تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

”میری کسی بات سے اگر تم لوگوں کو تکلیف پہنچی ہو تو میں اس کے لیے بہت زیادہ معذرت کرتی ہوں۔”
جس دقت اور خفت کے ساتھ یہ جملہ شبانہ نے ادا کیا تھا… وہ صرف وہی جانتی تھیں۔ وہ اس وقت مسعود کے ساتھ منصور کے گھر کے لاؤنج میں بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کے علاوہ منصور اور منیزہ بھی وہاں موجود تھے۔ جس وقت وہ آئے تھے اس وقت ان کا موڈ خاصا خراب تھا مگر اب کچھ وقت گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ وہ نارمل ہو گئے تھے۔ خاص طور پر ان کی معذرت کے بعد۔
”معذرت تو خیر… میں تو بھابھی یہ توقع ہی نہیں کر رہا تھا کہ آپ میری بیٹیوں کے بارے میں ایسی کوئی بات کریں گی۔” منصور نے بے رخی سے کہا ”اتنے چاؤ سے میں نے آپ لوگو ںکے ہاں اپنی بیٹیوں کے رشتے کیے تھے اور اب آپ…” منصور نے بات ادھوری چھوڑ دی اور اپنی کافی میں کچھ اور کریم شامل کی۔
”پھر آپ نے یہ باتیں کہیں بھی دوسرے لوگوں کے سامنے… اگر آپ کو امبر یا صبغہ پر کوئی اعتراض تھا یا ہم سے کوئی شکایت تھی تو آپ ہم سے ڈائریکٹ آکر بات کرتیں۔” ان کے لہجے میں واضح تلخی تھی۔
”منصور! اگر میں یہ کہو ںگی کہ یہ سب کچھ مس انڈر اسٹینڈنگ ہے۔ کسی نے میرے خلاف تم لوگوں کو غلط معلومات دی ہیں تو تم یہ بات نہیں مانو گے… ورنہ خود ہی سوچو کہ میں اتنی بے وقوف اور خود غرض کیسے ہو سکتی ہوں۔” مسعود، منصور اور منیزہ کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھ رہے تھے۔ وہ اس جھگڑے کو ختم کرنا چاہتے تھے، انہو ںنے شبانہ کی بات کاٹ دی۔
”بس ٹھیک ہے۔ اب تم نے معذرت کر لی۔ سب کچھ ختم ہو گیا… دل صاف ہو گئے۔ کس نے کب کس سے کیا کہا۔ یہ بھول جاؤ۔ میں اپنی طرف سے تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ تمہیں اور تمہاری بیٹیوں کو ہماری طرف سے کوئی شکایت نہیں ہو گی بلکہ تمہاری بیٹیاں کیا… ہماری اپنی بیٹیاں… کیوں شبانہ؟”
”بالکل اور کیا… ہماری اپنی ہی بیٹیاں ہیں۔” شبانہ نے فوراً ہی شوہر کی تائید کی۔ ”اگر آپ لوگوں نے بڑے چاؤ کے ساتھ ہمارے یہاں رشتہ کیا ہے تو ہم نے بھی کچھ کم چاؤ کے ساتھ رشتے نہیں کیے ہیں۔ آپ ہماری طرف سے دل صاف کر لیں اب ایسی کوئی بات ہماری طرف سے نہیں سنیں گے۔”




”ہاں۔ بہتر یہی ہے شبانہ بھابھی کہ آپ کی طرف سے اب کوئی بات یا شکایت نہ ہی ہو۔” منصور نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا کپ میز پر رکھتے ہوئے کچھ تیکھے انداز میں کہا۔ ”ورنہ پھر لڑکوں کی نہ ہمیں کمی ہے اور نہ ہی لڑکیوں کی آپ کو… دنیا بھری ہوئی ہے۔”
مسعود اس کی بات پر صوفہ پر پہلو بدل کر رہ گئے۔
”میں ویسے بھی دو ٹوک اور صاف بات کرنے کا عادی ہوں۔ فضول باتیں نہ کرتا ہوں نہ سنتا ہوں۔” منصور نے اسی انداز میں اپنی بات جاری رکھی۔ ”وہ روایتی قسم کی بیٹیو ںکا باپ نہ سمجھئے گا مجھے… جو صرف بیٹیوں کی وجہ سے اپنے کندھے اور سرجھکائے رکھتا ہے اور ہر فضول بات برداشت کرتا ہے۔ نہ میں خود یہ کروں گا نہ ہی میں نے اپنی بیٹیوںکو ایسی تربیت دی ہے۔ میں نے رشتے برابری کی بنیاد پر قائم کیے ہیں او راگر یہ برابری نہیں رہے گی تو رشتے بھی نہیں رہیں گے۔” منیزہ نے مسکراتے ہوئے بڑے انداز سے شبانہ کو دیکھا جن کا رنگ کچھ اور پیلا ہو گیا تھا۔
