تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

صبغہ نے لاؤنج سے نکلتے ہوئے کہا وہ امبر کے مزاج کو جانتی تھی اور اسے یہ بھی علم تھا کہ اس وقت امبر کو باہر لانا جان جوکھوں کا کام تھا مگر وہ طلحہ کو اس طرح شرمندہ اور پریشان نہیں دیکھ پائی تھی۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ منیزہ امبر کو منانے کے لیے نہیں جائیں گی۔
”امبر! طلحہ بھائی آئے ہیں۔” اس نے امبر کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ جو اب اپنے کپڑے تبدیل کیے ایک ٹی شرٹ اور جینز پہنے بیڈ پر بیٹھی اپنے ہاتھوں پر کیوٹکس لگانے میں مصروف تھی۔ صبغہ کے اندر داخل ہونے پر اس نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”آیا ہے تو میں کیا کروں؟” وہ دوبارہ کیوٹکس لگانے میں مصروف ہو گئی۔
”اب ناراضی چھوڑ دو… اور چلی جاؤ… وہ کہہ رہے ہیں، کوئی ایمرجنسی تھی… امبر! ہو جاتا ہے ایسا۔” صبغہ نے نرم آواز میں بات کرتے ہوئے امبر کے ہاتھوں سے کیوٹکس لینے کی کوشش کی مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئی۔
”تمہیں کیا تکلیف ہے… خواہ مخواہ میں آگئی ہو… میں نے کہا ہے تاکہ میں اس کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی۔” امبر نے درشتی سے کہا۔
”کتنی بری بات ہے امبر…! اب وہ نیچے آئے بیٹھے ہیں اور معذرت بھی کر رہے ہیں… معاف کر دو انہیں… اور جاؤ ان کے ساتھ۔” صبغہ نے امبر کا غصہ ٹھنڈا کرتے ہوئے کہا۔
”کیوں آکر بیٹھا ہے نیچے، جب میں نے فون پر اس سے کہہ دیا تھا کہ اسے یہاں آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو وہ کیوں آیا ہے۔” وہ اس کے لہجے سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔
”امبر! اب اٹھ جاؤ… کافی ناراضی ہو گئی… اب بس ختم کرو یہ سب… وہ دیر سے آئے ہیں مگر آ تو گئے ہیں۔” صبغہ نے ایک بار پھر کہا۔
”تمہیں اتنی ہمدردی کیوں ہے اس سے… تم کیوں سفارش کر رہی ہو اس کی… یہ میرا اور اس کا معاملہ ہے۔ تم دفع ہو جاؤ یہاں سے۔” امبر نے کیوٹکس کی شیشی اٹھا کر دور پھینک دی۔




”امبر! اچھا نہیں لگتا… وہ بے چارے کیا سوچیں گے… تم ان سے بات کرکے دیکھو… ان سے پوچھو تو کہ ان کو کیا ایمرجنسی ہوئی تھی۔” صبغہ نے کہا۔
”میں نے تم سے کہا ہے تاکہ تم یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ پھر تم یہاں کیوں کھڑی ہو۔” امبر پر اس کی کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
صبغہ اگلے کئی منٹ اسے منانے کی کوشش کرتی رہی مگر کامیاب نہیں ہوئی… مایوس ہو کر وہ اس کے کمرے سے باہر نکل آئی۔
طلحہ نے صبغہ کو اکیلے لاؤنج میں آتے دیکھا۔ اس کے چہرے پر ایک کھسیانی مسکراہٹ تھی۔
”وہ نہیں آرہی، آپ خود اس سے بات کر لیں۔”
طلحہ ایک گہری سانس لیتے ہوئے صوفہ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ ”ٹھیک ہے میں خود ہی اس سے بات کرتا ہوں۔” وہ لاؤنج سے نکل گیا۔
وہ دروازے پر دستک دیئے ہوئے اندر داخل ہوا تو امبر ایک میگزین دیکھنے میں مصروف تھی۔ اس نے صرف ایک نظر طلحہ کو دیکھا اور ایک بار پھر میگزین دیکھنے میں مصروف ہو گئی۔
