نے وہی گل کھلائے ہیں۔”
”آخر امبر کی یا میری تصویریں کیوں خراب نہیں ہوتیں صرف تم لوگوں ہی کی کیوں خراب آئی ہیں۔” ماریہ نے فوٹو گرافر کا دفاع کرتے ہوئے کہا۔ ”اس کا صاف مطلب تو یہی ہے کہ فوٹو گرافر میں کوئی خرابی نہیں ہے یہ صرف تم…” سمیعہ نے اس کی بات کاٹ دی۔




Loading

Read Previous

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!