”آپ کو اگر اللہ میاں کی گائے ٹائپ کی بہوئیں چاہئیں تو اس کی بھی پاکستان میں کمی نہیں ہے، میرے گھر کے علاوہ آپ کو کہیں بھی ایسی لڑکیاں مل سکتی ہیں۔ بہتر ہے، یہ انتخاب آپ رخصتی سے پہلے ہی کر لیں۔ میں نہیں چاہتا بعد میں آپ کو بھی کوئی پچھتاوا ہو اور ہمیں بھی۔” منصور نے کندھے اچکاتے ہوئے بڑی لاپروائی سے ان سے کہا۔
”منصور… یار! تم کیسی باتیں کر رہے ہو… میں تمہیں بتا تو رہا ہوں کہ آئندہ ہماری طرف سے تمہیں کوئی شکایت نہں ہو گی۔” مسعود نے ایک بار پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ”اور شبانہ تو تم سے معذرت بھی کر چکی ہے… اب تم بھی اپنے دل کو صاف کر لو۔”
”میرا دل صاف ہی ہے مسعود بھائی…! اس لیے تو میں آپ لوگوں کو ان رشتوں پر دوبارہ سوچنے کا موقع دے رہا ہوں۔” منصور نے بڑے پرسکون انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
”دل میں میل ہوتا تو اس وقت آپ دونوں سے یہ ملاقات نہ ہو رہی ہوتی… کچھ اور ہو رہا ہوتا۔”
”منصور! یقین کرو ایسی کوئی بات نہیں ہے… امبر اور صبغہ جتنی تمہیں عزیز ہیں مجھے بھی کم عزیز نہیں، پھر بھی اگر کوئی غلط فہمی ہے تو میں معذرت کرتی ہوں۔ آئندہ تم ایسی کوئی بات نہیں سنو گے۔” شبانہ نے اس بار قدرے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا۔
”بلکہ تم اگر کہتے ہو تو میں امبر اور صبغہ سے بھی معذرت کر لیتی ہوں… تاکہ ان کے دل بھی صاف ہو جائیں۔”
”نہیں اس کی ضرورت نہیں… آپ نے ہم دونوں سے معذرت کر لی یہی کافی ہے۔” منصور کو ان پر جیسے ترس آگیا تھا حالانکہ منیزہ نے ان کو قدرے ناراضی سے دیکھا تھا۔
”چلیں چھوڑیں، اب آپ چائے پئیں۔” منصور نے گفتگو کا موضوع بدلتے ہوئے کہا۔ ”یا پھر آپ کے لیے بھی کافی منگوا دوں؟”
٭٭٭
”بس تم لوگوں کو مجھے ذلیل کرنے کا شوق تھا، وہ پورا ہو گیا۔” شبانہ منصور کے گھر سے واپسی پر اپنے لاؤنج میں بیٹھی ہوئی بری طرح مشتعل ہو رہی تھیں۔ طلحہ اور اسامہ بھی وہیں موجود تھے۔
”اس میں ذلیل کرنے والی تو کوئی بات ہی نہیں ہے؟ آپ نے بے جابات کی تھی… اس لیے آپ کو معذرت کرنا پڑی اور اپنی غلطی پر معذرت کرنا کوئی ذلیل کرنا یا ذلیل ہونا نہیں ہوتا۔”
شبانہ بیٹے کی بات پر اور مشتعل ہوئیں ”اپنا منہ بند رکھو تم… تمہیں تو ان لوگوں کی کسی بات سے کوئی بے عزتی کبھی محسوس ہوتی ہی نہیں۔ تمہاری آنکھوں پر تو امبر کے عشق کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔”
طلحہ نے احتجاجی نظروں سے باپ کو دیکھا۔ ”آپ سن رہے ہیں۔ کس طرح کی باتیں کر رہی ہیں امی…! انہیں کچھ بھی احساس نہیں ہوتا۔”
”بالکل اسی طرح جس طرح تم ماں کے لیے کچھ محسوس نہیں کرتے… سب کچھ امبر اور اس کا خاندان ہی ہو گیا ہے تمہارے لیے۔”
”آپ بہت زیادتی کر رہی ہیں امی! آپ نے خود میرا نکاح اس سے کیا ہے، مجھے تو صحیح معنو ںمیں عقل بھی نہیں تھی تب، اب آپ کو اعتراض ہو رہا ہے۔” طلحہ نے کہا۔