”آئی ایم سوری… آئی ایم ویری سوری۔ مگر مجھے کام ہی ایسا پڑ گیا تھا کہ میں وقت پر نہیں آسکا۔” طلحہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
امبر میگزین دیکھنے میں مصروف رہی اس کا چہرہ مکمل طور پر بے تاثر تھا۔
”اچھا مجھے یہ بتا دو کہ میں تمہیں منانے کے لیے کیا کروں… جس سے تمہاری ناراضی ختم ہو جائے۔” طلحہ نے کہا۔
”تم یہاں سے چلے جاؤ۔ میری ناراضی ختم ہو جائے گی۔” اس نے یک دم میگزین سے نظریں اٹھا کر اس سے کہا۔
”یہ میں نہیں کر سکتا۔ آخر اتنی ناراضی کی وجہ کیا ہے… میں نے تم سے ایکسکیوز کیا ہے… مجھے واقعی کوئی ایمرجنسی تھی۔” طلحہ نے کہا۔
”مجھے کسی ایکسکیوز میں کوئی دلچسپی نہیں ہے… میں تمہاری ملازمہ نہیں ہوں کہ دو دو گھنٹے تمہارا انتظار کرتی رہوں… اور تم جب چاہے منہ اٹھائے آجاؤ۔” امبر نے میگزین کو ایک طرف اچھال دیا۔
”مانتا ہوں۔ میری غلطی ہے… اور میں اسی لیے ایکسکیوز کر رہا ہوں۔” طلحہ نے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”مجھے دلچسپی نہیں ہے تمہارے ایکسکیوزز میں… میں اب تمہارے ساتھ کہیں بھی نہیں جانا چاہتی۔ تم اپنے گھر جاؤ… اور آرام سے سو جاؤ۔” وہ اسی تلخی کے ساتھ بولی۔
تمہارے اس طرح کے موڈکے ساتھ میں کچھ اور کر سکتا ہوں؟… اور تم سونے کی بات کر رہی ہو۔”
طلحہ نے کچھ بے بسی کے ساتھ کہا… امبر کو منانا دنیا کا سب سے مشکل کام تھا اور یہ کام وہ پہلی بار نہیں کر رہا تھا۔
”تمہیں اگر میری اتنی پرواہ ہوتی تو تم اس طرح مجھے انتطار نہ کرواتے۔” امبر اس کے لہجے سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔
”میں نے جان بوجھ کر تمہیں انتظار نہیں کروایا… بس دیر ہو گئی۔”
”تم مجھے فون کر سکتے تھے۔”
”ہاں مجھ سے غلطی ہوئی، مجھے فون ضرور کر دینا چاہیے تھا مگر بس میرے ذہن سے ہی نکل گیا۔” طلحہ نے اعتراف کیا۔
”یہ اہمیت ہے میری تمہاری زندگی میں کہ تمہیں مجھے فون تک کرنا یاد نہیں رہا۔” امبر اس کی بات پر اور مشتعل ہوئی۔
”امبر… میں…” طلحہ بری طرح گڑبڑایا۔
”میں… میں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بس تم یہاں سے دفع ہو جاؤ۔” وہ اس پر دھاڑی۔
”میں تم سے ایکسکیوز کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔” طلحہ نے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی ایک اور کوشش کی۔
”آئندہ… آئندہ میں تمہارے ساتھ جاؤں گی تب نا…” امبر پر اس کی معذرت کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ”مجھے بہت برے لگتے ہیں وہ لوگ جو تمہاری طرح غلط کام کرکے ایکسکیوز کرتے رہتے ہیں… جو بندہ جتنی زیادہ ایکسکیوزز کرتا ہے، وہ اتنا ہی بڑا جھوٹا ہوتا ہے۔”
طلحہ اس کی بات پر چند لمحوں کے لیے کچھ بھی نہیں بول سکا، وہ واقعی ایکسکیوزز سے کبھی بھی مطمئن ہوتی تھی نہ ہی ایکسکیوزز اس کا غصہ ٹھنڈا کرتے تھے۔
”اچھا چلو ٹھیک ہے۔ میں ایکسکیوز نہیں کرتا مگر وعدہ کرتا ہوڈ کہ دوبارہ ایسا کبھی نہیں کروں گا۔” طلحہ نے چند لمحوں کے بعد کہا۔