”اب بھی عقل نہیں ہے تمہیں… اور میں نے تو اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ہے وہاں تم دونوں کا نکاح کرکے… پورا خاندان بھرا ہوا تھا لڑکیوں سے، وہ کون سی حوریں تھیں جن کے علاوہ ہمیں کوئی اور نہ ملتا۔”
”آپ مجھے کیوں بیچ میں لے کر آرہی ہیں۔ بات کرنی ہے تو طلحہ اور امبر کی کریں۔ میری اور صبغہ کی کیوں کر رہی ہیں۔” اسامہ نے پہلی بار اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔
”کیوں تمہاری اور صبغہ کی بات کیوں نہ کروں؟”
”میں نے تو آپ کی کسی بات پر اعتراض نہیں کیا…”
”تم کوئی کم دیوانے تو نہیں ہو صبغہ کے؟”
”تو کم دیوانے تو بابا بھی نہیں ہیں آپ کے… ہم دونوں ان ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔” اسامہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔
شبانہ اسامہ کی بات پر کچھ گڑبڑا گئیں۔ ”آپ نے دیکھا کس طرح یہ دونوں بکواس کر رہے ہیں… کوئی ادب اور احترام باقی نہیں رہا ان دونوں کی نظروں میں ہمارے لیے۔” شبانہ نے اس بار مسعود کو مخاطب کرتے ہوئے شکایتی انداز میں کہا۔
”جس کا کھائیں گے اسی کے گن گائیں گے۔” اسامہ نے بلند آواز میں کہا۔
شبانہ اور مسعود کچھ لمحہ کے لیے کچھ نہیں بول سکے۔
”آپ سے کس نے کہا تھا آپ منصور انکل کے ساتھ اتنے تعلقات بڑھائیں… صرف ان کی دولت کے لیے اتنے بچپن میں ہم لوگوں کے گلوں میں پھندے ڈال دیے اور اب اگر ہم ان پھندوں کے عادی ہو گئے ہیں تو پھر آپ کو اعتراض کیوں ہونے لگا ہے۔” اسامہ ہمیشہ سے اسی طرح مختصراور صاف صاف بات کیا کرتا تھا۔
”اور پھر آپ کو اب اس طرح کی فضول باتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے… منصور انکل کی جگہ کوئی دوسرا بھی ہوتا تو وہ بھی اسی طرح ناراض ہوتا جس طرح وہ ہو رہے ہیں۔ اتنے احسانات ہیں ہم پر ان کے… اور آپ ہیں کہ…” طلحہ نے ترشی سے ماں سے کہا۔
”اور ہم دونوں کے کوئی احسانات نہیں ہیں تم لوگو ںپر…” شبانہ نے بھڑک کر کہا۔
”ہم نے کب کہا کہ نہیں ہیں… آپ کے بھی احسانات ہیں ہم پر۔ مگر اب آپ اس طرح ہمارے گھر برباد کرکے ان احسانات کا بدلہ لینے کی کوشش نہ کریں۔” طلحہ نے متاثر ہوئے بغیر ان سے کہا۔
”اور امی! آپ کاٹمپرامنٹ جس ٹائپ کا ہے… آپ تو کبھی خوش نہیں سکتیں چاہے اللہ تعالیٰ آپ کے لیے آسمان سے بہو بھیج دے۔ آپ اس میں بھی برائیاں اور خامیاں تلاش کر لیں گی۔ کم از کم یہ وہ کام ہے جس میں آپ کو اول درجہ کی مہارت حاصل ہے۔” اس بار اسامہ نے قدرے ہلکے پھلکے اندازمیں مسکراتے ہوئے کہا۔
”مجھ میں بڑی برائیاں نظر آرہی ہیں، منیزہ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ جب بیٹیوں کی شادی کے بعد وہ بیٹیوں کے ذریعے تم لوگوں کو اپنی انگلیوں پر نچائے گی تب تم لوگوں کو احساس ہو گا کہ میں ٹھیک کہتی تھی۔” شبانہ نے ناراضی سے کہا۔
”تو پھر آپ آج گئی تھیں وہاں، ختم کر آتیں یہ رشتہ… نہ کرتیں معذرت۔” اسامہ نے سنجیدگی سے کہا۔ اس بار شبانہ کوئی جواب نہیں دے سکی۔
”خوامخواہ بحث میں کیوں الجھی ہوئی ہو تم بیٹوں کے ساتھ… ختم کرو یہ سب کچھ۔” اس بار مسعود نے کچھ بیزار انداز میں کہا۔ ”بس آئندہ محتاط رہنا۔”
”آپ نے منیزہ کو دیکھا تھا، وہ کس طرح بار بار مسکرا رہی تھی۔”
”اگر وہ نہ مسکراتی تو تمہیں پھر اعتراض ہوتا کہ وہ ایک بار بھی نہیں مسکرائی… منہ بنا کر بیٹھی رہی۔” مسعود نے ان کی بات کے جواب میں کہا۔
”وہ طنزیہ مسکراہٹ تھی… وہ تو آج بہت خوش ہو رہی ہوگی… پھولے نہیں سمائی ہوگی، اس طرح سب کے سامنے مجھے بے عزت کرکے۔” شبانہ کو اب بار بار منیزہ کا خیال آرہا تھا۔
”تمہیں اگر اس کے سامنے اپنی عزت کا اتنا احساس ہوتا تو تم اس طرح کی فضول باتیں کبھی نہ کرتیں۔” مسعود نے بڑی سرد مہری سے کہا۔
”کتنی بار میں آپ سے کہوں کہ میں نے کچھ بھی نہیں کہا۔ یہ سب منیزہ کی چال ہے۔ وہ مجھے بے عزت کرنا چاہتی تھی اور وہ اس میں کامیاب ہو گئی۔” شبانہ نے تلملا کر کہا۔
”میں تو اپنے کمرے میں جارہا ہوں۔ امی کو سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔” طلحہ نے ماں کی بات پر بیزاری سے کہا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
”میں بھی چلتا ہوں… مجھے بھی کچھ کام ہے۔” اسامہ بھی اس کے ساتھ ہی کھڑا ہو گیا۔
”آپ دیکھ رہے ہیں ان دونوں کو؟” اسامہ اور طلحہ کو اس طرح بے اعتنائی سے جاتے دیکھ کر شبانہ کو صدمہ ہوا۔
”مجھے بھی سونے کے لیے جانا ہے۔ تم تو اپنی ان باتوں کو کبھی بھی ختم نہیں کرو گی۔” مسعود بھی اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ ”تمہارے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ بیٹے اب بڑے ہو چکے ہیں، ان کے سامنے اپنی عزت قائم رکھو… اس طرح کی باتوں اور حرکتوں کے ذریعے اسے نہ گنواؤ… ورنہ وہ خاموش نہیں رہیں گے۔ چاہے ان کے سسرال میں منیزہ ہو یا کوئی اور۔” مسعود نے اپنی طرف سے شبانہ کو سمجھانے کی آخری کوشش کرتے ہوئے کہا۔
شبانہ نے مشتعل ہو کر شوہر کو دیکھا جو اب لاؤنج سے باہر نکل رہے تھے۔ منیزہ اور ان کی بیٹیوں کے لیے یہ پہلی کدورت تھی جو انہو ںنے باقاعدہ طور پر اپنے دل میں پالی تھی۔ ”میں بھی منیزہ اور اس کی بیٹیوں کو اسی طرح ذلیل کروں گی… اسی طرح بے عزت کروں گی… کبھی نہ کبھی تو مجھے بھی موقع ملے گا اور پھر میں دیکھوں گی۔ اس گھر میں منیزہ اور اس کی بیٹیوں کے کتنے ہمدرد رہتے ہیں۔” انہو ںنے وہاں بیٹھے بیٹھے جیسے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا۔
٭٭٭
اگلا ایک ماہ امبر اور رخشی باقاعدگی سے ریہرسل کے لیے جاتی رہیں اور ان کی یہ ملاقاتیں صرف ریہرسل تک ہی محدود نہیں رہی تھیں… رخشی اب کالج میں امبر کے ساتھ ہی رہا کرتی… اگرچہ امبر کی دوستوں کو اپنے گروپ میں رخشی کی شمولیت پر اعتراض ہوا تھا… وہ سب رخشی کی خوبصورتی کو سراہتی تھیں مگر اس سے اس حد تک متاثر نہیں ہوئی تھیں کہ رخشی کو اس طرح اپنے گروپ میں شامل کر لیتیں… جس طرح امبر نے کیا تھا… سونیا نے خاص طور پر رخشی کی اپنے گروپ میں شمولیت پر اعتراض کیا تھا اور دوسروں کی طرح اس نے ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ اعتراض نہیں کیا تھا بلکہ دو ٹوک الفاظ میں امبر سے رخشی کی اپنے گروپ میں شمولیت کے خلاف ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔
”میں تمہیں سمجھ نہیں پائی امبر! تم ہر کسی کو پکڑ کر دوست بنا لیتی ہو… نہ اس کا فیملی بیک گراؤنڈ دیکھتی ہو نہ ہی کچھ اور… بس کوئی بندہ تمہیں اچھا لگنا چاہیے۔”