”مجھے وہ لوگ بھی بہت برے لگتے ہیں جو ہر بات میں وعدہ کرتے رہتے ہیں، کیا صرف کوئی بات کہہ دینا کافی نہیں ہوتا کہ اس میں وعدے کی پخ بھی لگائی جائے۔” وہ اس کی بات پر اور مشتعل ہوئی۔
”اچھا تو مجھے بتاؤ پھر آخر میں کیا کروں، تمہاری ناراضی ختم ہو جائے۔” طلحہ نے بے بسی سے کہا۔
”میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا۔ تم یہاں سے چلے جاؤ… تو میرا غصہ ختم ہو جائے گا۔” وہ اسی طرح بولی۔
”It’s not fair” (یہ صحیح نہیں ہے) طلحہ نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا ۔ اس کا سرخ چہرہ اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا تھا۔ ”تم جانتی ہو میں تمہیں اس طرح چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔”
”تو پھر کس طرح جا سکتے ہو؟” وہ اسی طرح بولی۔
وہ چند لمحے چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے کہا ”ہاتھ جوڑوں تمہارے سامنے؟”
”تم پاؤں بھی پڑو گے تو بھی میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گی۔”
خفت سے طلحہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر کمرے سے نکل گیا۔
”آنٹی! میں جارہا ہوں۔” لاؤنج میں آکر اس نے منیزہ سے کہا اور پھر مزید کوئی بات کیے بغیر انہیں خدا حافظ کہتے ہوئے باہر نکل گیا۔
”ممی! امبر کو ساتھ چلے جانا چاہیے تھا… اتنا تنگ تو نہیں کرنا چاہیے۔” صبغہ نے طلحہ کو جاتے دیکھ کر کہا۔
”یہ بات تو طلحہ کو سوچنی چاہیے۔ غلطی تو اسی کی ہے تمہارے سامنے امبر نے کتنا انتظار کیا ہے اس کا۔” منیزہ متاثر ہوئے بغیر بولیں۔
”پھر بھی ممی! طلحہ بھائی کتنا شرمندہ ہو رہے تھے۔ ایکسکیوز بھی کیا انہوں نے… آپ کو امبر کو سمجھانا چاہیے تھا۔”
”میرے سمجھانے سے بھی یہی ہونا تھا جو اب ہوا ہے، آخر تم بھی تو سمجھانے گئی تھیں… کیا تمہاری بات اس نے مان لی؟” منیزہ نے کچھ ناراضی کے ساتھ صبغہ کو دیکھا۔ صبغہ ایک گہری سانس لے کر ایک بار پھر ٹی وی دیکھنے لگی۔
٭٭٭
امبر بی بی! آپ سے ایک بات کرنا ہے۔” صابرہ امبر کے کمرے کی صفائی کر رہی تھی اور امبر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی اپنے بالوں میں برش کر رہی تھی۔ جب صابرہ کچھ ہچکچاتے ہوئے اس کے پیچھے آکر کھڑی ہو گئی۔
”ہاں بولو، کیا بات کرنی ہے؟” امبر نے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے سے اسے دیکھئے ہوئے کہا۔
”میری بیٹی کی شادی ہو رہی ہے اگلے ہفتے۔” اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔
”اچھا…” امبر مسکرائی۔ ”کہاں ہو رہی ہے؟”
”اس کے چچا کے بیٹے سے۔”
امبر اپنے بالوں میں برش کرتی رہی۔
”کیا کرتا ہے وہ؟”
”مالی ہے ایک بنگلے پر۔” صابرہ نے بتایا۔
”مجھے آپ سے ایک درخواست کرنی تھی…” اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں کہو… کیا کہنا ہے۔” امبر نے اپنا برش ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا۔
”اگر آپ اپنے کچھ پرانے کپڑے اور جوتے دے دیتیں تو بڑی مہربانی ہوتی جی آپ کی۔”
”بس اتنی سی بات ہے… آؤ۔ میں تمہیں ابھی نکال دیتی ہوں۔” وہ بڑی لاپروائی سے کہتی اسے ساتھ لے کر اپنے ڈریسنگ روم میں آگئی اور اپنی وارڈ روب کھول کر کھڑی ہو گئی۔ ایک نظر اندر لٹکے ہوئے کپڑوں پر ڈالتے ہوئے اس نے بڑی بے نیازی کے ساتھ یکے بعد دیگرے بہت سارے سوٹ نکال کر کارپٹ پر رکھ دیے۔ پھر اسی طرح باری باری جوتوں کے کئی جوڑے بھی نکال کر رکھتی گئی۔ ڈریسنگ کے فرش پر کپڑوں اور جوتوں کا ایک انبار لگ گیا تھا۔ صابرہ کا چہرہ اس کی خوشی کو پوری طرح نمایاں کر رہا تھا۔
امبر نے کپڑوں اور جوتوں کے بعد کچھ ہینڈ بیگ بھی نکال کر باہر رکھ دئیے۔
”آؤ میں تمہیں میک اپ کا کچھ سامان بھی دیتی ہوں۔” وہ کہتی ہوئی دوبارہ اپنے بیڈ روم میں داخل ہوئی اور اپنے ڈریسنگ ٹیبل پر موجود ڈھیروں پرفیومز اور دوسرے کاسمیٹکس کے سامان سے اس نے بہت سی چیزیں نکال کر الگ کر دیں اور پھر صابرہ کو انہیں اٹھانے کے لیے کہا۔
جتنی دیر صابرہ ان چیزو ںکو اٹھاتی، وہ اپنے بیڈ کے دراز میں سے کچھ روپے نکال چکی تھی۔
”یہ پانچ ہزار روپے ہیں، میری طرف سے اپنی بیٹی کو دے دینا۔”
اس نے صابرہ کی طرف وہ روپے بڑھائے اور ایک بار پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ کر اپنے بالوں میں برش کرنے لگی۔ صابرہ اگلے کئی منٹ اسے دعائیں دیتی رہی مگر امبر کا ذہن اس وقت کہیں اور تھا… وہ اس کی دعائیں نہیں سن رہی تھی۔
٭٭٭
”تمہارے جیسا عقل سے پیدل میں نے کبھی نہیں دیکھا۔” منیزہ امبر کے سر پر کھڑی اس پر چلا رہی تھیں۔
”ممی! کیوں خوامخواہ شور کر رہی ہیں؟” امبر نے بیزاری سے کہا۔
”شور نہ کروں تو اور کیا کروں، تمہارے ہاتھ میں ہو تو تم تو سارا گھر اٹھا کر باہر فٹ پاتھ پر رکھ دو۔” منیزہ اس کی بات پر کچھ اور مشتعل ہوئی۔
امبر لاپروائی سے ناشتہ کرتی رہی۔ ”جو چاہے تمہیں بے وقوف بنا سکتا ہے۔”
”مجھے کوئی بے وقوف نہیں بنا سکتا… آپ چھوٹی سی بات پر اتنا ہنگامہ کر رہی ہیں۔” اس نے انڈے کے چھلکے اتارتے ہوئے اطمینان سے کہا۔
”میں ہنگامہ کر رہی ہوں۔ تم نے صابرہ کو ایک نہ دو پورے پانچ ہزار اٹھا کر دے دئیے اور میں اسے چھوٹی سی بات سمجھوں… کپڑوں اور جوتوں کی تو چلو کوئی بات نہیں مگر اتنے روپے کیوں دئیے تم نے؟”
”اس کی بیٹی کی شادی ہے ممی۔” امبر نے اسی اطمینان کے ساتھ کہا۔
”اس کی بیٹی کی شادی ہے تو پھر ہم کیا کریں… اس فراڈ عورت نے مجھ سے پیسے لیے اور پھر تم سے بھی اسی طرح پیسے بٹورے؟”
”آپ نے اسے کتنے پیسے دئیے…؟” امبر نے اپنا ہاتھ روکتے ہوئے کہا۔
”ایک ہزار روپیہ دیا۔” منیزہ نے کہا امبر بے اختیار ہنسی۔
”آپ بھی کمال کرتی ہیں ممی…! ایک ہزار روپیہ دے رہی ہیں پھر تو اچھا ہی ہوا میں نے اسے کچھ روپے دے دئیے۔” وہ ایک پھر انڈا چھیلنے لگی۔
”تو اور کتنے دیتی اسے… ایک ماہ کی تنخواہ بھی ایڈوانس دی ہے اسے… اب تمہاری طرح گھر کی چابیاں تو نہیں پکڑا سکتی میں۔” منیزہ اس کی بات پر مزید ناراض ہوئیں۔ ”اور اس فراڈ عورت کو دیکھو۔ مجھ سے اس نے روپے لیے اور ساتھ تم سے بھی لے لیے… آج آئے تو ذرا۔”




Loading

Read Previous

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!