سونیا چند دن تو رخشی کو اس کے ساتھ ٹہلتے دیکھتی رہی مگر پھر جب یہ روٹین بن گئی تو اس نے ایک دن امبر سے صاف صاف بات کرنے کا فیصلہ کر لیا… اس دن رخشی نہیں آئی تھی…
”رخشی اچھی لڑکی ہے۔” امبر نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”رخشی اچھی لڑکی ہے کیونکہ اس کا فگر تمہیں پسند ہے۔ اس کی آنکھیں بڑی خوبصورت ہیں… اس کے نقوش بڑے مختلف سے ہیں۔” سونیا نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔ ”مگر دوستی کرنے کے لیے اور بھی بہت چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔”
”اس میں اور بھی بہت ساری خصوصیات ہیں… تم اپنے تعصب کو ایک طرف رکھ کر دیکھو تو تمہیں نظر آئیں گی۔” اس بات پر امبر نے کچھ برا مانتے ہوئے کہا۔
”معذرت کے ساتھ، مگر مجھے اس میں کوئی ایسی خاص خوبی نظر نہیں آئی کہ تم اس طرح اسے ڈھول کی طرح گلے میں لٹکا کر پھرو۔” سونیا نے اسی انداز میں کہا۔
”وہ بڑی اچھی نیچر کی ہے۔” امبر نے کہا۔
”کم آن امبر! جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں تمہیں اس سے ملے ہوئے اور تمہیں اس کی نیچر کا بھی پتا چل گیا ہے۔” سونیا اس کے انداز سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔
”تمہیں اس میں کیا برائی نظر آتی ہے؟” امبر نے سنجیدگی سے کہا۔
”خوشامدی ہے وہ… ہاں میں ہاں ملانے والی۔”
”نہیں وہ ایسی نہیں ہے۔” امبر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تمہیں اس کی یہ خامی تو خوبی لگ رہی ہو گی کونکہ وہ تمہاری ہی تو ہاں میں ہاں ملاتی ہے۔”
”سونیا! تم فضول باتیں نہ کرو۔” امبر نے اسے ٹوکا۔
”کوئی فضول باتیں نہیں ہیں یہ۔ تمہیں سمجھا رہی ہوں میں۔”
”تم مجھے سمجھانے کی کوشش نہ کرو… میں اچھی طرح جانتی ہوں میں کیا کر رہی ہوں۔” امبر نے اس بار کچھ چڑ کر کہا۔
”تم نے دیکھا ہے… تم سے دوستی کے بعد اس نے اپنی پرانی فرینڈز کو کس طرح چھوڑا ہے۔ یہ اس کی خود غرضی کی واضح مثال ہے۔” سونیا نے اس بار قدرے نرم لہجے میں اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر امبر متاثر نہیں ہوئی۔
”اس نے کسی کو نہیں چھوڑا… وہ اب بھی ان سے اسی طرح ملتی ہے۔ بس ذرا ان کے ساتھ وقت کم گزارتی ہے۔” امبر نے اس کا دفاع کیا۔
”اس کے فیملی بیک گراؤنڈ کا پتا ہے تمہیں؟” اس بار سونیا نے ایک اور نکتہ اٹھایا۔
”اب اس بات کی یہاں کیا تک بنتی ہے؟” امبر نے کہا۔
”تک بنتی ہے۔ آخر پتا تو ہونا چاہیے۔ کون ہے؟ کس فیملی سے تعلق رکھتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ہم سب ایک دوسرے کے فیملی بیک گراؤنڈ سے واقف ہیں۔”
”یہ اہم نہیں ہے۔” امبر اس کی دلیل سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔
”کیوں اہم نہیں ہے… کمپنی کا بڑا اثر ہوتا ہے۔”
”سونیا! ہم اتنے میچور ہیں کہ اب ایک دوسرے سے اثر قبول کرنا چھوڑ دیں اور تم اتنی کلاس اور اسٹیٹس کا نشس نہ ہوا کرو۔” امبر نے اس بار جیسے اس کا مذاق اڑایا۔




Loading

Read Previous

میرے آسماں سے ذرا پرے — مونا نقوی

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!